طالوت جالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام
بنی اسرائیل جالوت سے خوف زدہ تھے، اس موقع پر حضرت داؤد علیہ السلام سامنے آئے
فلسطین کے مشہور شہر رملہ کے قریب ایک بستی بت وجون کے نام سے آج بھی پائی جاتی ہے۔ توریت میں بھی اس کا ذکر ہے۔
مصر و فلسطین کے درمیان بحیرہ روم پر آباد ایک علاقے میں جالوت نامی ایک ظالم و جابر حاکم نے بنی اسرائیل کو مغلوب کر کے ان کی آبادیوں پر قبضہ کر لیا اور ان کے بہت سارے سرداروں اور معزز لوگوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گیا اور باقیوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔
تاریخ اور روایات بتاتی ہیں کہ جس علاقے پر جالوت حکمران تھا، اس کا نام عمالقہ تھا اور جالوت کی فتنہ پروری پوری طرح جاری تھی۔
بنی اسرائیل نے حضرت سموئیل سے درخواست کی کہ وہ ان پر کوئی حاکم یا بادشاہ مقرر کر دے جس کی قیادت میں وہ ظالموں کا مقابلہ کرسکیں اور دشمنوں کی لائی ہوئی مصیبتوں کا خاتمہ کر سکیں۔
حضرت سموئیل نے ان کی درخواست منظور کی اور اللہ سے رجوع کیا، پھر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا۔ بنی اسرائیل نے جب یہ حکم سنا تو ان کے سردار منہ بنانے لگے اور کہنے لگے کہ طالوت کس طرح ہمارا بادشاہ بن سکتا ہے، بادشاہت کے لائق تو ہم ہیں، جو مالدار ہیں، جب کہ طالوت تو غریب اور نادار آدمی ہے۔
دراصل سرداری اور حکومت کا سلسلہ ایک عرصے سے بنی یہودا میں چلا آ رہا تھا جب کہ حضرت سموئیل نے بنی بنیامن سے تعلق رکھنے والے ایک غریب نوجوان کو بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کر دیا تھا، اس لیے بنی اسرائیل کے سردار طالوت کو بادشاہ بنانے پر راضی نہ ہوئے۔
جب سرداروں نے زیادہ رد و قد شروع کی تو حضرت سموئیل نے کہا کہ ''مجھے پتا ہے کہ تم یہ شرائط کیوں لگا رہے ہو، دراصل تم لوگوں نے جذبات میں آ کر جالوت سے جنگ کرنے کی بات کی تھی اور اب جب عمل کرنے کا وقت آیا تو تم لوگ بہانے بنانے لگے، مجھے پتا تھا کہ تمہارا یہ جوش و خروش وقت آنے پر ختم ہو جائے گا۔ انھوں نے فرمایا کہ طالوت ایک صاحب علم اور جسمانی طور پر مضبوط انسان ہے اور حکمرانی کے لیے دولت مند ہونا نہیں بلکہ صاحب علم ہونا ضروری ہے اور طالوت میں یہ دونوں خوبیاں موجود ہیں۔ حکمرانی کا معیار مال و دولت نہیں ہے، بلکہ تدبر، جرأت اور شجاعت ہے۔''
یہ سن کر پھر بھی بنی اسرائیل کے سردار جرح کرنے لگے تو حضرت سموئیل نے فرمایا ''حکمرانی و قیادت تمہارے دینے سے نہیں ملتی بلکہ اﷲ جس کو چاہتا ہے اپنی زمین کی حکمرانی اس کو دے دیتا ہے۔ وہ بڑی وسعت رکھنے والا ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔'' لیکن بنی اسرائیل کے سرداروں نے کہا کہ ''اگر طالوت کا بادشاہ بننا من جانب اﷲ ہے تو اس کی کوئی نشانی ہمیں دکھائیں۔'' حضرت سموئیل نے کہا ''اگر تمہیں کوئی نشانی چاہیے تو وہ بھی تمہیں ملے گی اور وہ یہ کہ تابوت سکینہ یعنی متبرک صندوق جو تم سے چھن گیا ہے' وہ تمہارے پاس واپس آجائے گا۔ فرشتے اسے دیکھتی آنکھوں سے تمہارے پاس اٹھا لائیں گے''۔
