امریکا کا مالیاتی فراڈ آخری حصہ

اگر کوئی شخص مارکیٹ سے ڈالر خریدتا ہے تو اسے اس کے بدلے مقامی کرنسی یا سونا دینا پڑتا ہے ...


خالد گورایا May 18, 2014

لیکن حقیقت یہ تھی 1972 میں بیرونی ملکوں میں سڈنی لنس کے مطابق 82 ارب ڈالر FDI، ملٹری اخراجات کی مد میں لگے ہوئے تھے۔ اگر اس میں بیرونی ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر 1 کھرب 2 ارب 91 کروڑ 13 لاکھ 30 ہزار بھی شامل کرلیے جائیں تو ٹوٹل 1 کھرب 84 ارب 91 کروڑ 13 لاکھ 30 ہزار ڈالر ہوتے ہیں۔ اور امریکا کے پاس پورے ملکوں کو دینے کے لیے صرف گولڈ ریزرو 1971 میں 10 ارب 10 کروڑ رہ گیا تھا۔ امریکی صدر نے 15 اگست 1971 کو امریکی ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی پر بندش لگا کر اس بات کو ثابت کردیا تھا کہ امریکا ڈیفالٹ ہوچکا ہے۔

اس کے بعد یورپی ملکوں اور امریکا میں ''مالیاتی یا کرنسی وار'' اندرون خانہ ہوتی رہی۔ اس کے نتیجے میں امریکا نے یورپی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں 1971 سے 1975 کے دوران زیادہ کردیا۔ اس کے بعد یورپی ملکوں نے امریکا کے ساتھ مل کر نیٹو اور آئی ایم ایف کی چھتری تلے معاشی غلام ملکوں میں ملٹی نیشنل کمپنیاں تیزی سے پھیلانی شروع کردیں۔ امریکا آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے معاشی غلام ملکوں کی کرنسیوں پر Currency Devaluation Minus Economic Development سے حملے بڑھاتا گیا۔ اس کے نتیجے میں ان ملکوں کی تجارت، بجٹ اور صنعتی کلچر ختم ہوتا گیا۔

امریکی سامراج نے ان ملکوں کے حکمرانوں کو تجارتی خسارے سے نکلنے کے لیے مہنگے قرضے لینے کی طرف راستہ دکھایا اور 1990 کے بعد بجٹ خسارے سے نکلنے کے لیے ملکی پیداواری نفع بخش اداروں کی نج کاری کرنے کی راہ پر ڈال دیا۔ اس طرح سامراج کا یہ پلان ہے کہ معاشی غلام ملکوں میں افواج اور انتظامی اداروں کا خاتمہ ہو۔

یہ اس طرح کر رہا ہے کہ اداروں کو خساروں میں بدل کر نجکاری کرانا، حکومتی آمدنی کو کم کرنا، ریاست کو ناکام ریاست بناکر غیر علانیہ سامراجی حکومت قائم کرنا، کم سے کم ڈالر خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ مقامی کرنسی کے ملکی غداروں یا باغیوں کو ملک کے خلاف استعمال کرنا جیسے مصر اور اب شام اور یوکرین، پاکستان میں امریکا مداخلت کرکے حالات کو خراب کر رہا ہے۔ اگر حقائق کا تجزیہ کیا جائے اور عالمی مالیاتی اعداد و شمار کو دیکھا تو امریکی برتری Superiority ایک دھوکا اور فریب ہے۔ امریکا نے کئی کھربوں کاغذی ڈالر پوری دنیا میں پھیلا دیے ہیں کہ ان کے نتیجے میں پوری دنیا میں معاشی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔

اگر کوئی شخص مارکیٹ سے ڈالر خریدتا ہے تو اسے اس کے بدلے مقامی کرنسی یا سونا دینا پڑتا ہے۔ امریکا اور امریکی اداروں سے دوسرے ملکوں کو ڈالر مفت نہیں جاتا ہے۔ اگر کوئی ملک مالیاتی اداروں سے قرضہ لیتا ہے تو امریکا پہلے اس کے بدلے سونا طلب کرتا ہے۔ اگر سونا نہ ہو تو سامراجی شرائط کے بدلے: 1۔ غیر ملکی صنعتی یا زرعی اشیا کے داخلے پر ڈیوٹی کم کی جائے جیسے معین قریشی نگران وزیراعظم نے جولائی 1993 سے اکتوبر 1993 کے دوران امپورٹ ڈیوٹی 50 فیصد کم کردی تھی۔ 2۔ حکومتی کردار پیداواری شعبوں میں کم کیا جائے۔ 3۔ مقامی کرنسی کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کی جائے۔ 4۔ حکومتی بجٹ کو خسارے سے نکالنے کے لیے حکومتی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے۔ 5۔ زیادہ سے زیادہ حکومتی اداروں پر ملازمین کا بوجھ کم کیا جائے۔ 1990 میں اسی سامراجی حکم پر سرکاری اداروں میں بھرتی پر پابندی لگادی گئی تھی۔ 6۔ سامراجی منڈیوں کو ملک میں داخلے کو آسان بنایا جائے۔ اس طرح CDMED سے معاشی غلام ملکوں میں ملٹی نیشنل کمپنیاں پھیلتی گئیں۔ دوسری طرف سے سامراجی ملکوں کی امپورٹ ان ملکوں میں بڑھتی گئی۔

