ذکرِ الٰہی اور شُکرِ الٰہی کی فضیلت

’’نہ بنو ان لوگوں کی طرح جو اﷲ کو بھول چکے ہیں، تو اﷲ نے بھی بھلا دیا ان سے اپنے ہی نفسوں کو اور یہی لوگ فاسق ہیں۔‘‘

فوٹو : فائل

دورِ حاضر کے معاشرے میں طرزِ زندگی اور بُود و باش جس سرعت کے ساتھ تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے کہ وہ کسی کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں بعض حساس قلوب اذیت میں مبتلا ہیں اور اس خواہش و سعی میں مصروف عمل ہیں کہ معاشرہ اصلاحی کاوشوں کا اثر قبول کر لے اور اسلامی طرز زندگی کو اپنائے۔

ذکرِ الٰہی دراصل قربِ الٰہی کی خاطر اﷲ کو یاد کرنے کا نام ہے۔ یعنی زبان پر حمد و تسبیح اور تکبیر و تحلیل کے کلمات کا جاری رہنا۔

ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''تم مجھ کو یاد کرو میں بھی تم کو یاد کروں گا، میرا شکر ادا کرو، ناشکری نہ کرو۔'' (سورہ بقرہ)

ذکر کی فضیلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ خود اﷲ سبحان و تعالیٰ بھی یاد کرے گا پھر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ شکر کرو ناشکری نہ کرو۔ شکر کا مطلب ہے کہ اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں اور خداداد صلاحیتوں اور قوتوں کا اعتراف کرنا اور زبان سے تعریفی کلمات کا ادا کرنا۔ ان قوتوں اور صلاحیتوں کو اﷲ کی نافرمانی میں صرف کرنا اﷲ کی ناشکری یعنی کفرانِ نعمت ہے جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

یہاں پر ذکر اور شکر کا حکم ایک ساتھ دیا گیا ہے دونوں میں بہت مشابہت و مناسبت ہے۔ اﷲ رب العزت کی حمد و ثنا اور تسبیح و تحلیل میں شکر کے کلمات بھی پنہاں ہیں ذکرِ الٰہی دائمی عبادت ہے جیسا کہ سورہ العمران میں ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:

''ذکرِ الٰہی مومن کا وصفِ امتیازی ہے۔''

ایک اور جگہ فرمانِ الٰہی کا مفہوم ہے۔

''بہ کثرت اﷲ کا ذکر کرو بہت ممکن ہے فلاح نصیب ہو جائے۔''

حضرت عمرؓ نے رسول کریمؐ سے پوچھا: ''یا رسول اﷲ ﷺ! ہم کون سے مال جمع کریں؟''

آپؐ نے فرمایا: ''ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل۔''

ایک اور موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''اﷲ کا ذکر دلوں کے لیے شفا ہے۔''

''اﷲ کا ذکر تمہارے سب اعمال سے افضل ہے۔''

ذکرِ الٰہی کی حقیقت جاننے اور اس کی افادیت سے اچھی طرح مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ذکر الٰہی کی تین اقسام کو مختصراً بیان کر دیا جائے تاکہ ذکر کی اصل حقیقت اور افادیت اچھی طرح واضح ہو جائے۔

1: ذکر باللسان۔ 2: ذکر بالقلب 3: ذکر بالعمل۔

مندرجہ بالا تینوں اقسام میں ہم آہنگی ہوگی تو ذکرِ الٰہیہ اصلاحِ قلب کے لیے شفا اور کیماء ثابت ہو گا۔

1۔ ذکرِ باللسان: جب اﷲ کی حمد و ثنا، اسمائے حسنیٰ اور تکبیر و تحلیل کے کلماتِ طیبہ سے زبان تر و تازہ رہے گی تو لازماً اس کے اثرات دل پر بھی مرتب ہوتے رہیں گے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مفہوم: ''یاد رکھو، اﷲ کے ذکر سے ہی دل کا اطمینان حاصل ہوتا ہے۔'' یعنی ذکر الٰہی کے بغیر اہلِ ایمان کے دل بے قرار و بے اطمینان رہتے ہیں۔

