مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

دنیا کی کوئی طاقت پاکستان چین تعلقات میں دراڑیں نہیں ڈال سکتی، اپنی دوطرفہ اسٹرٹیجک شراکت داری کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے، ان خیالات کا اظہار نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے دوران کیا۔

اس موقعے پر چینی صدر نے کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعلقات کا فروغ چاہتا ہے۔ سی پیک پاکستان اور چین کے مضبوط تعلقات کا عکاس ہے۔

علاوہ ازیں نگران وزیراعظم نے مختلف چینی کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں زراعت، قابل تجدید توانائی، ٹیکسٹائل، ڈیجیٹل معیشت، کانکنی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

نگران وزیراعظم کے دورہ چین سے بھی بہت سی اْمیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں، وہ بلاشبہ ان توقعات پر پورے اترے ہیں اور مزید اچھی خبریں آئی ہیں جن میں سب سے اہم سی پیک کی سڑک، ریل رابطے اور اقتصادی زون سے نکل کر زراعت، آئی ٹی اور معدنیات جیسے سیکٹرز تک توسیع ہے، درحقیقت یہ وہ سیکٹرز ہیں جو ایس آئی ایف سی نے سرمایہ کاری لانے کے لیے مقررکر رکھے ہیں۔

بعض عرب ممالک کی طرف سے بھی اِن میں سرمایہ کاری کا عندیہ دیاگیا ہے، مستقبل قریب میں پاکستان کا دیرینہ دوست چین بھی اِن سیکٹرز میں سرمایہ کاری کرے گا جس سے ایسا لگ رہا ہے کہ ایس آئی ایف سی اپنا مطلوبہ ٹارگٹ جلد پورا کر لے گی۔

چین نے پاکستانی معیشت کو نہ صرف آئی سی یو سے نکالنے میں پاکستان کی مدد کی بلکہ اب اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں بھی آگے نظر آرہا ہے۔ یقیناً ضرورت کے وقت کام آنے والے ہی کو دوست کہا جاتا ہے اور چین پاکستان کے بہترین دوستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

اس وقت سی پیک کی تعمیر اعلیٰ معیارکی ترقی کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، جس میں پہلے نمبر پر ریلوے ٹرنک لائن کی اپ گریڈیشن اورکراچی رنگ ریلوے منصوبے کو منصوبہ بندی میں شامل کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی جیسے کلیدی شعبوں میں تعاون بھی سی پیک کی تعمیر کے دوسرے مرحلے میں شامل ہے۔

پاکستان اِس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور سخت اقدامات کے باعث اگرچہ معیشت کے کچھ اشاریے مثبت آنا شروع ہو گئے ہیں، تاہم اِسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے بڑی سرمایہ کاری درکار ہے، حکومت نے 100 ارب ڈالرکا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے اور اِس کے حصول کے لیے خصوصی سرمایہ سہولت کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) دن رات کام کر رہی ہے۔

ایک تاریخی سنگ میل چین پاک اقتصادی راہداری کی صورت میں سامنے نظر آیا ہے ، جسے نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ پورے خطے کی معاشی ترقی کا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اربوں ڈالرز سرمایہ کاری کا حامل یہ منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس سے یقینی طور پر پاکستان میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوچکا ہے۔

حقائق کے تناظر میں اقتصادی تعاون چین پاک تعلقات کی بنیاد ہے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے فلیگ شپ منصوبے کے طور پر سی پیک نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو نمایاں طور پر تقویت دی ہے۔

سی پیک نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کا منظر نامہ تبدیل کر دیا ہے، رابطہ سازی، توانائی، صنعتی ترقی اور تجارت کو فروغ دیا ہے۔ اس تاریخی اقدام نے پاکستان میں معاشی ترقی، روزگارکے مواقعے پیدا کرنے اور غربت کے خاتمے کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔

آج چین پاکستان میں سب سے بڑا واحد سرمایہ کار بن گیا ہے۔ چین کی مدد نے پاکستان کی معاشی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے جب کہ آیندہ سی پیک کے تحت زراعت، صنعت، انفارمیشن اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری میں مزید اضافہ سامنے آئے گا۔ اسی طرح حالیہ عرصے میں چین کی انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن اور خلائی تحقیق سمیت مختلف شعبوں میں مہارت نے پاکستان کو نمایاں طور پر فائدہ پہنچایا ہے۔


مشترکہ تحقیق اور ترقیاتی اقدامات، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ابھرتے ہوئے شعبوں میں تعاون نے دونوں ممالک میں تکنیکی ترقی کو فروغ دیا ہے اور چین ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے چین کے ساتھ اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت 25 ارب ڈالر مالیت کے 50سے زائد منصوبے مکمل کیے ہیں۔

