جمہوریت عوام اور خطرات
پاکستان کی تاریخ اورزمینی حقائق یہی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے کوئی تبدیلی آئی توعوام اسے خوش آمدید کہیں گے
TANDO ALLAHYAR:
11 مئی کو انتخابات ہوئے ایک سال ہو گئے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے احتجاجی جلسے کیے جس میں انھوں نے حکومت پر شدید تنقید کی جب کہ حکومتی پارٹی اس موقعہ پر اپنا دفاع کرتی رہی۔ ایک سال گزرنے کے باوجود ان کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا کہ وہ عوام کے پاس جاتے۔ انتخابات سے قبل برسراقتدار پارٹی نے جو وعدے کیے عوام ان کے پورا نہ ہونے پر مایوسی کا شکار ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مہنگی بجلی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اوپر سے لوڈشیڈنگ کا عذاب ۔ غریب و متوسط طبقے آج بھی سابق صدر پرویز مشرف کے دور کو شدت سے یاد کرتے ہیں کیونکہ ان کے دور میں آج کی نسبت بہت کم مہنگائی تھی۔
بقول عوام کے وہ خوشحال تھے۔ دو وقت کی روٹی کھاتے تھے۔ پیسے بھی ان کے پاس تھے۔ غریب کیا امیر لوگ بھی مشرف کے دور کو یاد کرتے ہیں۔ پراپرٹی کاروبار اپنے عروج پر تھا چاہے اس کی وجوہات کچھ بھی تھیں۔ اس کاروبار سے ہر طبقے کے لوگوں نے فائدہ اٹھائے۔ عوام کا مشرف دور کو شدت سے یاد کرنا حکمرانوں کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جب عوام کے پیٹ خالی ہوں اور وہ شدید قسم کے معاشی مسائل کا شکار ہوں تو نہ انھیں جمہوریت سے سروکار ہوتا ہے نہ آزاد عدلیہ، نہ آزاد میڈیا سے کیونکہ ان اداروں کے نام پر حکمران گروہ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں اور جب حقائق سامنے آتے ہیں تو وقت گزر چکا ہوتا ہے۔
مشرف کے خلاف جو تحریک چلی' اس میں سی آئی اے کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مرحوم پیر پگاڑا نے پیش گوئی بھی کی تھی۔ مشرف حکومت کے خاتمے میں تین سے چار افراد شامل تھے۔ آنے والا وقت ان چہروں سے نقاب اتار دے گا۔ ہم جیسے ملکوں میں تبدیلیاں خود بخود نہیں آ جاتیں نہ اچانک آتی ہیں۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک کا محل وقوع جس میں تبدیلی کے نتیجے میں برصغیر سے لے کر مشرق وسطیٰ تک متاثر ہو رہا ہو۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر پاکستان میں پتہ نہیں ہلتا۔ باقی معاملات میں انھوں نے مقامی حکمرانوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ اب آپ مصر کو دیکھ لیں کہ مصر میں اخوان المسلمون کے ذریعے تبدیلی لائی گئی۔
مصر میں تبدیلی کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر پڑا اور اس حد تک پڑا کہ عرب بادشاہتوں کو اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگا۔ اخوان المسلمون سے بھی بعض غلطیاں ہوئیں لیکن اسی مرحلے پر مصری فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ اب مغربی مفادات کا تحفظ مشرق وسطیٰ میں جنرل السیسی کریں گے۔ جو ''جنرل ضیاء الحق کی طرح پنج وقتہ نمازی اور پرہیزگار ہیں۔'' اس کے لیے عرب بادشاہتوں نے السیسی آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اربوں ڈالر کی بارش کر دی۔ کیونکہ السیسی کی مضبوطی میں عرب بادشاہتوں کی مضبوطی شامل ہے۔ اس ضمن میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا۔ سیکڑوں سال سے بادشاہتیں آمریتیں ہمارے خون میں رچی بسی ہوئی ہیں۔ چنانچہ مشرف کے ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود عوام آج بھی اسے یاد کرتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ اور آج کے زمینی حقائق تو یہی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے کوئی تبدیلی آئی تو عوام اسے پھر خوش آمدید کہیں گے۔ کیونکہ جمہوریت کے نام پرجمہور کا اقتدار کہیں نظر نہیں آتا اور آخر کار خاندانی بادشاہتیں قائم ہو جاتی ہیں۔ جس میں اقتدار خاندان، برادری اور دوستوں میں مرکوز ہو جاتا ہے۔ بے روزگاری اور غربت اپنے عروج پر ہے۔ بجلی کی قیمت دوگنی ہوگئی ہے۔ آٹا غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے اور عوام مہنگائی کے سیلاب میں غرق ہو رہے ہیں۔
سابق چیف جسٹس کی بحالی کے لیے یہ دلیل دی جاتی تھی کہ ان کی بحالی کے بعد گوالا دودھ میں پانی نہیں ملائے گا جب کہ آج یہ صورتحال ہے کہ ماتحت عدالتوں میں کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ عدالتی اخراجات نے غریب لوگوں کے گھر بار زیور، مویشی تک بکوا دیے ہیں۔ مجھے جیل سے سزائے موت کے قیدیوں کے اکثر ٹیلیفون آتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ان میں اکثر بے گناہ ہیں جنھیں ان کے طاقتور دشمنوں نے پولیس کے نظام میں رائج خامیوں کی مدد سے سزائے موت دلوا دی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جیلوں میں قید 75 فیصد سزائے موت کے قیدی بے گناہ ہیں جنھیں ناجائز طور پر ان مقدمات میں پھنسا دیا گیا ہے۔ غربت اور اعلیٰ حکام تک رسائی نہ رکھنا ان کا جرم بنا دیا گیا ہے۔ پولیس اور ماتحت عدلیہ ان غریبوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے ہر شخص کو اس کا علم ہے۔ ان حالات میں ڈاکٹر طاہر القادری نظام کی تبدیلی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے جب یہ اعلان کرتے ہیں کہ تمام عدالتوں میں غریبوں کے لیے مفت سرکاری وکیل ہوں گے۔ فوجداری مقدمہ فوری درج ہو گا اور 3 دن کے اندر چالان مکمل کرنے کے بعد ایک ماہ میں فیصلہ اور تین ماہ میں اپیلیں مکمل سن کر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
بے گھروں کو مفت گھر بیروزگاروں کو روزگار۔ میٹرک تک مفت تعلیم اور بے زمین کاشتکاروں کو سرکاری اراضی دیں گے تو کیوں نہ غریب عوام ان کی طرف کھنچے چلے جائیں۔ اب آپ لاکھ دہائی دیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے' وہ آپ کی آواز پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی جمہوریت سے باز آئے جس سے ٹوٹے کان۔ جمہوریت نے کون سی ان کی زندگی آسان بنائی ہے۔ ہر نیا آنے والا دن بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شکل میں ان کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو رہا ہے۔ جمہوریت کے ٹھیکیداروں اور ان کے ہمنوائوں کی جمہوریت سے کتنی وابستگی ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ حکمرانوں نے پچھلے6 سال میں بلدیاتی انتخابات ہی نہیں ہونے دیے۔ آج بھی ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔
مجھے تو اس دفعہ خطرہ اس بات کا ہے کہ مصر میں آمریت مستحکم ہونے کی صورت میں اگر پاکستان میں جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹا گیا تو یہ طویل مدت تک بحال نہ ہو سکے گی۔
...جون جولائی میں پاک فوج کے حوالے سے طاقتور وقت کا آغاز ہو جائے گا۔
سیل فون:... 0346-4527997