حضرت سموئیل کی یہ بشارت بروئے کار آئی اور ملائکہ نے تابوت سکینہ طالوت کو پیش کر دیا اور طالوت کو بہرحال بنی اسرائیل کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ اب بنی اسرائیل کے نئے بادشاہ طالوت نے جالوت کے خلاف جنگ کا حکم دیا اور لوگوں کو نفیر عام دیا کہ وہ جنگ کے لیے گھروں سے نکلیں، لیکن ساتھ ہی اس نے سوچا کہ بہتر ہے کہ پہلے ان کا امتحان لے لیا جائے کہ کون کون جنگ کے لیے موزوں ہے اور کون نہیں، تاکہ ادائے فرض سے پہلے ہی یہ طے ہو جائے کہ کون ثابت قدم رہے گا۔
لہٰذا، طالوت نے اعلان کیا جو جنگ میں شرکت کرنا چاہتے ہیں وہ ایک ندی کے پاس پہنچیں اور کوئی بھی ندی سے سیر ہو کر پانی نہ پیے، البتہ دو گھونٹ سے حلق تر کیا جا سکتا ہے۔ جو شخص اس حکم کی پاسداری نہ کرے گا اور جی بھر کے پانی پیے گا، اسے اللہ کی جماعت سے نکال دیا جائے گا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جب لشکر ندی کے پاس پہنچا تو بہت سے لوگوں نے سیر ہو کر پانی پیا اور کہنے لگے کہ ''ہم جالوت جیسے طاقتور اور سفاک حکمران سے کیسے لڑیں گے۔'' لیکن ایک جماعت نے حکم کی پاسداری کی اور ندی کا پانی نہ پیا اور اطاعت امیر کا ثبوت دیا۔ لوگ کم تھے لیکن ثابت قدم تھے، دونوں لشکر آمنے سامنے آئے، بنی اسرائیل جالوت سے خوف زدہ تھے، اس موقع پر حضرت داؤد علیہ السلام سامنے آئے، ان کی عمر کم تھی، وہ اپنے ساتھ ہمیشہ ایک تھیلا اور گوپھن رکھتے تھے، گوپھن رسی سے بنا ہوا ایک ہتھیار ہوتا ہے، غلیل کی مانند جس میں پتھر رکھ کر مارتے ہیں۔ تھیلے میں پتھر ہوتے تھے۔
حضرت داؤد ؑ فوراً طالوت کے لشکر کے پاس پہنچے اور وہاں موجود سرداروں سے کہا کہ ''وہ عمالقا کے طاقتور سپہ سالار جالوت کو قتل کریں گے'' انھیں جب طالوت کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے دیکھا کہ یہ تو نوجوان ہے، یہ بھلا طالوت جیسے دیوہیکل انسان کا کیا مقابلہ کرے گا، لیکن اس کا یقین اور خود اعتمادی دیکھ کر طالوت نے انھیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔
جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤد ؑ نے جالوت کو للکارا۔ جالوت نے جب اپنے سامنے ایک نوجوان کو دیکھا تو اسے حقیر سمجھ کر زیادہ توجہ نہ دی۔ لیکن جب دونوں آمنے سامنے آئے تو جالوت کو ان کی بہادری اور شجاعت کا اندازہ ہوا۔ داؤد علیہ السلام نے فوراً اپنی گوپھن نکالی اور یکے بعد دیگرے تینوں پتھر اپنی گوپھن سے جالوت کے سر پر مارے، جالوت کا سر پاش پاش ہوگیا۔ وہ اس کی گردن کاٹ کر طالوت کے پاس گئے۔ طالوت نے حسب وعدہ اپنی بیٹی کی شادی ان سے کر دی اور آدھی سلطنت بھی ان کے حوالے کر دی۔
