رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
فلسطین کی سرزمین پر حق و باطل کے اِس معرکہ نے طول پکڑ لیا ہے
فرمانِ الٰہی ہے '' اور تم سب مل کر اﷲ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اورآپس میں تفرقہ مت ڈالو'' مسلمانانِ عالم نے ایسا نہیں کیا جس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
شاعرِ ملت علامہ اقبال نے اپنے اشعار سے اُمتِ مسلمہ کو بیدار کرنے کے لیے اپنی شاعری کو وقف کردیا لیکن افسوس اُس پر اُمہ نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ علامہ اِس بات پر نہایت آزردہ تھے کہ عالم اسلام میں اتحاد کا شدید فقدان ہے۔ انھوں نے بہت دُکھی دل سے کہا۔
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
مسلم اُمہ کی حالتِ زار دیکھ کر علامہ کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ انھیں اِس بات کا شدید صدمہ تھا کہ انتشار و خلفشار میں مسلمانوں کو ایک جسد کی طرح سے فرقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اُن کی روح اِس صورتحال کی وجہ سے بہت بے چین اور مضطرب تھی۔ وہ اِس کیفیت پر بُری طرح تڑپ کر یوں مخاطب ہوئے۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
انھیں اِس بات کا شدید اندیشہ لاحق تھا کہ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کی اِس کمزوری سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں گے لہٰذا انھوں نے مسلمانانِ عالم کو درد بھرے دل سے مخاطب کیا۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلیوں کا موجودہ خوں ریز معرکہ صیہونیت اور فتنہ پروری کی تازہ مثال ہے جس میں مکمل ناکامی اِس کا انجام ہے۔
فلسطینی بے سروسامانی کی حالت میں اﷲ کے بھروسہ پر اسرائیل کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں جو جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے اور جس کے حمایتی بھی انتہائی طاقتور ہیں لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ کفر کے خلاف اسلام کے معرکہ میں آخری فتح اسلام ہی کی ہوئی ہے جس کی مثال ہزاروں کی تعداد پر مشتمل کفار کے لشکر پر صرف 313 مجاہدین کے غلبہ پانے کی صورت میں ملتی ہے۔
اسرائیل کو اپنی عسکری قوت پر گھمنڈ ہے۔ یہ اُس بدمست ہاتھی کی طرح ہے جو کسی بھی ہمسایہ ملک کو اپنے پاؤں کے تلے روند سکتا ہے۔ فرنگی استعمار کی کوکھ سے جنم لینے والے اس ملک نے فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے۔
فلسطین کی سرزمین پر حق و باطل کے اِس معرکہ نے طول پکڑ لیا ہے۔اگر عالمِ اسلام میں اتحاد ہوتا تو یہ نوبت کبھی نہ آتی لیکن اِس کا کیا کیا جائے کہ بے تحاشہ وسائل اور دولت سے مالا مال مسلم ممالک اپنی اپنی کھال میں مست ہیں۔
عالمِ اسلام کے ماضی، حال اور مستقبل سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انھیں عیش و عشرت سے فرصت نہیں ہے۔ اِن کے پاس تیل اور دیگر معدنیات کی شکل میں جو خزانے ہیں انھیں وہ اپنی ملکیت اور میراث سمجھتے ہیں۔ انھیں اِس حقیقت کا کوئی احساس نہیں کہ ربِ کریم کی شانِ بے نیازی اور کلمہ گوئی کے ثمرات ہیں۔
اسلامی ممالک کے کاروباری طبقے کے تجارتی مفادات مغربی ممالک کے ساتھ ہیں جب کہ حکمران طبقے مغرب کے اتحادی ہیں۔اس لیے سب خاموش ہیں۔ انھیں یہ یاد نہیں رہا کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب خدا کے دربار میں اِن کی پیشی ہوگی تو یہ اپنے عمال کا کیا جواب دیں گے۔ انِ میں ایسے حکمراں بھی شامل ہیں جن کی حالت یہ ہے کہ:
یزید سے بھی مراسم
حُسین کو بھی سلام
فلسطینیوں کی اسرائیلیوں کے خلاف جدوجہد نے دنیا کے بیشتر مسلم ممالک میں بیداری کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ 57 اسلامی ممالک پر مشتمل تنظیم او آئی سی نے مشرقِ وسطیٰ کی سنگین صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہ فلسطینیوں کی بروقت اور کارگر مدد کے لیے ایک بہترین حکمتِ عملی تیار کرنے میں انتہائی مصروف ہے۔
دوسری جانب مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہورہا ہے اور انھیں انسانیت سوز بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ پرچمِ آزادی بلند کرنے والے بہادر فلسطینیوں پر نئے نئے مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔
اُن کی بجلی کاٹ دی گئی ہے اور پانی تک بند کردیا گیا ہے۔ لاشوں کے انبار لگے ہوئے ہیں اور گھپ اندھیروں میں مظلوم خواتین کی آہیں اور سسکیاں بلند ہورہی ہیں اور بھوک کے مارے ہوئے معصوم بچے پیاس بجھانے کے لیے بلک بلک کر العطش پکار رہے ہیں۔
