چار سال بعد نواز شریف کی واپسی

واپسی سے قبل میاں صاحب نے عمرے اور مدینہ پاک کی زیارت کی سعادت بھی حاصل کر لی ہے


Tanveer Qaisar Shahid October 20, 2023
[email protected]

کل21اکتوبر2023 بروز ہفتہ جناب محمد نواز شریف لندن سے واپس وطن آ رہے ہیں۔ نون لیگ نے استقبال کے لیے بھرپور تیاریاں کررکھی ہیں۔نواز شریف حکومتِ وقت اور مجاز عدالت سے چار ہفتے کی اجازت لے کر لندن گئے تھے ، لیکن اجازت کے یہ چار ہفتے ، بوجوہ، چار سال تک پھیل گئے ۔

بعض اطراف سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جناب نواز شریف چار سال کی ''جلاوطنی'' کے بعد واپس پاکستان آ رہے ہیں ۔ یہ بیانیہ یا موقف درست نہیں ہے ۔اگر لندن میں اُن کے قیام کو ''جلاوطنی'' سے موسوم کیا جاتا ہے تو یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ جلاوطنی خود ساختہ تھی ۔

اپنی پسند ، آرام اور موزونیت(Convenience) کی جلاوطنی۔ واپسی سے قبل نواز شریف صاحب نے سعودی عرب اور دبئی کے دَورے کیے ہیں۔وہاں حکمرانوں سے کوئی اہم ملاقات تو نہیں ہُوئی ہے۔ لیکن یہ دَورہ خاصا با معنی کہا جا سکتا ہے۔

واپسی سے قبل میاں صاحب نے عمرے اور مدینہ پاک کی زیارت کی سعادت بھی حاصل کر لی ہے۔ خبروں کے مطابق نواز شریف صاحب نے واپسی سے قبل چین بھی جانا تھا مگر پھر اچانک اِس فہرست سے چین کا نام فہرست سے منہا کر دیا گیا ۔ شاید اس لیے بھی کہ انھی ایام میں نگران وزیر اعظم، انوارالحق کاکڑ، بھی چین کے دَورے پر تھے ۔

جناب نواز شریف ایسے حالات میں واپس آرہے ہیں جب قومی اور بین الاقوامی حالات میں ایک جوار بھاٹا آیا ہُوا ہے ۔ جب بہت سی مبینہ یقین دہانیوں کے باوصف سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف کے سر پر بہت سے خطرات و خدشات کی تلواریں لٹک رہی ہیں ۔

اُن کی آمد آمد کے موقعے پر اُن کے موافقین اور مخالفین دو یکساں دھڑوں میں منقسم ہیں۔ نگران حکومت کے وزیر اعظم ، جناب انوارالحق کاکڑ، اپنے متعدد انٹرویوز میں بار بار کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کی واپس پاکستان آمد پر قانون اپنا راستہ اپنائے گا۔

نگران وزر اعظم اپنے ایک مصاحبے میں یہ بھی کہہ چکے ہیں: ''نواز شریف کی واپسی میں ڈِیل کا تاثر غلط ہے ۔'' نگران وزیر اطلاعات ، جناب مرتضیٰ سولنگی، بھی اپنے کئی انٹرویوز میں یوں بیان دے چکے ہیں: ''نواز شریف جیل توڑ کر ملک سے بھاگے تھے نہ فرار ہُوئے تھے ۔

واپس آتے ہیں تو قانون کے مطابق اُن سے سلوک ہوگا۔'' یہ ایسے بین السطور اور ڈپلومیٹک بیانات ہیں کہ اِن سے کوئی واضح مطلب و معنیٰ اخذ کرنا دشوار ہے ۔پیپلز پارٹی کا مگر خیال یہ ہے کہ نواز شریف کی واپسی ''خاص مہربانی'' کا شاخسانہ ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما، راجہ پرویز اشرف، نے یہ کہہ کر اِسے زیادہ کھول دیا ہے: ''نواز شریف سمجھوتے کے تحت واپس آ رہے ہیں۔''

جناب نواز شریف ایسے ماحول میں وطن واپس آ رہے ہیں جب(1) اُن کے سب سے بڑے حریف (چیئرمین پی ٹی آئی )جیل میں ہیں۔ جب(2) پاکستان اور افغانستان میں سخت کشیدگی چل رہی ہے ۔ جب(3) افغانستان میں زلزلے نے ہرات میں تباہی پھیلا رکھی ہے ۔جب (4) غاصب اور صیہونی اسرائیلی افواج وحشت و بربریت سے کمزور اور بے وسیلہ فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر رہی ہیں ۔جب (5) ملک بھر میں ظالم اسرائیل کے خلاف جلسے جلوس نکل رہے ہیں۔

