چترال چلیں
کل گاندھی نے اپنی جیون کتھا پر ’’سچ کی تلاش‘‘ کے الفاظ لکھے تھے لیکن آج اگر گاندھی نیا جنم لے کر آئے تو اسے اپنی ...
جس طرح ایک عرب شاعر نے کہا تھا کہ: ''جب زمان حال کے حقائق میرے پیروں میں کانٹوں کی طرح چبھنے لگتے ہیں تب میرا دل مجھے کہتا ہے کہ ماضی کے ان راستوں پر نکل جائوں جہاں محبت کی مہک اور حسن کی ٹھنڈی چھائوں ہمیشہ چھائی رہتی ہے''۔
بہت آسان ہے کہ بھارت میں آنے والی اس تبدیلی کے بارے میں لکھا جائے جو صرف ہمارے ہی نہیں بلکہ بھارتی میڈیا کا بھی سب سے بڑا موضوع بنا ہوا ہے۔ میرے دل میں اس حوالے سے یہ خواہش شدت کے ساتھ مچل رہی ہے کہ میں اس بھارت کے بارے میں لکھوں جو وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ ایک ایسے گلیشیئر کی طرح پگھل رہا ہے جس کا وجود شاید کچھ وقت کے بعد ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ سیاست میں سرمائے کی مداخلت سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں بہت زیادہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں جس طرح بی جے پی نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے، اس فتح سے کہیں زیادہ اہم ہے اس کانگریس کی شکست جس کی لیڈر شپ نے گزشتہ صدی کے دوراں ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھا تھا جو معاشرہ مثالی ہو۔ مگر کہاں ہے وہ خواب؟ اس خواب کے سینے میں نتھورام گاڈسی کی گولی پیوست ہوگئی۔ اس خواب کی خاک نہرو کے جلے ہوئے جسم کی طرح اب بکھر چکی ہے اور کوئی کچھ بھی کرے مگر دنیا کی کوئی بھی طاقت گزرے ہوئے وقت کو واپس نہیں لاسکتی۔ مرزا غالب نے کہا تھا کہ:
مہرباں ہوکے مجھے چاہو بلالو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آنہ سکوں
اب تو وہ سارے انقلابی اور آدرشی لوگ جو کبھی بھارت کی پہچان تھے، ماضی کی ایک اداس یاد بن گئے ہیں۔ بی جے پی کی فتح پر جشن منانے والے بھارت میں اگر کسی خبر کو اہمیت مل رہی ہے تو وہ بالی ووڈ کے ان اداکاروں کی خبر ہے جو ''مودی فائیڈ'' بن گئے ہیں۔ اب وہ بھارت اپنا توازن کیسے قائم رکھ پائے گا جو پہلے سے ڈگمگا رہا تھا۔ وہ بھارت جس کے نظریاتی باپو گاندھی نے لکھا تھا کہ ''کسی بھی معاشرے میں تہذیب کا پیمانہ اس صورتحال سے ناپا جائے جو صورتحال مذکورہ معاشرے میں اقلیت کی ہوا کرتی ہے''۔ آج ایک طرف بھارت کی ہندو اکثریت جشن منا رہی ہے اور دوسری طرف بھارت کی ایک بڑی اقلیت مسلمانوں کی صورت سہمی دکھائی دے رہی ہے اور گاندھی کا فلسفہ اس دوا کی طرح نظر آرہا ہے جس کے استعمال کی مدت ختم ہوجائے۔
کل گاندھی نے اپنی جیون کتھا پر ''سچ کی تلاش'' کے الفاظ لکھے تھے لیکن آج اگر گاندھی نیا جنم لے کر آئے تو اسے اپنی دوسری سرگزشت کا عنوان ''بھارت کی تلاش'' ہی لکھنا پڑے گا۔ مگر یہ باتیں ہمیں مایوس کرتی ہیں۔ ان باتوں پر سوچ کر دل اداس ہوجاتا ہے۔ کیا ہمارے گرد مایوسیوں کے سائے کم ہیں کہ ہم مزید مایوسیاں برآمد بھی کریں۔ ہمیں امپورٹیڈ اداسیوں سے بچنا چاہیے۔
یہ سوچ کر جب اخبارات میں موضوعات تلاش کرنے بیٹھا تب ''ایکسپریس ٹریبیون'' میں شایع ہونے والی ایک خبر نے میری ساری مایوسی ختم کردی۔ وہ خبر تھی چترال میں بہار کی آمد پر منائے جانے والے اس روایتی جشن کی خبر، جس کو دیکھنے سے تو ہم محروم رہے مگر تصورات کی آنکھیں اس وقت بھی کاغذ کی اسکرین پر ابھرتے ہوئے وہ مناظر دیکھ رہی ہیں جس میں حسین وادی کے پس منظر میں کیلاش قبائل کے روایتی لباس پہننے والی لڑکیاں اپنے سروں پر تاج سجا کر اور ہاتھوں میں اخروٹ کی شاخیں لہرا کر بہار کی آمد کا استقبال کر رہی ہیں۔
ہمیں جدید ٹیکنالوجی نے موسموں سے محروم کردیا ہے۔ اب ہم موسم کے تبدیل ہونے کا اندازہ شاخوں سے گرتے ہوئے پتوں اور شاخوں پر کھلتے ہوئے پھولوں سے نہیں بلکہ ایئرکنڈیشنر کے چلنے اور نہ چلنے کے حوالے سے کرتے ہیں۔ یہ روش ہماری زندگیوں پر جسمانی اور روحانی طور پر کس قدر اثرانداز ہوتی ہے؟ اس سوال کی گہرائی میں جانے کے بجائے میں آپ کا ذہن فرانس کے اس عظیم مفکر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جس نے ''انقلاب فرانس'' کی ناکامی کے بعد دل شکستہ ہونے والے فرانسیسی ادیبوں اور دانشوروں کو صدا دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''Back to nature'' یعنی فطرت کی طرف واپس آئو۔
ابن انشا صرف ایک رومانوی شاعر نہیں بلکہ ایک بہترین نثر نگار بھی تھے۔ ان کے ایک سفرنامے کا عنوان ہے ''چلتے ہو تو چین کو چلیے'' مگر اب تو مائوزے تنگ کا ملک بھی معاشی ترقی کی راہ پر اس منزل سے دور ہوتا جا رہا ہے جو منزل ''سرخ کتابوں'' میں تحریر کی گئی تھی۔ اس لیے میں آپ کو چین چلنے کی دعوت دینے کے بجائے اپنے ملک کی حسین اور فطرت کی دولت سے مالا مال وادی چترال چلنے کی گزارش کرتے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر موسموں کا حسن دیکھنا ہو اور حسین موسموں کا ہاتھ پکڑ کر چلنے والے انسانوں کا پرامن اور خوبصورت مزاج دیکھنا ہو تو اس چترال کی جانب چلیں جو دہشتگردی کے اس دن بدن بڑھتے ہوئے دوزخ میں ایک ایسی جنت کی طرح ہے، جہاں سے آپ کو کوئی نہیں نکال سکتا۔
وہ چترال جو بدامنی کے سائے میں رہتا ہے مگر اس نے اپنی وہ سادگی نہیں فراموش کی، جو اس کی پہچان ہے۔ وہ لوگ جو آج بھی فطرت کے ساتھ ایک خوبصورت توازن قائم کیے بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ جو اس دور میں بھی اچھائی کی راہ سے نہیں بھٹکے۔ وہ لوگ جو آج بھی اپنی تاریخی روایات کے امین ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ رہنے کا لطف تو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا مگر ان کو دیکھ کر جو مسرت محسوس ہوتی ہے وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جو بھی حسین ہوتا ہے اسے اپنی خوبصورتی پر ایک فطری غرور سا محسوس ہوتا ہے مگر یہ صرف چترالی لوگ ہیں، جو خوبصورت ہونے کے باوجود بہت سادہ اور معصوم ہیں۔
ایسے معصوم حسن کے جلوے ہمارے ملک میں آج بھی موجود ہیں مگر ہم انھیں میڈیا کی مرکزی خبر بنانے کے بجائے وہ پہلو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے لیے بین الاقوامی بدنامی کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے ملک کی سیاسی بے یقینی، معاشی بحرانوں میں گھری ہوئی زندگی کو موضوع بنانے کے بجائے اپنے ان پردہ دار اور پاکیزہ موضوعات کی تلاش کرنی چاہیے جن میں ایک موضوع وہ چترال بھی ہے جو موجودہ دور میں بھی چالاکی، مکاری اور عیاری سے بہت دور ہے۔
وہ چترال ہمیں ہوائوں میں لچکتی ہوئی ڈالیوں کے ہاتھوں سے اپنے طرف بلاتا رہتا ہے اور اس کے حسین مناظر ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم آئیں اور یہاں آکر اپنے زندگی کے دکھوں کو بھول جائیں۔ وہ چترال ہمیں اس حوالے سے بھی بہت عزیز ہونا چاہیے کہ وہ مقام صرف حسن کے سلسلے میں نہیں بلکہ تاریخ کے اس بچھڑے ہوئے قافلے کی یاد بھی دلاتا ہے جسے ہم نے فراموش کردیا مگر وہ موسموں، گلوں اور برفاب پہاڑوں کی چوٹیوں سے ہمیں اب بھی یاد دلاتا ہے کہ ہم نے اپنی ترقی کا رخ ٹھیک سے طے نہیں کیا۔ اگر ہم فطرت کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے اور موسموں کے ساتھ چلنا سیکھ جاتے تو آج ہمارا قومی امیج وہ نہ ہوتا جو ہے۔
مگر ہماری قومی زبان میں کہتا ہے کہ ''صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے'' کہ عجیب صبح کو ہم بھی اپنا راستہ بھول بیٹھے مگر بھنبھور کی شام ہمیں فطرت کے گھر کی طرف ایک محبت کرنے والی ماں کی طرح بلارہی ہے۔ ہمیں اس صدا پر اپنا راستہ تبدیل کرنا چاہیے۔