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور رہ رہ کر سانحہ کربلا کی یاد ستا رہی ہے۔
شاعرِ ملت علامہ اقبال نے اپنے اشعار سے اُمتِ مسلمہ کو بیدار کرنے کے لیے اپنی شاعری کو وقف کردیا لیکن افسوس اُس پر اُمہ نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ علامہ اِس بات پر نہایت آزردہ تھے کہ عالم اسلام میں اتحاد کا شدید فقدان ہے۔ انھوں نے بہت دُکھی دل سے کہا۔
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
مسلم اُمہ کی حالتِ زار دیکھ کر علامہ کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ انھیں اِس بات کا شدید صدمہ تھا کہ انتشار و خلفشار میں مسلمانوں کو ایک جسد کی طرح سے فرقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اُن کی روح اِس صورتحال کی وجہ سے بہت بے چین اور مضطرب تھی۔ وہ اِس کیفیت پر بُری طرح تڑپ کر یوں مخاطب ہوئے۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
انھیں اِس بات کا شدید اندیشہ لاحق تھا کہ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کی اِس کمزوری سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں گے لہٰذا انھوں نے مسلمانانِ عالم کو درد بھرے دل سے مخاطب کیا۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلیوں کا موجودہ خوں ریز معرکہ صیہونیت اور فتنہ پروری کی تازہ مثال ہے جس میں مکمل ناکامی اِس کا انجام ہے۔
فلسطینی بے سروسامانی کی حالت میں اﷲ کے بھروسہ پر اسرائیل کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں جو جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے اور جس کے حمایتی بھی انتہائی طاقتور ہیں لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ کفر کے خلاف اسلام کے معرکہ میں آخری فتح اسلام ہی کی ہوئی ہے جس کی مثال ہزاروں کی تعداد پر مشتمل کفار کے لشکر پر صرف 313 مجاہدین کے غلبہ پانے کی صورت میں ملتی ہے۔
اسرائیل کو اپنی عسکری قوت پر گھمنڈ ہے۔ یہ اُس بدمست ہاتھی کی طرح ہے جو کسی بھی ہمسایہ ملک کو اپنے پاؤں کے تلے روند سکتا ہے۔ فرنگی استعمار کی کوکھ سے جنم لینے والے اس ملک نے فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے۔
فلسطین کی سرزمین پر حق و باطل کے اِس معرکہ نے طول پکڑ لیا ہے۔اگر عالمِ اسلام میں اتحاد ہوتا تو یہ نوبت کبھی نہ آتی لیکن اِس کا کیا کیا جائے کہ بے تحاشہ وسائل اور دولت سے مالا مال مسلم ممالک اپنی اپنی کھال میں مست ہیں۔
عالمِ اسلام کے ماضی، حال اور مستقبل سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انھیں عیش و عشرت سے فرصت نہیں ہے۔ اِن کے پاس تیل اور دیگر معدنیات کی شکل میں جو خزانے ہیں انھیں وہ اپنی ملکیت اور میراث سمجھتے ہیں۔ انھیں اِس حقیقت کا کوئی احساس نہیں کہ ربِ کریم کی شانِ بے نیازی اور کلمہ گوئی کے ثمرات ہیں۔
اسلامی ممالک کے کاروباری طبقے کے تجارتی مفادات مغربی ممالک کے ساتھ ہیں جب کہ حکمران طبقے مغرب کے اتحادی ہیں۔اس لیے سب خاموش ہیں۔ انھیں یہ یاد نہیں رہا کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب خدا کے دربار میں اِن کی پیشی ہوگی تو یہ اپنے عمال کا کیا جواب دیں گے۔ انِ میں ایسے حکمراں بھی شامل ہیں جن کی حالت یہ ہے کہ:
یزید سے بھی مراسم
حُسین کو بھی سلام
فلسطینیوں کی اسرائیلیوں کے خلاف جدوجہد نے دنیا کے بیشتر مسلم ممالک میں بیداری کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ 57 اسلامی ممالک پر مشتمل تنظیم او آئی سی نے مشرقِ وسطیٰ کی سنگین صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہ فلسطینیوں کی بروقت اور کارگر مدد کے لیے ایک بہترین حکمتِ عملی تیار کرنے میں انتہائی مصروف ہے۔
دوسری جانب مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہورہا ہے اور انھیں انسانیت سوز بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ پرچمِ آزادی بلند کرنے والے بہادر فلسطینیوں پر نئے نئے مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔
اُن کی بجلی کاٹ دی گئی ہے اور پانی تک بند کردیا گیا ہے۔ لاشوں کے انبار لگے ہوئے ہیں اور گھپ اندھیروں میں مظلوم خواتین کی آہیں اور سسکیاں بلند ہورہی ہیں اور بھوک کے مارے ہوئے معصوم بچے پیاس بجھانے کے لیے بلک بلک کر العطش پکار رہے ہیں۔
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور رہ رہ کر سانحہ کربلا کی یاد ستا رہی ہے۔