عفو و درگزر

’’بے شک! اﷲ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔‘‘

’’بے شک! اﷲ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

حضرت اُبی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنّت میں) محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کیے جائیں تو اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کر ے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔'' (مستدرک)

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بے شک! اﷲ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔''

حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور پُرنور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: ''اے میرے رب! تیرے بندوں میں سے کون تیری بارگاہ میں زیادہ عزت والا ہے ؟ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وہ بندہ جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دے۔'' (شعب الایمان)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپؐ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطے کہ اﷲ کی حدود نہ پامال کی جائیں اور جب اﷲ کی حد پامال کی جاتی تو آپؐ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے اور آپؐ کو جب بھی دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپؐ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطے کہ وہ گناہ نہ ہو۔'' (جامع الترمذی)

حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم ﷺ سے ملا، میں نے ابتداً آپؐ کا ہاتھ پکڑ لیا اور میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ مجھے فضیلت والے اعمال بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا: ''اے عقبہ! جوتم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو، جو تم کو محروم کرے، اس کو عطا کرو، اور جو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو۔'' (مسند احمدبن حنبل)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ تاج دار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جب لوگ حساب کے لیے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اﷲ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنّت میں داخل ہو جائے۔ پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اﷲ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اﷲ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔ منادی کہے گا: ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا: جس کا اجر اﷲ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنّت میں داخل ہو جائے۔ تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔ (معجم الاوسط)

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہم راہ چل رہا تھا اور آپؐ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے آپؐ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپؐ کی مبارک گردن پر خراش آ گئی۔ وہ کہنے لگا: اﷲ تعالیٰ کا جو مال آپؐ کے پاس ہے، آپؐ حکم فرمائیے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے۔ حضور پُرنور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیے، پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، کتاب فرض الخمس)


امام زین العابدین بن حسینؓ کی لونڈی وضو کرواتے ہوئے ان پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے برتن آپؓ کے چہرے پر گر گیا جس سے چہرہ زخمی ہوگیا۔ آپؐ نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی: اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے '' اور غصہ پینے والے۔'' امام زین العابدینؓ نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اس نے پھر عرض کی: ''اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔'' ارشادفرمایا: اﷲ تعالیٰ تجھے معاف کرے۔ پھر عرض گزار ہوئی: ''اور اﷲ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔'' ارشاد فرمایا: جا! تو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد ہے۔ (ابن عساکر)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت اُم حبیبہؓ نے مجھے انتقال کے وقت بلایا، میں اُن کے پاس گئی تو مجھ سے کہا: ہمارے درمیان کوئی بات ہو جایا کرتی تھی تو جو کچھ ہُوا ہے اﷲ تعالیٰ مجھے بھی معاف کرے اور آپ کو بھی۔ میں نے کہا: اﷲ تعالیٰ آپ کی ایسی ساری باتیں معاف فرمائے، اور اُن سے درگزر فرمائے اور اُن باتوں کی سزا سے آپ کو محفوظ فرمائے۔ حضرت ام حبیبہؓ نے کہا: آپ نے مجھے خوش کیا، اﷲ آپ کو خوش فرمائے۔ پھر حضرت ام حبیبہؓ نے پیغام بھیج کر حضرت ام سلمہؓ کو بلایا اور اُن سے بھی یہی کہا۔

حضرت ابوالدردائؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آئے ، اُنہوں نے اپنا کپڑا پکڑ رکھا تھا، جس سے اُن کے گھٹنے عریاں ہو رہے تھے اور اس کا اُنہیں احساس نہیں تھا، اُنہیں دیکھ کر حضور نے فرمایا: تمہارے یہ ساتھی جھگڑ کر آرہے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے آکر سلام کیا اور عرض کیا: میرے اور ابن الخطاب کے درمیان کچھ بات ہوگئی تھی، جلدی میں میں اُن کو نامناسب بات کہہ بیٹھا، لیکن پھر مجھے ندامت ہوئی، جس پر میں نے اُن سے معافی مانگی، لیکن اُنہوں نے معاف کرنے سے انکار کردیا، تو میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا ہوں۔

حضور ﷺ نے فرمایا: اے ابوبکر! اﷲ تمہیں معاف فرمائے! اِدھر کچھ دیر کے بعد حضرت عمرؓ کو ندامت ہوئی تو اُنہوں نے حضرت ابوبکرؓ کے گھر آکر پوچھا: یہاں ابوبکرؓ آئے ہیں؟ گھر والوں نے کہا: نہیں! تو وہ بھی حضور ﷺ کی خدمت میں آگئے، اُنہیں دیکھ کر حضور ﷺ کا چہرہ بدلنے لگا، جس سے حضرت ابوبکرؓ ڈر گئے اور اُنہوں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دو مرتبہ عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! اﷲ کی قسم! قصور میرا زیادہ ہے۔

پھر حضور ﷺ نے فرمایا: اﷲ نے مجھے تم لوگوں کی طرف رسول بناکر بھیجا تھا، تو تم سب نے کہا تھا: تم غلط کہتے ہو، لیکن اُس وقت ابوبکر نے کہا تھا: آپؐ ٹھیک کہتے ہیں، اُنہوں نے اپنے مال اور جان کے ساتھ میرے ساتھ غم خواری کی، پھر آپ ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا: کیا تم میرے اِس ساتھی کو میری وجہ سے چھوڑ دو گے ؟ چناں چہ حضور ﷺ کے اس فرمان کے بعد کسی نے حضرت ابوبکرؓ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی۔

یہ ہیں اسلام کی وہ مبارک اور نورانی تعلیمات کہ جن کی برکت اور نورانیت کی وجہ سے ہمارا یہ انسانی معاشرہ باہمی رنجش و ناراضی اور خفگی و ناخوش گواری سے چھٹکارا حاصل کرکے اخوت و بھائی چارگی اور اتفاق و اتحاد کی زندگی بسر کرسکتا ہے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اس نکتے پر آکر کھڑا ہونا ہوگا کہ اسلام کی ان روشن اور مبارک تعلیمات کو سینے سے لگانا ہوگا اور اُنہیں مذہب اور قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا، تب کہیں جاکر ہمارے اس معاشرے اور ہماری اس اجتماعی زندگی سے نفرت، حقارت اور دُشمنی کا خاتمہ ممکن ہوگا اور اخوت و بھائی چارگی اور اُلفت و محبت کا بول بالا ہوگا۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story