سورہ اعراف میں ارشاد ربانی ہے، مفہوم: ''اور اچھے نام اﷲ ہی کے لیے ہیں، پس پکارو اﷲ کو ان ناموں سے۔'' اﷲ سبحان و تعالیٰ کے اسماء و صفات کا ذکر قبولیتِ دعا کا وسیلہ بھی ہے اور نزولِ رحمت اور دلی سکون کا ذریعہ بھی ہے۔ سرورِ کائنات ﷺ نے بھی فرمایا کہ جب ان کے وسیلے سے دعا کی جائے تو قبولیت کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے۔ ان اسماء کو احادیث میں ''اسمِ اعظم'' کہا گیا ہے۔

صحیح مسلم میں سمرہ بن جندبؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا:

''بہترین اور اﷲ کو سب سے زیادہ محبوب کلمات چار ہیں:

1۔ سبحان اﷲ: اﷲ ہر عیب اور شرکاء سے پاک ہے۔

2۔ الحمدﷲ: الوہیت کی کل صفات اﷲ ہی کے لیے ہیں۔

3۔ لاالہ الا اﷲ: اﷲ کے سوا کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں۔

4۔ اﷲ اکبر: اﷲ سب سے بڑا ہے۔''

مندرجہ بالا چاروں کلمات میں باری تعالیٰ کی توحید و تکبیر اور تسبیح و حمد بیان ہوئی ہیں۔ اسی لیے یہ اﷲ کے دربار میں بہترین و پسندیدہ ترین کلمات ہیں اور ان کا ذکر اسمِ اعظم کا ذکر ہے۔ رسول پاکؐ نے اپنی بیٹی فاطمہؓ اور ان کے شوہر حضرت علیؓ کو ہدایت کی تھی کہ جب تم سونے لگو تو ان کلمات کو پڑھ لیا کرو جسے ہم ''تسبیح فاطمہ'' کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔


سورہ العمران میں اﷲ سبحان و تعالیٰ ایمان والوں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے، مفہوم: ''جو لوگ اﷲ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش پر غور و فکر کرتے ہیں۔''

یہاں پر صرف ذکر کرنا نہیں مقصود بلکہ غور و تدبر بھی ضروری ہے۔

کسی صحابیؓ نے حضورؐ سے پوچھا کہ حضورؐ! کوئی ایسی چیز بتا دیجیے کہ جسے مشغلہ اور دستور بنا لیا جائے۔ تو آپؐ نے فرمایا: ''اﷲ کے ذکر سے تو ہر وقت رطب اللسان رہے۔''

2۔ ذکرِ بالقلب: ذکر قلبی یہ ہے کہ دل و دماغ میں اﷲ کی معرفت و خشیت اور عظمت و محبت شعوری طور پر موجود ہو۔ قلب سلیم کی یہی صفات ذکر الٰہی کا منبع اور سرچشمہ ہیں۔ ان صفات و کیفیات سے عاری اور غفلت کے پردوں میں لپٹا ہوا دل نہ تو اﷲ کے قہر و غضب سے ڈرتا ہے اور نہ ہی اس کی رحمت کے حصول کی طرف مائل ہوتا ہے۔

سورۂ زخرف میں اﷲ پاک کا ارشاد کا مفہوم ہے:

''جو ذکرِ خدا سے غافل ہو کر زندگی گزارے گا تو ہم اس کے لیے شیطان مقرر کر دیتے ہیں۔''

حضور سرورِ کائنات ﷺ کا ارشاد مبارک ہے، مفہوم:

''اﷲ تعالیٰ غافل دلوں کی زبانی دعا قبول نہیں کرتا۔''

دراصل غافل دلوں کی عبادت میں سوز و گداز اور عبادت کا شوق بیدار نہیں ہوتا۔ ذکرِ الٰہی سے غافل دل کے اندر شیطانی راستے کھل جاتے ہیں۔ یوں نیکی، بھلائی اور فلاح کے راستے بھی بند ہو جاتے ہیں اور شیطانی الہام کو وہی دل آسانی سے قبول کر لیتے ہیں۔

اس کے برعکس رحمانی الہام انھی کے دلوں کے اندر راستہ پاتا ہے جو ذکرِ الٰہی کے نور سے معمور ہوں۔ یعنی دل اور زبان کی ہم آہنگی کے ساتھ شعوری ذکر ہی وہ حقیقی ذکر ہے جو دلوں کو نورانی بناتا ہے۔ ایمان و عقائد کو پختہ کرتا ہے۔