یہ تھے حضرت داؤد علیہ السلام جنھیں بعد میں نبوت عطا ہوئی وہ بیک وقت نبی رسول اور بادشاہ تھے۔ اللہ نے ان پر زبور نازل فرمائی۔
مصر و فلسطین کے درمیان بحیرہ روم پر آباد ایک علاقے میں جالوت نامی ایک ظالم و جابر حاکم نے بنی اسرائیل کو مغلوب کر کے ان کی آبادیوں پر قبضہ کر لیا اور ان کے بہت سارے سرداروں اور معزز لوگوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گیا اور باقیوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔
تاریخ اور روایات بتاتی ہیں کہ جس علاقے پر جالوت حکمران تھا، اس کا نام عمالقہ تھا اور جالوت کی فتنہ پروری پوری طرح جاری تھی۔
بنی اسرائیل نے حضرت سموئیل سے درخواست کی کہ وہ ان پر کوئی حاکم یا بادشاہ مقرر کر دے جس کی قیادت میں وہ ظالموں کا مقابلہ کرسکیں اور دشمنوں کی لائی ہوئی مصیبتوں کا خاتمہ کر سکیں۔
حضرت سموئیل نے ان کی درخواست منظور کی اور اللہ سے رجوع کیا، پھر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا۔ بنی اسرائیل نے جب یہ حکم سنا تو ان کے سردار منہ بنانے لگے اور کہنے لگے کہ طالوت کس طرح ہمارا بادشاہ بن سکتا ہے، بادشاہت کے لائق تو ہم ہیں، جو مالدار ہیں، جب کہ طالوت تو غریب اور نادار آدمی ہے۔
دراصل سرداری اور حکومت کا سلسلہ ایک عرصے سے بنی یہودا میں چلا آ رہا تھا جب کہ حضرت سموئیل نے بنی بنیامن سے تعلق رکھنے والے ایک غریب نوجوان کو بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کر دیا تھا، اس لیے بنی اسرائیل کے سردار طالوت کو بادشاہ بنانے پر راضی نہ ہوئے۔
جب سرداروں نے زیادہ رد و قد شروع کی تو حضرت سموئیل نے کہا کہ ''مجھے پتا ہے کہ تم یہ شرائط کیوں لگا رہے ہو، دراصل تم لوگوں نے جذبات میں آ کر جالوت سے جنگ کرنے کی بات کی تھی اور اب جب عمل کرنے کا وقت آیا تو تم لوگ بہانے بنانے لگے، مجھے پتا تھا کہ تمہارا یہ جوش و خروش وقت آنے پر ختم ہو جائے گا۔ انھوں نے فرمایا کہ طالوت ایک صاحب علم اور جسمانی طور پر مضبوط انسان ہے اور حکمرانی کے لیے دولت مند ہونا نہیں بلکہ صاحب علم ہونا ضروری ہے اور طالوت میں یہ دونوں خوبیاں موجود ہیں۔ حکمرانی کا معیار مال و دولت نہیں ہے، بلکہ تدبر، جرأت اور شجاعت ہے۔''
یہ سن کر پھر بھی بنی اسرائیل کے سردار جرح کرنے لگے تو حضرت سموئیل نے فرمایا ''حکمرانی و قیادت تمہارے دینے سے نہیں ملتی بلکہ اﷲ جس کو چاہتا ہے اپنی زمین کی حکمرانی اس کو دے دیتا ہے۔ وہ بڑی وسعت رکھنے والا ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔'' لیکن بنی اسرائیل کے سرداروں نے کہا کہ ''اگر طالوت کا بادشاہ بننا من جانب اﷲ ہے تو اس کی کوئی نشانی ہمیں دکھائیں۔'' حضرت سموئیل نے کہا ''اگر تمہیں کوئی نشانی چاہیے تو وہ بھی تمہیں ملے گی اور وہ یہ کہ تابوت سکینہ یعنی متبرک صندوق جو تم سے چھن گیا ہے' وہ تمہارے پاس واپس آجائے گا۔ فرشتے اسے دیکھتی آنکھوں سے تمہارے پاس اٹھا لائیں گے''۔