دوسری جانب افغانستان کے عبوری وزیرکامرس نے کہا ہے کہ طالبان کی حکومت باضابطہ طور پر چینی صدر شی جن پنگ کے ' بیلٹ اینڈ روڈ ' منصوبے میں شامل ہونا چاہتی ہے اور اس حوالے سے بات چیت کے لیے اپنی تکنیکی ٹیم چین بھیجے گی۔

سی پیک کے منصوبے کے تحت نئے متبادل راستے سے شندور، گلگت، چترال میں تجارتی سرگرمیوں، ترقی اور سیاحت کے فروغ میں مدد ملے گی، قومی اور بین الاقوامی سیاحوں کو قدرتی علاقوں کا دورہ کرنے کے مواقعے میسر آئیں گے، جس سے پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی میں مدد ملے گی۔

سی پیک 2030 میں مکمل ہو جائے گا، دونوں ممالک مالیاتی خدمات، سائنس اور ٹیکنالوجی، سیاحت، تعلیم، غربت کے خاتمے اور شہر کی منصوبہ بندی جیسے شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے مواقعے تلاش کریں گے۔

منصوبوں کی تعمیر سے ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے، پاکستان میں پہلے سے موجود سڑکوں کے نیٹ ورک اور سائنسی اصولوں پر مبنی منصوبہ بندی کو ترجیحی بنیادوں پر استعمال کرتے ہوئے نارتھ ساؤتھ کوریڈور کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان کو جو معاشی استحکام ملے گا وہ بھارت جیسے ازلی دشمن کو ہضم نہیں ہو سکتا۔ سی پیک چین اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ سی پیک سے پاکستانی عوام کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے، اس نے تعلیمی اور طبی منصوبوں کے ذریعے مقامی لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان، چائنا فرینڈ شپ پرائمری اسکول، گوادر، گوادر اسپتال، گوادر ووکیشنل کالج اور واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ جیسے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیے گئے ہیں، انفرا اسٹرکچر کی تعمیر سے سیاحت کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے، مجموعی طور پر زراعت کے شعبے میں نئے منصوبے شروع ہو رہے ہیں۔

سی پیک کے پہلے مرحلے میں توانائی کے منصوبوں کی تعمیر کو انتہائی اہمیت دی گئی۔ ہائیڈرو پاور اسٹیشن اور تھر بلاک 1 انٹیگریٹڈ کول مائن پاور پروجیکٹ کے بعد پاکستان میں بجلی کی قلت کو دور کرتے ہوئے توانائی کے ڈھانچے کو بہتر بنایا گیا ہے جس نے پائیدار معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

حال ہی میں سوکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن کے ڈیم کوکامیابی کے ساتھ مکمل کیا گیا جو 2024 میں فعال ہونے کے بعد ہر سال 3.212 بلین کلو واٹ صاف بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ اس منصوبے کی مدد سے پاکستان کے توانائی حاصل کرنے کے دیگر غیر قابل تجدید وسائل پر انحصار کو کم کیا جا سکے گا۔

توانائی کا شعبہ سی پیک میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری، تیزی سے ترقی کرنے والے، اور نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے شعبوں میں سے ایک ہے، جو نہ صرف پاکستان کو صاف، مستحکم اور اعلیٰ معیار کی توانائی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی ترقی فراہم کرتا ہے بلکہ پاکستانیوں کے لیے بڑی تعداد میں با صلاحیت افراد کی تربیت اور روز گار کے مواقعے بھی پیدا کرتا ہے۔

سی پیک کے تحت انفرا اسٹرکچر میں ایک بڑا منصوبہ پشاور،کراچی ایکسپریس وے (سکھر، ملتان سیکشن) باضابطہ طور پر آمدورفت کے لیے بحال ہے۔

سی پیک کے ذریعے دونوں ملکوں کی باہمی تجارت تو یقینا بڑھے گی لیکن اصل فائدہ یہ ہوگا کہ دنیا کے کئی ممالک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تجارتی مفادات کے لیے اس منصوبے سے منسلک ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔

یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ جب کسی خطے میں کاروباری سرگرمیاں شروع ہوجائیں تو مختلف ممالک کے اقتصادی مفادات ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور جہاں کاروبار، تجارت اور روزگار کے مواقعے وسیع ہو جائیں وہاں امن و خوشحالی آنا فطری امر ہے۔

سی پیک منصوبے کا مستقبل مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی طرح جگمگا رہا ہے، دنیا بھی اس حقیقت کو بہت جلد جان لے گی۔
Load Next Story