شاعر ساحر لدھیانوی شکیل بدایونی اور تاج محل کی تکرار
ساحر لدھیانوی کی نظموں اور غزلوں نے نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کیا تھا
شاعری میں ہمیشہ سے دو مختلف نظریات کے حامل شاعر منظر عام پر آئے اور شہرت حاصل کی، اردو ادب میں کچھ وہ شاعر رہے جو مزاحمتی شاعری کے علم بردار کہلائے اور انھوں نے سامراجی نظام، جاگیردارانہ سوچ اور بادشاہت کو انسانیت کا دشمن قرار دیا اور کچھ شاعروں نے پیار، محبت اور رواداری کی شاعری کو فروغ دیا ۔
جب ہندوستان میں اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو ساحر لدھیانوی کی نظموں اور غزلوں نے نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کیا تھا، ابھی وہ فلمی دنیا کی طرف نہیں آئے تھے لیکن ادبی دنیا میں ان کی مقبولیت عروج پر تھی، ان کی شاعری کا ایک مجموعہ '' تلخیاں '' منظر عام پر آچکا تھا جس کو بڑی پذیرائی ملی تھی، ان کے اس شعری مجموعے میں بعض نظموں نے بہت زیادہ مزاحمت کا رنگ اختیارکیا ہوا تھا۔
خصوصاً ان کی ایک نظم '' چکلے'' جو بدن فروش عورتوں کی بے بسی کی عکاسی کرتی تھی اور پھر ایک اور نظم جو ساحر لدھیانوی نے آگرہ کے '' تاج محل'' پر لکھی تھی۔
دونوں نظموں نے معاشرے میں ایک آگ سی لگا دی تھی۔ میرا کالم تاج محل سے متعلق ہے، اس سے پہلے کہ میں ساحر لدھیانوی کے نظریات سے اختلاف کرنے والے شاعر شکیل بدایونی کا تذکرہ کروں، میں قارئین اور آج کی نوجوان نسل کی دلچسپی اور توجہ کے لیے ساحر لدھیانوی کی نظم تاج محل کے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں۔ اس میں وہ ایک فرضی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
تاج تیرے لیے اک مظہرِ الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے محبت ہی سہی
مری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
مری محبوب پسِ پردۂ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
مری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
ساحر لدھیانوی کی اس طویل نظم کا ایک ایک شعر محبت کرنے والے غریبوں کے دل پر ایک خنجر مارنے کے مترادف تھا۔ ساحر لدھیانوی علم کی دنیا سے پھر فلم کی دنیا میں آ گئے تھے اور اپنے گیتوں کی وجہ سے فلمی دنیا میں چھا گئے تھے۔
اب میں آتا ہوں ایک اور نامور شاعر شکیل بدایونی کی طرف جنھیں فلم ساز رام مکھرجی نے اپنی فلم لیڈر کے گیتوں کے لیے منتخب کیا اور کہا '' وہ ایک گیت تاج محل کے پس منظر میں فلمانا چاہتے ہیں۔
آپ محبت کے شاعر ہیں ،مجھے آپ سے ایک خوب صورت گیت چاہیے جو تاج محل کی عکاسی بھی کرے اور اسے محبت کا سمبل بنا کے بھی پیش کرے۔ مگر مجھے ایک ڈر یہ ہے کہ ہندوستان میں ساحر لدھیانوی کے چاہنے والے بہت ہیں اور ان میں نوجوان نسل کی تعداد زیادہ ہے اور نوجوانوں نے اس نظم کا اثر بھی قبول کیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو، ہماری فلم لیڈر کا تاج محل کے پس منظر میں فلمایا ہوا گیت فلم کی ناکامی کی وجہ نہ بن جائے کیونکہ ساحر لدھیانوی کی نظم بڑی سحر انگیز ہے۔'' یہ سن کر شکیل بدایونی نے ہدایت کار رام مکھرجی سے برملا کہا تھا ''ادب کی دنیا اور ہے اور فلم کی دنیا اور ہے۔
اگر ہم نے گیت کو محبت کا سمبل بنا کر لکھا اور نوشاد صاحب نے اپنی موسیقی سے اسے اچھی طرح سجا دیا تو فلم بیں اس گیت کے بھی دیوانے ہو جائیں گے۔'' پھر شکیل بدایونی بولے '' میں دو، تین دن میں سوچ بچار کے بعد ایک گیت لکھ کر آپ کو سناؤں گا، مجھے یقین ہے وہ گیت آپ کے تمام خدشات کی نفی کر دے گا۔ '' پھر جب شکیل بدایونی نے دوسری ملاقات میں ہدایت کار رام مکھرجی اور موسیقار نوشاد کو وہ گیت سنایا تو دونوں نے شکیل بدایونی کا ماتھا چوم لیا تھا، میں وہ دلکش گیت بھی قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کرتا ہوں۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اس کے سائے میں سدا پیارکے چرچے ہوں گے
