نیوکلیئر پاور پلانٹ اور ڈیڑھ کروڑ انسانی زندگیاں
ہمیں ترقی اور آسانی کی دوڑ میں مسائل کو سامنے رکھنا چاہیے،...
روشنیوں کے شہر کراچی سے 40 کلومیٹر دور پیراڈائز پوائنٹ پر دو بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ K-3 اور K-2 کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ یہ پلانٹ چین حکومت کی ٹیکنیکل مدد سے تعمیر ہوں گے جن سے 2200 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں پہلے ہی تین نیوکلیئر پلانٹ چل رہے ہیں۔ سنگ بنیاد کی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کا خواب ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان لوڈشیڈنگ فری ہوجائے۔
اس منصوبے پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ گزشتہ ہفتے اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر جامعہ کراچی کے زیر اہتمام سینٹر ہٰذا میں ایک پینل ڈسکشن سیشن بھی منعقد ہوا جس میں دونوں نقطہ نظر رکھنے والے ماہرین نے اظہار خیال کیا۔ اس منصوبے کی حمایت میں کینپ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر اظفر منہاس اور میرین لائف کے ایکسپرٹ اظہر معیشت اﷲ جب کہ مخالفت میں PILER کے رکن ڈاکٹر علی ارسلان اور فشر فوک فورم کے صدر محمد علی شاہ نے اظہار خیال کیا۔ اس پروگرام کا اہتمام ڈاکٹر ثمینہ خلیل اور ڈاکٹر مونس احمر نے کیا تھا۔
نیوکلیئر پاور پلانٹ کے حق میں اظفر منہاس اور اظہر معیشت اﷲ نے جس طرح دلائل دیے اور حاضرین کو آگاہی دی، اس سے محسوس ہوتا تھا کہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کے کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے، یہ مکمل طور پر ماہرین کے کنٹرول میں ہوتا ہے، حتیٰ کہ اس کو دہشت گردی اور حادثات کی صورت میں بھی تابکاری پھیلنے کے خطرات وغیرہ سے مکمل طور پر محفوظ کردیا گیا ہے۔ میرین لائف کے ایکسپرٹ نے تو اپنی پروجیکٹ بریفنگ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان ایٹمی پاور پلانٹ کے لیے جو پانی سمندر سے حاصل کیا جاتا ہے اور واپس سمندر میں ڈالا جاتا ہے جیساکہ کینپ میں ہو رہا ہے وہ قطعی ماحول دوست ہے اور اس کے اثرات ساحلی اور میرین حیاتیات و نباتیات پر منفی نہیں پڑتے۔ اس کے لیے باقاعدہ انھوں نے کی جانے والی اسٹڈی کے حقائق و اعداد و شمار بھی پیش کیے۔
ان کی بریفنگ کے بعد میرا ذہن ذرایع ابلاغ سے جاری ہونے والی ان خبروں کی طرف جا رہا تھا کہ جس میں گاڑیوں اور فریج کے استعمال تک کو ماحولیات کے ماہرین نے کائنات کا دشمن قرار دیا تھا اور اوزون کی سطح کو نقصان پہنچانے کا بھی ذمے دار قرار دیا تھا۔ میرا ذہن یہ قبول کرنے سے قاصر تھا کہ جب ایک جانب گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور حرارت اور گھر میں استعمال ہونے والے فریج بھی اوزون کی سطح کو نقصان پہنچا رہے ہوں اور ماحول کو آلودہ کر رہے ہوں، ایسے میں بھلا نیوکلیئر پاور پلانٹ اس قدر بے ضرر اور ماحول دوست کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کے کچھ بھی منفی اثرات نہ ہوں؟
مذکورہ سوالات جو میرے ذہن میں کھلبلی مچا رہے تھے اس فورم سے اظہار خیال کرنے والے اور دوسرا نقطہ نظر رکھنے والے محمد علی شاہ اور ڈاکٹر علی ارسلان کی جانب سے اٹھائے گئے نکات نے بہت حد تک جوابات دے دیے۔ ان دونوں شخصیات کا موقف تھا کہ ماضی میں چرنوبل کا خوفناک حادثہ اور ماضی قریب (2011) میں فوکوشیما کے حادثات نے انسانوں کو کیا کچھ نقصانات نہیں پہنچائے، ان حادثات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں بجلی کے حصول کے لیے ایسے خطرناک ذرایع کو استعمال میں لانے کے بجائے دیگر ذرایع سے بجلی کا حصول تلاش کرنا چاہیے۔ فوکوشیما کے ساحل پر قائم نیوکلیئر پاور پلانٹ کے ریکٹرز کے پمپس کو سونامی نے ایک ہی جھٹکے سے تباہ کردیا تھا۔ یوں ہونے والی تباہی سے تابکاری کے ذخائر تباہ ہوئے اور ماحول میں پھیل گئے، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تابکاری اثرات ہزاروں یا لاکھوں برسوں تک پھیلتے رہیں گے۔