حضرت سموئیل کی یہ بشارت بروئے کار آئی اور ملائکہ نے تابوت سکینہ طالوت کو پیش کر دیا اور طالوت کو بہرحال بنی اسرائیل کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ اب بنی اسرائیل کے نئے بادشاہ طالوت نے جالوت کے خلاف جنگ کا حکم دیا اور لوگوں کو نفیر عام دیا کہ وہ جنگ کے لیے گھروں سے نکلیں، لیکن ساتھ ہی اس نے سوچا کہ بہتر ہے کہ پہلے ان کا امتحان لے لیا جائے کہ کون کون جنگ کے لیے موزوں ہے اور کون نہیں، تاکہ ادائے فرض سے پہلے ہی یہ طے ہو جائے کہ کون ثابت قدم رہے گا۔
لہٰذا، طالوت نے اعلان کیا جو جنگ میں شرکت کرنا چاہتے ہیں وہ ایک ندی کے پاس پہنچیں اور کوئی بھی ندی سے سیر ہو کر پانی نہ پیے، البتہ دو گھونٹ سے حلق تر کیا جا سکتا ہے۔ جو شخص اس حکم کی پاسداری نہ کرے گا اور جی بھر کے پانی پیے گا، اسے اللہ کی جماعت سے نکال دیا جائے گا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جب لشکر ندی کے پاس پہنچا تو بہت سے لوگوں نے سیر ہو کر پانی پیا اور کہنے لگے کہ ''ہم جالوت جیسے طاقتور اور سفاک حکمران سے کیسے لڑیں گے۔'' لیکن ایک جماعت نے حکم کی پاسداری کی اور ندی کا پانی نہ پیا اور اطاعت امیر کا ثبوت دیا۔ لوگ کم تھے لیکن ثابت قدم تھے، دونوں لشکر آمنے سامنے آئے، بنی اسرائیل جالوت سے خوف زدہ تھے، اس موقع پر حضرت داؤد علیہ السلام سامنے آئے، ان کی عمر کم تھی، وہ اپنے ساتھ ہمیشہ ایک تھیلا اور گوپھن رکھتے تھے، گوپھن رسی سے بنا ہوا ایک ہتھیار ہوتا ہے، غلیل کی مانند جس میں پتھر رکھ کر مارتے ہیں۔ تھیلے میں پتھر ہوتے تھے۔
حضرت داؤد ؑ فوراً طالوت کے لشکر کے پاس پہنچے اور وہاں موجود سرداروں سے کہا کہ ''وہ عمالقا کے طاقتور سپہ سالار جالوت کو قتل کریں گے'' انھیں جب طالوت کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے دیکھا کہ یہ تو نوجوان ہے، یہ بھلا طالوت جیسے دیوہیکل انسان کا کیا مقابلہ کرے گا، لیکن اس کا یقین اور خود اعتمادی دیکھ کر طالوت نے انھیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔
جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤد ؑ نے جالوت کو للکارا۔ جالوت نے جب اپنے سامنے ایک نوجوان کو دیکھا تو اسے حقیر سمجھ کر زیادہ توجہ نہ دی۔ لیکن جب دونوں آمنے سامنے آئے تو جالوت کو ان کی بہادری اور شجاعت کا اندازہ ہوا۔ داؤد علیہ السلام نے فوراً اپنی گوپھن نکالی اور یکے بعد دیگرے تینوں پتھر اپنی گوپھن سے جالوت کے سر پر مارے، جالوت کا سر پاش پاش ہوگیا۔ وہ اس کی گردن کاٹ کر طالوت کے پاس گئے۔ طالوت نے حسب وعدہ اپنی بیٹی کی شادی ان سے کر دی اور آدھی سلطنت بھی ان کے حوالے کر دی۔
یہ تھے حضرت داؤد علیہ السلام جنھیں بعد میں نبوت عطا ہوئی وہ بیک وقت نبی رسول اور بادشاہ تھے۔ اللہ نے ان پر زبور نازل فرمائی۔