دیوار گریہ

سچ کسی بھی جنگ کی پہلی گولی کا اولین شکار ہوتا ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی خبر کے ساتھ امریکی اور یورپی میڈیا میں غزہ کا 17سالہ محاصرے کا زمینی سچ گھائل ہو کر زمیں بوس ہو گیا۔

فلسطین کے حق میں بات کرنا امریکا اور یورپ میں جرم بن گیا۔امریکی اور یورپی حکومتیں اور میڈیا اسرائیل پر حماس حملے کے جواب میں غزہ کی تباہی ، مسلسل بمباری ، اسپتالوں کی بربادی اور پناہ کی تلاش میں ہلکان شہریوں پر وائٹ فاسفورس بموں کی بارش سے مکمل صرف نظر کرتے ہوئے حماس کو دہشت گرد اور اسرائیل کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

17 سال ہونے کو آئے کہ غزہ کا خوفناک محاصرہ جاری ہے۔ فلسطین کے دوسرے مقبوضہ علاقے یعنی مغربی کنارے میں بھی جبر اور استبداد کے خلاف لاوا ابل رہا ہے۔ کئی لوگوں نے سوال اٹھایا کہ اسرائیل کی تباہ کن طاقت کے سامنے حماس نے حملے کرکے خود کو تباہی کے حوالے کردیا ہے۔ جس تن لاگے سو تن جانے کے مصداق غزہ بقول انسانی حقوق کی تنظیموں کے ایک جیتا جاگتا جہنم ہے۔

اس جہنم کے باسیوں کو زندہ رہنے کے لیے کس رنگ اور ڈھنگ سے روز مرنا پڑتا ہے وہی بہتر جانتے ہیں۔غزہ اور مغربی کنارے سے دور تل ابیب اور یروشلم کے فلسطینی باسیوں کے شب و روز بھی اسی استبداد کے سائے تلے گزرتے ہیں۔

یہاں صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو بے دخلی سے انکار پر کس طرح کی زندگی گزارنے کا قہر اور جبر برداشت کرنا پڑتا ہے، اس کا کچھ اندازہ ہمیں ایک نہایت منفرد اور شاندار سفرنامے دیوار گریہ کے آس پاس سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کاشف مصطفیٰ پاکستانی نثراد جنوبی افریقہ کے باسی ہیں۔

انھوں نے انتہائی عمدہ تحقیق اور تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیوار گریہ کے آس پاس لکھ کر فلسطین کے باسیوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا ہے۔

یہ سفر نامہ کئی سال قبل انگریزی میں لکھا گیا جس کا اردو ترجمہ محمد اقبال دیوان نے کیا( پبلشر قوسین ،۔فیصل ٹاؤن لاہور)۔ اس کتاب سے چند اقتباسات جو اس سچ کا نوحہ ہے جو ایک عام مسافر نے دیکھا...سرزمین اسرائیل کو اس کی حکومت نے تین انتظامی یونٹس میں تقسیم کر رکھا ہے۔ زون اے میں فلسطینی علاقے جن میں مغربی کنارہ اور غزہ شامل ہیں۔ اسرائیلی باشندوں کے لیے تمام علاقہ دیوار کھینچ کر مضبوط احاطے میں بدل دیا گیا ہے۔


خروج اور دخول کے مقامات متعین اور سنتریوں کی تحویل میں ہیں۔ اندر سے کوئی باہر نہ جا سکے باہر سے کوئی اندر نہ آ سکے والا معاملہ ہے۔زون بی کے انتظامی علاقے میں فلسطینی کام کاج کے لیے تو آ سکتے ہیں مگر قیام نہیں کر سکتے۔ زون سی میں فلسطینیوں کا داخلہ یکسر ممنوع ہے۔ اس زون میں دارالخلافہ تل ابیب بھی شامل ہے۔ مگر یہاں آج بھی 10 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے، ان کی اکثریت جافا میں رہتی ہے۔