ختم جو ہو نہ سکے گی وہ کہانی ہوگی
تاج وہ شمع ہے الفت کے صنم خانے کی
جس کے پروانوں میں مفلس بھی ہیں زردار بھی ہیں
سنگ مر مر میں کمائے ہوئے خوابوں کی قسم
مرحلے پیار کے آسان بھی دشوار بھی ہیں
دل کو اک جوش ارادوں کو جوانی دی ہے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ہم غریبوں کو محبت کی نشانی دی ہے
اس گیت کو سن کر موسیقار نوشاد نے فلم ساز و ہدایت کار رام مکھرجی سے کہا تھا'' میرے خیال میں اب آپ کے سارے خدشات ختم ہوگئے ہوں گے۔'' وہ گیت محمد رفیع اور لتا منگیشکر کی مدھر آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا اور دلیپ کمار اور وجنتی مالا پر عکس بند کیا گیا تھا۔ فلم لیڈر جب ریلیز ہوئی تو سارے ہندوستان میں اس گیت کی دھوم مچ گئی تھی اور پھر یہی گیت فلم لیڈر کی ہائی لائٹ ہو گیا تھا۔
اب میں تھوڑی سی تاج محل کی تاریخ بھی بیان کرتا چلوں۔ تاج محل مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی محبت سے مغلوب ہو کر بنوائی تھی۔ تاج محل بائیس سال کی طویل مدت میں سیکڑوں مزدوروں کی محنت کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا تھاس۔ اس کیعقب میں خوبصورت نہر ہے جو اس کی دلکشی میں اضافہ کرتی ہے۔
تاج محل دنیا میں مسلم آرٹ کا نمونہ ہے۔ شکیل بدایونی کے لکھے ہوئے اس حسین گیت نے تاج محل کے حسن میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ساحر لدھیانوی کی نظم کے سلگتے ہوئے احساس کو بھی کافی ٹھنڈا کر دیا ہے بلکہ تاج محل سے متعلق ایک طرح کی نفرت کو بھی دھندلا دیا ہے۔
تاج محل کل بھی محبت کرنے والوں کو ایک حسین پیغام دیتا رہا ہے اور آج بھی لاکھوں محبت کرنے والوں کے دلوں کی دھڑکنوں میں سمایا ہوا ہے اور رہتی دنیا تک تاج محل کی یہ دلکشی ہمیشہ جگمگاتی رہے گی ۔
جب ہندوستان میں اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو ساحر لدھیانوی کی نظموں اور غزلوں نے نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کیا تھا، ابھی وہ فلمی دنیا کی طرف نہیں آئے تھے لیکن ادبی دنیا میں ان کی مقبولیت عروج پر تھی، ان کی شاعری کا ایک مجموعہ '' تلخیاں '' منظر عام پر آچکا تھا جس کو بڑی پذیرائی ملی تھی، ان کے اس شعری مجموعے میں بعض نظموں نے بہت زیادہ مزاحمت کا رنگ اختیارکیا ہوا تھا۔
خصوصاً ان کی ایک نظم '' چکلے'' جو بدن فروش عورتوں کی بے بسی کی عکاسی کرتی تھی اور پھر ایک اور نظم جو ساحر لدھیانوی نے آگرہ کے '' تاج محل'' پر لکھی تھی۔
دونوں نظموں نے معاشرے میں ایک آگ سی لگا دی تھی۔ میرا کالم تاج محل سے متعلق ہے، اس سے پہلے کہ میں ساحر لدھیانوی کے نظریات سے اختلاف کرنے والے شاعر شکیل بدایونی کا تذکرہ کروں، میں قارئین اور آج کی نوجوان نسل کی دلچسپی اور توجہ کے لیے ساحر لدھیانوی کی نظم تاج محل کے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں۔ اس میں وہ ایک فرضی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
تاج تیرے لیے اک مظہرِ الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے محبت ہی سہی
مری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
مری محبوب پسِ پردۂ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
مری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