ایک عجیب سی توانائی اور عمیق سکون عطا کرتا ہے، پھر اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے ہر مشکل کو آسان بنا دیتا ہے۔ ہر اس کام سے اجتناب کرتا ہے جس کو اﷲ نے ناپسند قرار دیا ہو۔ اسی ذکرِ قلبی کو جہاد سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ قران مجید فرقانِ حمید میں اسی ذکر کے لیے ''ولذکر اﷲ اکبر'' کہا گیا ہے۔

یعنی جب الفاظ کے معنی و مفہوم دل میں اترتے جائیں اور اﷲ سبحان و تعالیٰ کی جانب دھیان و توجہ ہو تو ایسا ذکر دلوں میں روحانی کیفیت بیدار کر دیتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا یہ معجزہ تھا کہ جب وہ ذکر کرتے تو پہاڑ اور طیور بھی ان کا ساتھ دیتے۔ ذاکر زبان سے جو ذکر کر رہا ہو اس معنی میں غور و فکر کرے کیوں کہ ذکر کے الفاظ میں بھی تدبر کرنا اسی طرح مطلوب ہے جس طرح قرآن کریم میں تدبر کرنا مطلوب ہے۔

اس کے برخلاف ایسا ذکر جو زبان کو تو حرکت دے رہا ہے مگر دل میں وہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی جو ہونی چاہیے تو اس قسم کا ذکر ''اکبر'' نہیں بل کہ ''اصغر'' ہے۔ اﷲ باری و تعالیٰ تو دل کی آواز بھی سنتا ہے اور زبان کی آواز کو بھی مگر اﷲ کے نزدیک قبولیت دل کی آواز کو ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے غفلت و نسیان سے منع فرمایا ہے اور اسے دل کی بہت بڑی بیماری قرار دیا ہے۔

مفہوم: ''اور اپنے رب کو دل میں یاد کرتے رہو، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور جہر (زور کی آواز) سے اور کم آواز کے ساتھ صبح و شام کو اور نہ ہونا غفلت کرنے والوں میں سے۔''

سورہ کہف، مفہوم: ''اور اس شخص کی بات نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا۔''

سورہ الحشر میں ارشاد ربانی ہے:

مفہوم: ''نہ بنو ان لوگوں کی طرح جو اﷲ کو بھول چکے ہیں، تو اﷲ نے بھی بھلا دیا ان سے اپنے ہی نفسوں کو اور یہی لوگ فاسق ہیں۔''

اﷲ کو بھولنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے دل اﷲ کی یاد اور خوف سے خالی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اﷲ نے بھی ان کو بھلا دیا اور انھوں نے اپنی تباہی و بربادی کا راستہ خود منتخب کر لیا مگر ان کو اس بات کا ادراک نہیں ہے۔

3۔ ذکر بالعمل: ذکرِ باللسان اور ذکرِ قلبی سے اﷲ کی ہستی کا تصور اور عقائد مزید پختہ و راسخ ہو جاتے ہیں۔ اب ایک ذاکر کے اعمال و افعال میں بھی لازماً مثبت تبدیلی نظر آنی چاہیے اور اس کے اعمال و افعال میں شرک کا شائبہ بھی نظر نہیں آنا چاہیے۔

زندگی کے ہر موڑ پر اﷲ اور اس کے رسول کریم ﷺ کی ہدایات و احکامات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ یوں ہمہ وقت یادِ الٰہی سے زندگی اسلامی شریعت کے مطابق گزارنا اور اس پر عمل پیرا ہونا آسان ہو جائے گا۔ وہ اخلاقِ حسنہ سے آراستہ اور اخلاق رزیلہ اور گناہوں سے اجتناب کرنے کی کوشش کرے گا۔ غرض یہ کہ یادِ الٰہی سے ہی ہماری دنیا و آخرت میں فلاح و کام رانی کا راز پوشیدہ ہے۔

حضور پاکؐ نے حضرت معاذؓ کو یہ دعا بہت اہتمام سے سکھائی اور ہر نماز کے بعد پڑھنے کی تاکید فرمائی۔

مفہوم: ''الٰہی! مجھے مدد دے کہ میں آپ کی یاد، آپ کا شکر اور بہترین عبادت کروں۔''

اب حضورؐ کی یہ تاکید ہم سب کے لیے ہے، اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی ہر نماز کے بعد پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اب اس دین کی اصل کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی بن کر رہیں اور ایک دوسرے کے دست و بازو ہم درد و غم گسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں تاکہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔

اﷲ سے دعا ہے کہ ہماری اس سعی کو قبول فرمائے اور قارئین کو بہ حسن و خوبی استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story