اگر عالمی مالیاتی اعداد و شمار جو ڈالروں کی شکل میں امریکا سے باہر بیرونی ملکوں میں استعمال ہورہے ہیں اور امریکی کل مالیاتی اعداد و شمار کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو ہمارے سامنے یہ شکل آتی ہے۔ 2009 میں امریکا دنیا کے سامنے مالیاتی اعداد و شمار کے مقابلے میں 88 کھرب 61 ارب 37 کروڑ 72 لاکھ ڈالروں سے ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔ 2010 میں 157 کھرب 77 ارب 98 کروڑ 74 لاکھ سے پوری دنیا کا ڈیفالٹر تھا۔ 2011 میں 217 کھرب 32 ارب 52 کروڑ 28 لاکھ ڈالر سے ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔

اگر حقائق کا مزید تجزیہ کیا جائے تو سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں معاشی غلام ملکوں کے سرمایہ دار حکمرانوں کا وہ سرمایہ اس حوالے میں شامل نہیں کیا گیا جو ان ملکی غداروں کے سوئس بینکوں میں چھپا ہوا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق یہ سرمایہ کاغذی ڈالر اندازاً 40 کھرب ڈالر بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ جیسے پاکستان کے Securiteis and Exchange Commission of Pakistan کے پاس 2013 میں 2166 ایکسچینج کمپنیاں رجسٹرڈ تھیں، 2014 میں 2490 کمپنیاں ہوگئیں۔ حکومتی مرکزی و دیگر متعلقہ بینکوں کے علاوہ ان پرائیویٹ SECP کے تحت کام کرنے والی کمپنیوں کے پاس جو ڈالر ریزرو ہیں ان کا شمار مندرجہ بالا اعداد و شمار میں نہیں کیا گیا۔

معیشت کے اصول کے مطابق منصوبہ بند معیشت میں جب غیر ملکی مالیاتی مداخلت بڑھتی ہے تو منصوبہ بند معیشت غیر یقینی کا شکار ہوکر خسارے میں چلی جاتی ہے۔ امریکی کاغذی کئی سو کھربوں ڈالر 128 معاشی غلام ملکوں کی معیشت میں داخل ہیں۔ یہ ڈالر ان ملکوں کے وسائل تجارت، ملٹی نیشنل کمپنیوں، قرضوں کی شکل سامراج کو منتقل کر رہے ہیں۔ ان ملکوں میں اسی نسبت سے غربت بڑھتی جا رہی ہے۔

عالمی مالیاتی تناؤ یا کرنسی وار کے نتیجے میں یکم نومبر 2013 کو امریکا نے جاپان، یورپین مرکزی، بینک آف انگلینڈ، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ کے مرکزی بینکوں نے آپس میں معاہدہ کیا کہ عالمی مالیاتی بحران کا مل کر سامنا کریں گے۔ یاد رہے کہ ان ہی ملکوں کی زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں معاشی غلام ملکوں میں ہیں اور ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں فوقیت بھی حاصل ہے۔ اسی طرح ساؤتھ کوریا اور ملائیشیا نے 21 اکتوبر 2013 کو کرنسی تبادلے کا معاہدہ کیا۔ 13 اکتوبر 2013 کو ساؤتھ کوریا اور انڈونیشیا نے کرنسی تبادلے کا معاہدہ کیا۔ ساؤتھ کوریا نے یو اے ای سے کرنسی تبادلے کا معاہدہ کیا۔

اس طرح امریکی ڈالر کو Dominator کے طور پر استعمال کرکے کرنسیوں کے باہمی تبادلے سامراجی کاغذی ڈالر کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہیں۔ اگر پوری دنیا کے ممالک کھربوں ڈالر امریکا کو واپس کرتے ہیں تو امریکا پورے امریکی گردشی ڈالروں کے بدلے اشیا بھی دینا چاہے تو ناممکن ہوگا۔ 1971 کے مالیاتی بحران کے بعد یورپ و امریکا نے سونے کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں بڑھاکر اپنے آپ کو محفوظ کردیا لیکن امریکی چھتری آئی ایم ایف تلے امریکا نے معاشی غلام ملکوں کی معیشت پر سڈمڈ لگا لگا کر ان کو معاشی طور پر تباہ کردیا۔ امریکا اور یورپی ملکوں نے مل کر 128 ملکوں کو ڈالر کا قیدی اور تنہائی کا شکار بنایا ہوا ہے۔ جو ممالک ڈالر کی قید سے آزادی چھین لیں گے وہی معاشی خوشحالی حاصل کرسکیں گے۔

معاشی غلام ملکوں میں سامراجی بلاک سستے وسائل لوٹ رہا ہے۔ آج معاشی غلام ملکوں کو سامراج سے معاشی آزادی چھین لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ عوام یہ دیکھیں کہ پاکستان میں ہر جگہ دہشت گردوں نے بم دھماکے کیے، کوئی جگہ نہیں چھوڑی اور ان کا یہ تاثر کہ وہ امریکا دشمن ہیں، امریکی نواز حکومت پر حملے کرتے ہیں۔ کبھی غور بھی کیا کہ امریکا دشمن دہشت گردوں نے کسی سامراجی ملٹی نیشنل کمپنی پر حملہ کیا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