لگام کی ضرورت ہے…
ہر چینل ایک ایک پارٹی کے لیڈر کو پکڑ کر اینکر نامی ایک مداری کے ہاتھ میں ان کی رسیاں پکڑا دیتا ہے ...
NAUSHEHRO FEROZE:
جواد جی... آپ نے فیس بک پر لکھا ہے کہ ٹیلی وژن کے خبروں کے نجی چینلز پر پابندی لگا دینی چاہیے جو کہ عوام کے ذہنوں میں اشتعال، انتشار اور بے حیائی پھیلا رہے ہیں! آپ کی بات سے مکمل تو نہیں مگر قدرے اتفاق کیا جا سکتا ہے، آ پ کے اسی اسٹیٹس پر کسی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے آپ کے اسٹیٹس سے متاثر ہو کر سرکاری چینل لگا لیا... ان کی تو تین چوتھائی ذہنی پریشانیاں رفع ہو گئیں۔
انھیں سرکاری ٹیلی وژن دیکھ کر علم ہوا کہ اس روز ملک میں کوئی قتل ہوا تھا نہ ہنگامہ، نہ کہیں سی این جی کے لیے طویل قطاریں لگی تھیں نہ کسی نے اس پر کوئی احتجاج کیا تھا، نہ کوئی جلسہ ہوا تھا نہ دھرنا، نہ کوئی دھماکہ نہ فائرنگ اور نہ ہی کوئی اور واردات... حوا کی بیٹی کا کہیں اغوا ہوا تھا نہ کسی نے اس کے چہرے پر ذرا سی غلطی پر تیزاب پھینکا تھا، کہیں رشتے کے تنازعے پر کسی کی بچی کو گولیوں سے بھونا گیا تھا نہ کسی کی غلطی پر اس پر پنجائت میں کتے چھوڑے گئے تھے...
راوی چین لکھ رہا تھا اور نیرو بنسی بجا رہا تھا، جانے آپ میں سے کبھی کسی نے سرکاری ٹیلی وژن دیکھا کہ نہیں، مگر یقین کریں کہ اس پر ماجرا کچھ ایسا ہی ہے۔ ہم جو کہتے ہیں نا کہ اتنے سال پہلے امن تھا، اتنی بے حیائی نہ تھی، اتنی وراداتیں نہ تھیں... اصل میں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو تھا مگر ایسے بے لگام اور شتر بے مہارچینل نہ تھے، جن کا کوئی ضابطہء اخلاق ہے نہ ان میںکام کرنے والے لوگوں میں شعور کہ ان کو دیکھنے والا طبقہ کون ہے اور نہ صرف ملک بلکہ دنیا بھر میں ان پر پاکستان کا ایک منفی تاثر بنتا ہے۔
ٹیلی وژن شام کو شروع ہو کر رات دس یا گیارہ بجے تک ختم ہو جاتا تھا، اس پر بصیرت سے شروع ہو کر فرمان الہی تک ہر پروگرام کا ایک وقت مقرر تھا، بچوں ، بڑوں، بزرگوں ، نوجوانوں کے لیے اس چھ گھنٹے پر محیط نشریات میں اسلامی پروگرام، خبریں ( اردو اور انگریزی) ، ڈرامے، موسیقی ، حالات حاضرہ پر پروگرام، مزاحیہ پروگرام، سائنسی اور معلوماتی پروگرام اور ایک انگریزی کا پروگرام بھی ضرور ہوتا تھا۔ یہ وہ دور ہے کہ جب پاکستان ٹیلی وژن نے اپنی تاریخ کے بہترین ڈرامے دیے ہیں۔ خبریں پڑھنے والے تحمل سے اور لہجے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ جب خبر پڑھتے تھے تو سننے والوں کو بھی بھلا لگتا تھا۔ہم نے سوائے چند اہم دنوں کے کبھی ٹیلی وژن پر کسی حکمران کی تصویر نہ دیکھی، باقی لیڈر تو کسی گنتی کھاتے میں ہی نہ ہوتے تھے۔
کیا اس دور میں آپ میں سے کسی نے سنا کہ کس فوجی افسرکا کہاں تبادلہ ہوا ہے؟ چیف آف آرمی اسٹاف یا کسی اور سینئیر افسر کو کبھی کسی نے ٹیلی وژن پر دیکھا ؟ فوج سے متعلق خبریں انتہائی رازداری کے زمرے میں آتی تھیں، اداروں کی عزت اور وقار کا خیال رکھا جاتا تھا، مگر اب... خبریں پڑھنے والے ہانپ رہے ہوتے ہیں، کانپ رہے ہوتے ہیں، جوش جذبات اور '' بریکنگ نیوز'' کو زیادہ سنسنی خیز بنانے کے لیے... خبریں پڑھنے والے کم اور ڈرامائی تاثرات پیش کرنے والے زیادہ بیٹھے ہیں۔
ہر چینل ایک ایک پارٹی کے لیڈر کو پکڑ کر اینکر نامی ایک مداری کے ہاتھ میں ان کی رسیاں پکڑا دیتا ہے جو ان رسیوں کو کھینچتا، ڈھیلا چھوڑتا اور کسی کسی مقام پر کاٹ بھی دیتا ہے... بندروں کی طرح اچھل اچھل کر، مرغوں کی طرح چونچیں لڑاتے ہوئے یہ لیڈر کسی طور نہ مہذب لگتے ہیں نہ ہی اپنے نمایندے۔ ہم پچھتا پچھتا کر تھگ گئے ہیں کہ ہم کن لوگوں کو لیڈر سمجھتے ہیں، کیسے نا اہل لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں...
یہ تو ان تمام چینلز کی کمائی کا ذریعہ ہے اور بلا شبہ تمام نہیں تو زیادہ تر چینل کسی نہ کسی خاص پارٹی، شخص، ملک، ایجنسی، ملک دشمن طاقت، حکومت، اپوزیشن، کسی ایجنڈے کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں اوران پر بولنے والی زبانیں ... ان بکے ہوؤں کی ہیں جو جانتے ہوئے بھی اس ملک کی جڑیں کاٹنے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ حکومت ''بے چاری '' کبھی کسی کی زبان بند کرواتی ہے اور کبھی کسی کی، ایک کی زبان بند کروانے کے لیے دوسرے کے منہ میں '' چارہ '' ڈالتی ہے تو کوئی اور اسے دیکھ کر منہ کھول لیتاہے ، اس کھیل سے تو اب حکومت بھی تھک گئی ہو گی... اصل میں یہی کھیل ہر حکومت کھیلتی چلی آ رہی ہے، کوئی دو فریقین بنا لیے جاتے ہیں، ایک ادارہ... بمقابلہ ایک اہم شخص!!! ہم کھیل دیکھتے اور خوف زدہ ہوتے رہتے ہیں ۔
بہت سنجیدگی سے کہہ رہی ہوں جواد جی... واقعی کڑی لگام ڈالنے کی ضرورت ہے!!! اشتعال اور انتشار ایک چیز ہے، اس سے کہیں دور رس فرائض ہمارا میڈیا انجام دے رہا ہے۔ بے حیائی کے خلاف بھی ہم اپنے گھروں میں بچوں کو کچھ نہ کچھ سمجھا لیتے ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر یہ میڈیا جو کام کر رہا ہے وہ پورے معاشرے کی اقدار کے بگاڑ کا ہے۔ مذہب... اخلاقی اقدار اور سیاست ایک معاشرے کے اہم ترین ستون ہوتے ہیں۔ہمارے ملک کے اس دور کے میڈیا نے ان تینوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں، ہمیں اپنے ڈراموں اور صبح کے شوز دیکھ کر علم ہی نہیں ہوتا کہ کس قسم کا لباس ہمارے مذہب کے ضابطہء اخلاق کے مطابق ہے، کوئی بھی یہ پروگرم دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے پروگرام ہمارے مذہب کی عکاسی کرتے ہیں۔
اخلاقی اقدار... ان کا تو دیوالیہ کر دیا گیا ہے، ہمارے ہاں ہر چینل تھوک کے حساب سے ڈرامے بنا اور دکھا رہا ہے، ہم میں سے کوئی بھی کرن کہانی، تیسرا کنارا، شہ زوری، وارث، جھوک سیال، انکل عرفی اور ایسے درجنوں ڈراموں کو کبھی بھول نہیں سکتا، ان میں سادگی، بے ساختگی، ہلکا پھلکا مزاح۔ چھوٹے چھوٹے مسائل کو سہل انداز میں ان کے حل کے ساتھ پیش کر کے اپنے ناظرین کے دماغوں کو گرفت میں لے لیا جاتا تھا، بھولا جا سکتا ہے کہ کس طرح '' وارث '' ڈرامے کے لیے سر شام بازار بند ہو جاتے تھے۔اچھوتے موضوعات پر پیش کی جانے والی ٹیلی فلمز... یہ سب ماضی ہوا مگر ان کا تاثر ہمیشہ قائم رہنے والاہے۔
رہی بات سیاست کی... سیاست تو اب رہ ہی فقط ٹیلی وژن پر گئی ہے، '' نامور'' سیاسی لیڈر، اب یا تو ٹیلی فون کے ذریعے خطاب کرتے ہیں کہ ان کے ٹھکانے سرحدوں کے پار ہیں، اور پھر ہر ٹیلی وژن چینل کو یہ ٹیلی فونک خطاب براہ راست دکھانا ہوتا ہے کیونکہ اسی میں ان کی بقا کا راز ہے۔ کوئی ٹیلی وژن کو اس لیے استعمال کرتا ہے کہ لوگوں کو ان مقصد کے لیے گھروں سے باہر نکال کر سڑکوں پر لے آیا جائے جو مقاصد ان کے اپنے اذہان میں بھی واضع نہیں، بعد ازاں ان مقاصد کی کوئی نہ کوئی ''ڈیل '' ہو جاتی ہے۔ کوئی تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے دیوانہ وار یوں بولتا ہے کہ اسے چھوٹے بڑے کی تمیز رہتی ہے نہ کسی کے مرتبے کا احساس، مرا تب تو اللہ تعالی ہی دیتا ہے اور اسی کو دیتا ہے جس کے نصیب میں لکھا ہوتا ہے، یوں چیخنے چلانے والا یوں ہی محسوس ہوتا ہے جیسے ہم بچپن میں کہتے تھے کہ جو جھوٹا ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ بلند آواز میں بولتا ہے۔