ان جڑواں بستیوں یعنی تل ابیب اور جافا کا انتظام ایک ہی میونسپلٹی کے پاس ہے۔جافا پر مسلمان آٹھویں صدی سے 1917 تک یعنی 1100 سال حکمران رہے. یہاں برطانوی راج قائم ہوا تو یہودی یورپ سے پہنچنے لگے، مقامی مسلمان آبادی اور ان میں قومی فسادات بھڑک اٹھے، انگریز کے جانبدارانہ رویے سے تنگ آ کر 1921 میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں مسلمان بائیں کنارے پر اور یہودی جافا اور تل ابیب میں آباد ہونا شروع ہو گئے۔

1948 کی جنگ میں یہ سارا علاقہ یہودی تسلط میں آگیا لیکن کچھ مسلمان خاندان کسی طور یہاں سے جانے پر رضامند نہ ہوئے۔ ان کی اس علاقے میں موجودگی تاریخ کا ایک دلچسپ باب ہے۔ یہاں تین پرانی مساجد ، کئی دکانیں اور ہوٹل بھی ہیں۔

پتھریلی تنگ پرانی گلیاں آپ کے قدموں تلے آپ کا تعلق نادانستہ طور پر ان قدموں سے جوڑ دیتی ہیں جو انھیں روندتے روندتے خود بھی آسودہ خاک ہو گئے۔...وہ بتانے لگے؛ اسرائیلی عربوں کے لیے مسجد اقصی ایک وجود لازم ہے ، اس سے وابستگی میں ہی ہمارا مکمل تشخص پنہاں ہے۔ یہ ہم مظلومین کی روحانی پناہ گاہ ہے۔

یروشلم کی بیشتر مسلم آبادی اس کے ارد گرد کے محلوں میں اور یہاں سے دو کلومیٹر دور خالصتاً ایک عرب بستی کی تنگ و تاریک گلیوں اور چھوٹے چھوٹے مکانات میں رہتی ہے۔ ہر مکان میں اوسطا 13 /14 افراد رہتے ہیں۔ان فلسطینی عربوں کی اکثریت غربت کے کوہ گراں تلے دبی ہوئی ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند ہیں اور اس قدر نامساعد حالات میں کاروبار کے مواقع بھی بہت محدود ہیں۔

ان کی اکثریت دیہاڑی دار ہے، بیچاری روز کنواں کھودتی ہے، روز پانی پیتی ہے۔ بچوں پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہیں۔ مملکت یہود چاہتی ہے ان کی زندگیاں اس قدر مشکل اور گھٹن زدہ بنا دی جائیں کہ یہ تنگ آکر دوسرے ممالک میں ہجرت کر جائیں۔

اس نے اپنی بات جاری رکھی؛ میرے بھائی! تمہیں شاید اس بات کا خیال بھی نہ ہو کہ ہم بھی مسجد اقصی جتنے پرانے مسلمان ہیں اللہ کے اس مقدس گھر کے محافظ! تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم قرب و جوار کے عرب ممالک میں ہجرت کر کے نہیں جا سکتے تھے 1957 کی جنگ میں جب اسرائیل نے اردن کے علاقے فلسطین پر قبضہ کر لیا تو ہماری ایک بہت بڑی تعداد عرب ممالک میں جا بسی۔ہم نے پھر بھی اس علاقے میں قیام کرنا ہی اپنا فریضہ سمجھا۔

یہ مقدس عبادت گاہ ہم کسی اور کے حوالے نہیں کریں گے۔ کسی دن ان کا تہوار ہوتا ہے تو یہ بہانے سے ہماری بستی میں آ جاتے ہیں اس قدر بیہودگی اور ظلم کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ، ہم اقوام متحدہ کے فوجیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ایسے موقع پر وہ آجایا کریں، ہمارے بچے بھی اب ان مبصرین کی نگرانی میں اسکول جا سکتے ہیں تنہا نہیں۔۔۔۔
Load Next Story