او آئی سی اور معاشی جنگ



جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم نے غزہ اسپتال پر بمباری منظم ریاستی دہشت گردی قرار دیا ہے۔7 اکتوبر کو شروع ہونے والی اس جنگ کے 11 روز کے بعد او آئی سی نے دراصل اوہ آئی سی کہہ کر جھرجھری لی اور کہا کہ جنگی جرائم میں ملوث عناصر کو سزا ملنی چاہیے، عالمی برادری ذمے دارانہ موقف اختیار کرے۔

او آئی سی جس کا اتنا اثر و رسوخ نہیں ہے کہ وہ امریکا اور اسرائیل کے حمایتی یورپی ممالک اور دیگر ممالک کو اسرائیلی مخالف موقف اختیار کرنے کا کہہ سکتا ہے، بلکہ اسے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اسرائیل مخالف جتنے بھی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں وہ اس سے بھی پہلو تہی کرتا نظر آ رہا ہے۔

اس سے قبل گزشتہ دہائی میں شاہ فیصل شہید کی قیادت میں '' پٹرول کا ہتھیار'' استعمال کیا گیا تھا۔ اب تو بہت سے عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات ہیں، جن پر کسی قسم کی چھینٹ نہیں پڑنے دی جا رہی ہے۔ البتہ ایک غیر اسلامی ملک کولمبیا نے اسرائیلی سفیرکو پاگل قرار دے دیا اور ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ کے ایک اسپتال میں حملے میں 500 فلسطینیوں کی شہادت کے اگلے ہی روز امریکی صدر اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کے لیے اسرائیل پہنچ گئے۔ اسرائیل نے امریکی صدر کی آمد سے قبل ہی اسپتال پر حملہ کر کے ان کا امتحان لے لیا کہ اظہار یکجہتی کرنی ہے تو ایسے کرو لہٰذا امریکی صدر نے کہا کہ اسپتال پر حملے میں اسرائیل نہیں بلکہ دوسری پارٹی ملوث ہے۔

اس کے علاوہ جنگ بندی کی قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عرب لیگ کو اسرائیل کے ساتھ تمام تر تعلقات پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور عرب لیگ کا فوری اجلاس بلانے کی ضرورت ہے اور اس میں ایران کو حماس، حزب اللہ اور دیگر متعلقہ تنظیموں کو بلا کر سخت ترین اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ یہ جنگ عالمی جنگ کی صورت کی طرف بڑھ رہی ہے جسے روکنے کے لیے تیل کو بہ طور ہتھیار اور اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کے معاشی اور ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ساتھ اسے محض معاشی جنگ کی صورت گری پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کو روکا جا سکے اور یہ کام کہ انتہائی جرأت مندانہ طریقے سے مسائل کا حقیقی حل تلاش کرے تاکہ اس کا رخ عالمی جنگ کے بجائے معاشی جنگ کی طرف موڑ دیا جائے۔

ادھر گزشتہ روز سے ڈالر نے پھر اڑان بھرنا شروع کردی ہے۔ ابھی ڈالرکو اپنی حد پر لے جایا ہی نہیں گیا تھا کہ وہ پھر فرار ہو گیا اور بروز بدھ روپے کو تگنی کا ناچ نچاتے ہوئے ڈالر کی قدر میں یکدم سے 4 روپے کا اضافہ ہوگیا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے روپے کی ڈالر سرکار کا لحاظ کرنا مہمان کرنسی کی خاطر تواضع کی خاطر روپیہ اپنی قدر میں خاموشی کے ساتھ ایک ڈیڑھ روپے کا اضافہ کر لیتا تھا۔