سب سے بڑا نقصان جو آج کل کے تمام ذرایع ابلاغ نے ہم سب کا کیا ہے کہ ایک ایسی نسل کی تخلیق کر دی ہے جن کی کوئی اخلاقی اقدار نہیں ہیں، انھیں ڈراموں اور صبح کے شوز میں بتایا جاتا ہے کہ ہمارے مذہب کے مطابق اخلاقی اقدار کسی چڑیا کا نام تھا جو پھر سے اڑ چکی ہے، آپ اسکول یا کالج میں پڑھتے ہیں تو سب سے پہلا فرض عشق کا سبق پڑھنا ہے... کوئی آپ کو ترچھی نظر سے دیکھے تو اس کی آنکھیں نکال دو، کوئی تھپڑ مارے تو اس کا بھر کس نکال دو اور کوئی آپ کے تھپڑ کے جواب میںآپ کو تھپڑ مارے تو اسے تو قتل ہی کر دو... ( ہم یہ کچھ ہوتا ہوا دیکھ ہے ہیں) دنیا کی ہر لڑکی اور عورت پر ہر مرد کا پورا حق ہے کہ وہ اسے بری نظر سے دیکھے، چھوئے یا اس کی عزت کی دھجیاں بکھیر دے، خواہ وہ مرد اس کے گھر کا ملازم ہو، اسکول کا کوئی گارڈ، ڈرائیور، استاد ، ٹیوٹر، پڑوسی، رکشے یا وین والا، دکاندار ، ان کے والدین یا بھائیوں کے دوست، حتی کہ محرم رشتے دار بھی۔ یہ ڈرامے یہ بھی سکھاتے ہیں کہ اسکول سے فارغ ہو کر جب آپ کالج پہنچ جائیں تو آپ ماں باپ کو جس طرح چاہیں دھوکہ دینے کے لیے آزاد ہیں، نشہ کریں، گھٹیا اور ممنوعہ فلمیں دیکھیں، سگریٹ پئیں، ڈیٹ پر جائیں، ہر اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کریں، پڑھائی کو آخری آپشن کے طور پر اپنے ایجنڈا میں رکھیں۔
ملازمت میں دھوکہ، سفارش اور رشوت سب جائز ہے، شادی جب چاہیں اور جیسے جی چاہے کریں، گھر سے بھاگ کر، والدین کی مرضی کے خلاف... جیسے بھی ہو!! بیوی سے دل اکتا جائے تو ارد گرد منہ ماریں، شادی شدہ عورتیں بھی جب چاہے اور جیسے چاہیں ، دوسرے مردوں سے تعلقات رکھیں اور دھڑلے سے ناجائز تعلقات قائم کریں۔
کیا معاشرے کا چہرہ مسخ نہیں ہو چکا ہے، کیا ہمارا میڈیا یہ دکھا رہا ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقی گراوٹ عروج پر ہے؟ اگر ایسا ہے بھی تو میڈیا کے اہم ستون اپنا فرض سمجھیں، آپ سب اہل قلم اس خطرے کو پہچانیں، قلم کی کیا اہمیت اور طاقت ہے کہ جس کی قسم خود رب عز و جل نے کھائی ہے۔ اپنے قلم کو، اپنے علم کو اور اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کے سدھار کے لیے استعمال کریں نہ کہ معاشرے کا ننگا وجود پورے عالم کو دکھائیں۔ اس ملک میں بہت کچھ برا ہو رہا ہو گا، مگر مجھے پورا یقین ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ ایسا اچھا بھی ہو رہا ہو گا جسے ڈھونڈنے کے لیے چراغ کی نہیں بلکہ نیت اور نظر کی ضرورت ہے۔ آپسیں جنگ سے نکلیں اور مل کر اس بگڑے ہوئے میڈیا کی درستگی اور ایک بہترین معاشرے کی تخلیق میں اپنا حصہ ڈالیں!!! اللہ ہم سب کو بہترین انسان اور اچھے مسلمان بنائے، آمین!!!
نوٹ۔ گزشتہ ہفتے کے میرے کالم ، '' اور کتنا صبر کریں مہاراج '' میں ایک درستگی فرما لیں ، میٹرو بس کے منصوبے کا تخمینہ میں نے سہواً پچاس کروڑ لکھ دیا تھاجو کہ اصل میں پچاس ارب روپے ہے۔ شکریہ