(6) جب شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی صورت میں نون لیگ باطنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جب (7) نگران حکومت کے وزیر اطلاعات نے پی ٹی آئی کے مرکزی و سینئر رہنما، شفقت محمود، سے اُن کے گھر جاکر ملاقات کی ہے۔جب (8) بلاول بھٹو کراچی میں نواز شریف پر گرجے برسے ہیں۔

اِس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ محترمہ مریم نواز شریف نے نواز شریف صاحب کے استقبال کو کامیاب کرانے میں انتھک محنت کی ہے ۔ انھوں نے اِس سلسلے میں نون لیگ کے کارکنوں اور رہنماؤں سے لاتعداد میٹنگز کی ہیں ۔

لاہور اور اِس کے مضافات میں کامیاب جلسے کیے ہیں ۔ جناب شہباز شریف بھی اِس ضمن میں مریم نواز شریف سے بھرپور تعاون کرتے دکھائی دیے ہیں ۔اِن جلسوں میں مریم نواز اور شہباز شریف اپنے مرئی اور غیر مرئی مخالفین کا احتساب کرنے بارے بالکل خاموش رہے۔یوں مخالفین کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے کہ نون لیگ اور نواز شریف اپنے واضح ''احتسابی''موقف اور نعرے سے دستکش ہو گئے ہیں ۔

حیرانی کی بات ہے کہ نواز شریف کی آمد آمد کے موقعے پر مریم نواز شریف نے کسی بھی میڈیا کو کوئی انٹرویو نہیں دیا ہے۔

یہی انداز جناب نواز شریف نے بھی اپنائے رکھا۔ شہباز شریف اور مریم نواز شریف ، دونوں ہی نواز شریف کے لیے منعقدہ استقبالی جلسوں سے خطاب کرتے ہُوئے اپنے اپنے جلسوں میں نواز شریف کے گزشتہ دَور کی کامیابیوں کا بکثرت ذکر کرتے پائے گئے ہیں۔

مگر دونوں ہی اُن 16مہینوں کا ذکر نہیں کرتے جن میں شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران عوام کی کمر توڑ دی گئی۔ مہنگائی اور ڈالر جب آسمانوں کو چھونے لگے تھے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں65 کی جنگ کے ترانے تو گائے جاتے ہیں لیکن 71کی جنگ کا ذکر ہمیشہ گول کر دیا جاتا ہے ۔

انصاف اور شائستگی کا تقاضا تو یہ ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے موقعے پر نون لیگ واضح طور پر اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا کھل کر اظہار کرے ۔یہ اسلوب اُسے قوم کے سامنے مزید سرخرو کر سکتا ہے اور جرأتمند بھی ۔ حضرت علامہ اقبال ؒ کا بھی یہی کہنا ہے :'' صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم/کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب ''۔ بطورِ وزیر اعظم شہباز شریف کے اقدامات سے پاکستانی عوام اب تک ناراض ہے۔

اِس شدید ناراضی کا ایک عملی اظہار گزشتہ روز اُس وقت ہُوا جب شہباز شریف کی گاڑی کو ایک اژدہام نے سرِ راہ روک لیا تھا ۔ اگرچہ روکنے والے کئی افراد پر اب کیس بھی بنا دیے گئے ہیں ۔ نواز شریف کو وطن واپسی پر جہاں متعدد ، متنوع اور لاتعداد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا، وہاں سب سے بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ نون لیگ کے قائد جناب محمد نواز شریف کیسے اُن لوگوں کو راضی کرکے اپنی اور اپنی پارٹی کی جانب مائل اور قائل کر سکتے ہیں جو بوجوہ نون لیگ اور شہباز شریف سے سخت ناراض ہو چکے ہیں۔

عوام حیران ہیں کہ نواز شریف کی واپسی کے موقعے پر اُن کے دونوں صاحبزادے استقبال میں موجود کیوں نہیں ہیں؟یہی حال خان اور چوہدری پرویز الٰہی کا ہے کہ باپ جیلوں میں پڑے ہیں اور صاحبزادگان بیرونِ پاکستان موجیں اُڑا رہے ہیں۔بہرحال، نواز شریف سے عوام نے بڑی اور بلند توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ خدا کرے کہ بڑے میاں صاحب کی وطن واپسی ملک وقوم کے لیے بہتری اور نعمت ثابت ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