یہ ڈالر ہی ہے جس کا رویہ ہمیشہ جارحانہ رہا ہے کہ روپے کو کسی خاطر میں نہیں لاتا کبھی 8 سے 10روپے کا بھی اضافہ کر لیتا تھا۔ اب پھر وہ ادارے اور حکام گہری نظر رکھ لیں اور اس کے بڑھنے کے معقول ترین جواز نہ ہوں تو پھر سخت عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ دنوں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا جواز یہی بتایا گیا تھا کہ ایک ڈالر اب 275 روپے کا ہو گیا ہے اور ملکی کرنسی مضبوط ہوگئی ہے لہٰذا اس کے ثمرات سے عوام کو محروم نہیں رکھ سکتے۔

لہٰذا 40 روپے فی لیٹر کی کمی جا رہی ہے۔ مالی حکام ڈالر کی اس جسارت کو روکیں اور اس کے پر کاٹیں تاکہ یہ پھر سے پُھر کر کے اڑ نہ جائے کیونکہ جلد ہی پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمد متوقع ہے۔

حال ہی میں نگراں وزیر اعظم نے چین میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب کیا۔ کئی عالمی لیڈروں سے ملاقاتیں کی ہیں اور پاک چین سرمایہ کاری سمیت تعاون کے 20 معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ پاکستان میں مرچ کی پیداوار، ایم ایل ون اور دیگر شعبوں میں مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے، اس کے ساتھ ہی سی پیک منصوبوں کے 10 سال مکمل ہوگئے ہیں۔

اس موقع پر ان تمام وجوہات کا جائزہ لینا ہوگا کہ بہت سے منصوبے مکمل ہونے کے بعد اور ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس کے مثبت معاشی اثرات کم کیوں محسوس کیے گئے۔

پاکستان کا بار بار مالی بحران میں شدت اختیار کر جانا اور چھوٹے بڑے تمام کاروبارکا شدید متاثر ہونا ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے کا ہونا اور پاکستان کے دیگر معاشی و مالی مسائل کے حل میں سی پیک کے ذریعے کس طرح زیادہ سے زیادہ معاونت حاصل کی جا سکتی ہے لہٰذا 10 سال مکمل ہونے کے بعد دیگر زیر تکمیل منصوبوں کو مقررہ وقت کے مطابق مکمل کرنا ضروری ہے تاکہ اس کے فوائد زیادہ سے زیادہ سمیٹے جا سکیں۔

انھی دنوں عالمی بینک نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کو توانائی سیکٹر کے لیے 15کروڑ ڈالر دے گا۔ دراصل پاکستان کا توانائی کا مسئلہ اسی دن سے شروع ہو گیا تھا جس دن سے ملک میں توانائی کی ضرورت پوری کرنے کی خاطر تیل سے بجلی پیدا کرنے کے یونٹ لگائے گئے اور خطے کے دیگر ممالک کی نسبت دگنے ریٹس پر معاہدے کر لیے گئے۔

اس طرح سے بجلی مہنگی ہونے کا جواز پیدا کر لیا گیا۔ اس وقت ملک میں خاص طور پر شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں بہت سے چھوٹے چھوٹے پن بجلی کے پیداواری یونٹس کی فزیبلٹی رپورٹس بھی تیار ہیں اور تمام تر منصوبہ بندی بھی مکمل ہے۔

اب ان کا مسئلہ صرف مالیات کا ہے۔ رقم کا بندوبست کیا جائے اور بہت کم رقم سے کئی منصوبے مکمل کیے جا سکتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں ہوتی ہیں، جن کی بنا پر یہ انتہائی کم مدتی وقت میں مکمل ہونے والے منصوبوں پر کئی سال گزر جاتے ہیں۔

تمام تر منصوبے ایسے ہیں جن سے پن بجلی انتہائی کم قیمت پر دیہی عوام کو فراہم کی جا سکتی ہے اور انھی منصوبوں کی تکمیل کے انتظار میں دیہی علاقوں کے ہزاروں باشندے دن گن رہے ہیں۔ کم لاگتی یہ منصوبے فوری مکمل کرکے دیہات کے شہریوں کو ان کے خواب کی تعبیر دی جاسکتی ہے کہ ''میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں