مردہ خوری

قانون ساز ادارے، سیاست دان، علماء ۔۔۔ سب خاموش؟

قانون ساز ادارے، سیاست دان، علماء ۔۔۔ سب خاموش؟۔ فوٹو: فائل

3اپریل 2011 کی صبح دریاخان کے نواحی قصبہ کہاوڑ کلاں میں جب یہ واقعہ منظر عام پر آیا کہ ایک روز قبل فوت ہونے والی کینسر زدہ 24 سالہ سائرہ پروین کی قبر کھدی پڑی ہے اور نعش غائب ہے، پولیس تھانہ صدر دریاخان کو اطلاع دی گئی تو اس نے اہل علاقہ کی مدد سے ملزمان کے قدموں کے نشانات کا تعاقب کیا۔

یہ نشانات کہاوڑ کلاں ہی کے رانا خلیل احمد کے گھر پہنچ کر ختم ہاگئے، اندر داخل ہوئے تو وہ گھناؤنا منظر دیکھا گیا کہ اس اکیسویں صدی میں اس کا وہم و گماں بھی نہیں کیا جاسکتا۔ خیر رانا خلیل کے نوجوان ذہنی مریض بیٹا عارف عرف اپھل کو نعش کے سالن سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ خبر منظر عام پر آئی تو پوقرے ملک میں کہرام مچ گیا۔ ملزم کے اعترفات کی روشنی میں اس کے بھائی فرمان عرف پھاماں کو بھی حراست میں لے لیا گیا جس نے میت کو قبر سے نکالنے اور آگے کے مراحل کا اعتراف کیا۔ ملزموںکے خلاف متوفیہ کے بھائی محمد اعجاز کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 70زیر دفعہ 295A,297,201,16MPOدرج کرلیا گیا لیکن عوامی دباؤ پر دہشت گردی کی دفعہ 7/ATA کا اضافہ بھی کردیا گیا۔

کیس انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سرگودھا بھجوایا گیا، جہاں دہشت گردی کی دفعہ حذف کر کے مقدمہ دوبارہ سول جج دریاخان کو منتقل کردیاگیا۔ یہاں دوسال سماعت جاری رہی اور با لآخر 18.05.2013 کو ملزموں کو قبر کی بے حرمتی کے جرم میں ایک ایک سال قید، دو لاکھ روپے جرمانہ اور عدم ادائی کی صورت میں مزید چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی جب کہ لواحقین کو ذہنی کوفت پہنچانے کے جرم میں دو لاکھ روپے ورثا کو ادا کرنے کا حکم بھی جاری ہوا۔ پاکستانی آئین یا قوانین فوجداری میں مردہ خوری کے جرم کی کوئی سزامقرر نہ ہونے کے باعث ملزم اپنے اس گھناؤنے فعل کی سزا پانے سے محفوظ رہے ۔ سینٹرل جیل میانوالی میں ملزموںکی سزا کی مدت 04.06.2013 پوری ہوگئی تاہم جرمانہ ادا نہ کرنے پر جیل سے رہا نہیں کیے گئے۔


اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری میانوالی جیل کے دورے پر گئے تو انہوں نے دوسرے ملزموں کے علاوہ ان دونوں کو بھی رعایت دی جس پر یہ رہا کر دیے گئے۔ ملزمان جیل سے رہا ہوکر گھر پہنچے تو رہائی کی خبر سنتے ہی علاقہ بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد انہیں دیکھنے ان کے گھر پہنچ گئی جبکہ بعض افراد اس خبر کے بعد خوفزدہ نظر آئے، اگلے دن ملزمان کے رہا ہونے پر ایک مذہبی تنظیم اور متوفیہ سائرہ پروین کے ورثاء نے عوام کے جم غفیر کے ہمراہ احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ ،صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ خان اور ملزمان کے وکیل راؤ تصدق حسین کے خلاف نعرے لگائے اوربھکر دریاخان روڈ بلاک کردیا۔ ڈی ایس پی اور قائم مقام ایس ایچ او کی طرف نے ایک ملزم عارف کودوبارہ گرفتار کرلیا اور دوسرے کی گرفتاری کی یقین دہانی کرا کے احتجاج ختم کرایا۔

اس دوران عوام اور متاثرہ خاندان مردہ خوروں کو دوبارہ گرفتار کر کے پھانسی دینے یا ضلع بہ در کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بہ ہرحال چند دن میں معاملہ آیا گیا ہوگیا اور ملزم چھوڑ دیے گئے۔ فرض کرلیا گیا کہ ملزم اب انسان کے بچے بن گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی قانون سازی کی طرف توجہ دینے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا لیکن وہ جو کہتے ہیں ''ہرچہ برو، عادت نہ برو''یعنی فطرت تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ 14.04.2014کی دوپہر ایک بار پھر ملک بھر کے میڈیا پر یہ کراہت انگیز کہانی دہرائی جارہی تھی کہ مردہ خوروں کے گھر سے ایک بار پھر ایک مردہ بچے کا سر برآمد ہوا ہے اور انہیں باردگر گرفتار کرلیا گیا ہے۔

تازہ واقعہ کی ایف آئی آر میں بھی سابقہ مقدمہ کی طرح وہی دفعات لگائی گئیں اور پھر سے وہی پٹی ہوئی یقین دہانیاں کرائی جانے لگیں۔ وزیر اعلی پنجاب نے بھی سانحہ کا نوٹس لے لیا اور ملک بھر سے میڈیا کے کیمرے اور سینیئر افراد نے علاقے میں ڈیرے ڈال کر واقعہ کی تفصیلات جزئیات پر گفت گو شروع کردی اور ۔۔۔۔۔۔ اس بار بھی قانون ساز اداروں میں براجمان شخصیات اور جماعتوں نے واقعہ کی اہمیت اور سنگینی محسوس کی البتہ ایک قانون دان نے لاہور ہائیکورٹ میں معاملہ اٹھاکر اس پر قانون سازی کے حوالے سے اقدامات اٹھانے کے مطالبے کو اعلی ٰ ایوانوں تک لے جانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ معاملہ پھر سے سرد خانے کی نذر ہوتا ہے یا وہی پرانی فلم کا نیا پرنٹ دکھا کر بے وقف بنایا جائے گا؟؟؟
Load Next Story