محمد علی شاہ مذکورہ منصوبے کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فوکوشیما کا حادثہ ایک قدرتی آفت کی وجہ سے ہوا تھا، اسی طرح کا دوسرا حادثہ ایک اور نیوکلیئر پاور پلانٹ میں ہوا تھا جو انسانی غلطی یا مشین فیل ہوجانے کی وجہ سے ہوا تھا۔ چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ جو سابق سوویت یونین کی ریاست یوکرین میں اپریل 1986 میں ہوا اس کا سبب بھی انسانی غلطی تھی جس کے سبب دھماکا ہوگیا اور اس کی تابکاری کے مادے کے پھیل جانے سے بڑی تباہی ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق 4,000 افراد ہلاک ہوئے، کئی برسوں تک تمام شہر مکمل طور پر خالی کرالیے گئے۔ 30 کلومیٹر تک علاقے کو متاثر قرار دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ علاقہ ہزاروں سال تک متاثر رہے گا۔
محمد علی شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوکوشیما کے حادثے کی وجہ سے عالمی نیوکلیئر پاور پلانٹ انڈسٹری پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے متعدد ممالک متبادل ذرایع کے بارے میں غور کرنے لگے ہیں۔ مثلاً فوکوشیما حادثے کے فوراً تین ماہ بعد جرمنی نے اپنے جاری 17 نیوکلیئر پاور پلانٹس میں سے 8 کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا، باقی 9 پلانٹس کو 2022 تک بند کردیا جائے گا۔ اٹلی کی پارلیمنٹ نے گزشتہ نیوکلیئر پاور پلانٹس کی تعمیر کے تمام ٹھیکے کینسل کرنے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے جاری 5 نیوکلیئر پاور پلانٹس اپنی مدت پوری کرنے کے بعد مزید نئے پلانٹس قائم نہیں کیے جائیں گے۔ جاپان دنیا کا جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہونے کے باوجود نیوکلیئر حادثے سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوسکا تو پھر پاکستان ایسے حادثات کا سامنا کیسے کرسکتا ہے؟
اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کی ساحلی پٹی پر قائم کرنے والے پاور پلانٹ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ وہ اپنے ایسے ریکٹر پاکستان کو فروخت کرے جو دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں چلتے، اس کا تجربہ بھی چین نے اپنے ملک میں نہیں کیا۔ چین کی دلچسپی یہ ہے کہ پاکستان یہ پلانٹ خرید لے تاکہ اس تجربے کی بنیاد پر چین کے لیے نیوکلیئر کی عالمی مارکیٹ کھل سکے۔ کسی حادثے کے نتیجے میں ڈیڑھ کروڑ آبادی کا شہر کراچی ختم ہوسکتا ہے جب کہ پورے سندھ کے ساحلی علاقے کے ماہی گیروں کا روزگار تباہ ہوجائے گا۔
مذکورہ پروگرام میں مستقبل میں ممکنہ خدشات اور نقصان کے بارے میں جو تفصیل بیان کی گئی ہے ان کا یہاں احاطہ کرنا ممکن نہیں تاہم راقم کا خیال ہے کہ کوئی بھی منصوبہ شروع کرتے وقت تمام حقائق کو سامنے رکھنا چاہیے اور تمام کی گئی تنقید کا بھی ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔ انسانی زندگی بجلی سے زیادہ اہم نہیں، جب انسان ہی نہ ہوں گے تو بجلی کس کے لیے؟ یہ بھی سوچیں کہ صرف سستی بجلی کے نام پر انسانی زندگیوں کا رسک کیوں لیا جائے؟
آئیے! ہم سب مل کر اس اہم مسئلے پر غور کریں کیونکہ یہ چند انسانوں نہیں ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر کے باسیوں کا بھی مسئلہ ہے اور اس ملک سے وابستہ ہر شخص کے مفادات سے بھی منسلک مسئلہ ہے۔ ہمیں ترقی اور آسانی کی دوڑ میں مسائل کو سامنے رکھنا چاہیے، اس منصوبے کی ابھی ابتدا ہے اور ابھی ہم سب کے پاس غور کرنے کا بھی وقت ہے، آئیے اس کو ''کور ایشو'' کے طور پر لیں۔