ساحر لدھیانوی کی اس طویل نظم کا ایک ایک شعر محبت کرنے والے غریبوں کے دل پر ایک خنجر مارنے کے مترادف تھا۔ ساحر لدھیانوی علم کی دنیا سے پھر فلم کی دنیا میں آ گئے تھے اور اپنے گیتوں کی وجہ سے فلمی دنیا میں چھا گئے تھے۔
اب میں آتا ہوں ایک اور نامور شاعر شکیل بدایونی کی طرف جنھیں فلم ساز رام مکھرجی نے اپنی فلم لیڈر کے گیتوں کے لیے منتخب کیا اور کہا '' وہ ایک گیت تاج محل کے پس منظر میں فلمانا چاہتے ہیں۔
آپ محبت کے شاعر ہیں ،مجھے آپ سے ایک خوب صورت گیت چاہیے جو تاج محل کی عکاسی بھی کرے اور اسے محبت کا سمبل بنا کے بھی پیش کرے۔ مگر مجھے ایک ڈر یہ ہے کہ ہندوستان میں ساحر لدھیانوی کے چاہنے والے بہت ہیں اور ان میں نوجوان نسل کی تعداد زیادہ ہے اور نوجوانوں نے اس نظم کا اثر بھی قبول کیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو، ہماری فلم لیڈر کا تاج محل کے پس منظر میں فلمایا ہوا گیت فلم کی ناکامی کی وجہ نہ بن جائے کیونکہ ساحر لدھیانوی کی نظم بڑی سحر انگیز ہے۔'' یہ سن کر شکیل بدایونی نے ہدایت کار رام مکھرجی سے برملا کہا تھا ''ادب کی دنیا اور ہے اور فلم کی دنیا اور ہے۔
اگر ہم نے گیت کو محبت کا سمبل بنا کر لکھا اور نوشاد صاحب نے اپنی موسیقی سے اسے اچھی طرح سجا دیا تو فلم بیں اس گیت کے بھی دیوانے ہو جائیں گے۔'' پھر شکیل بدایونی بولے '' میں دو، تین دن میں سوچ بچار کے بعد ایک گیت لکھ کر آپ کو سناؤں گا، مجھے یقین ہے وہ گیت آپ کے تمام خدشات کی نفی کر دے گا۔ '' پھر جب شکیل بدایونی نے دوسری ملاقات میں ہدایت کار رام مکھرجی اور موسیقار نوشاد کو وہ گیت سنایا تو دونوں نے شکیل بدایونی کا ماتھا چوم لیا تھا، میں وہ دلکش گیت بھی قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کرتا ہوں۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اس کے سائے میں سدا پیارکے چرچے ہوں گے
ختم جو ہو نہ سکے گی وہ کہانی ہوگی
تاج وہ شمع ہے الفت کے صنم خانے کی
جس کے پروانوں میں مفلس بھی ہیں زردار بھی ہیں
سنگ مر مر میں کمائے ہوئے خوابوں کی قسم
مرحلے پیار کے آسان بھی دشوار بھی ہیں
دل کو اک جوش ارادوں کو جوانی دی ہے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ہم غریبوں کو محبت کی نشانی دی ہے
اس گیت کو سن کر موسیقار نوشاد نے فلم ساز و ہدایت کار رام مکھرجی سے کہا تھا'' میرے خیال میں اب آپ کے سارے خدشات ختم ہوگئے ہوں گے۔'' وہ گیت محمد رفیع اور لتا منگیشکر کی مدھر آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا اور دلیپ کمار اور وجنتی مالا پر عکس بند کیا گیا تھا۔ فلم لیڈر جب ریلیز ہوئی تو سارے ہندوستان میں اس گیت کی دھوم مچ گئی تھی اور پھر یہی گیت فلم لیڈر کی ہائی لائٹ ہو گیا تھا۔
اب میں تھوڑی سی تاج محل کی تاریخ بھی بیان کرتا چلوں۔ تاج محل مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی محبت سے مغلوب ہو کر بنوائی تھی۔ تاج محل بائیس سال کی طویل مدت میں سیکڑوں مزدوروں کی محنت کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا تھاس۔ اس کیعقب میں خوبصورت نہر ہے جو اس کی دلکشی میں اضافہ کرتی ہے۔
تاج محل دنیا میں مسلم آرٹ کا نمونہ ہے۔ شکیل بدایونی کے لکھے ہوئے اس حسین گیت نے تاج محل کے حسن میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ساحر لدھیانوی کی نظم کے سلگتے ہوئے احساس کو بھی کافی ٹھنڈا کر دیا ہے بلکہ تاج محل سے متعلق ایک طرح کی نفرت کو بھی دھندلا دیا ہے۔
تاج محل کل بھی محبت کرنے والوں کو ایک حسین پیغام دیتا رہا ہے اور آج بھی لاکھوں محبت کرنے والوں کے دلوں کی دھڑکنوں میں سمایا ہوا ہے اور رہتی دنیا تک تاج محل کی یہ دلکشی ہمیشہ جگمگاتی رہے گی ۔