حماس نے اسرائیل پر گزشتہ دنوں حملہ کیا جس کے بعد اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسرائیلی فوج ظلم و بربریت کی ہر روز ایک نئی داستان رقم کررہی ہے۔ اسرائیلی حملوں میں انسانی حقوق کا خیال بھی نہیں کیا جارہا اور اسپتال تک کو نشانہ بناکر سیکڑوں افراد کو شہید کیا گیا۔ اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں میں کمسن بچے بھی شامل ہیں جنہیں یہ تک علم نہیں کہ اسرائیل اور فلسطین ہے کیا اور ان کے درمیان تنازع کیا ہے۔
امریکا، بھارت اور ان جیسے کئی دیگر عالمی دہشتگرد اسرائیلی حملوں کو یہ کہہ کر درست قرار دے رہے ہیں کہ جنگ کی ابتدا فلسطینی حریت پسند تنظیم حماس نے کی۔ ایک لمحے کو اس معاملے کے پس منظر کا جائزہ لیجئے، ایک طرف اسرائیل ہے جو کہ ایک ملک نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی قبضہ گروپ کا آلہ کار ہے۔ اسرائیل نامی قبضہ گروپ نے مسلمانوں کی ریاست کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ حماس اور اہل فلسطین اگر حملہ کرتے بھی ہیں تو اپنی زمین وا گزار کرانے کےلیے۔ اس کے باوجود مسلم دنیا کے ایک رہنما فضل الرحمٰن جن کا تعلق پاکستان سے ہے، وہ فلسطینوں اور حماس کے مجاہدین سے کہتے ہیں کہ انسانی حققوق کا خیال رکھا جائے۔ یہی تو اسلام کی تعلیم ہے کہ جنگ میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ان افراد کو نشانہ نہ بنایا جائے جو جنگ کا حصہ نہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ مسلم دنیا نے فلسطین کے جذبہ حریت کی حمایت تو کی لیکن کسی نے جنگ میں ان کی معاونت نہیں کی۔ کسی نے اسلحہ فراہم نہیں کیا، کسی نے افرادی قوت فراہم نہیں کی۔
دوسری جانب اسرائیل کی حمایت کرنے والی طاقتیں ظلم و بربریت کی داستان رقم کرنے میں کھل کر اس کی معاونت کررہی ہیں۔ امریکا نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی وزیراعظم سے کئی بار رابطہ کیا اور اسلحے سے بھرا جہاز بھی اسرائیل بھجوایا۔ امریکی صدر نے امریکی بحریہ کا سب سے جدید طیارہ بھی اسرائیل بھجوانے کا حکم دیا۔ جہاں مسلم حکمران فلسطین کا نام لینے سے قبل بھی دس بار سوچ رہے ہیں، وہیں امریکی سیکریٹری خارجہ اسرائیل کا دورہ بھی کر آئے ہیں۔ اقوام متحدہ نامی ایک بے مقصد تنظیم کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر بھی امریکا اسرائیل کی اقوام متحدہ میں ہر طرح کی حمایت کھل کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا نے اقوام متحدہ میں 80 سے زائد بار ویٹو کا حق استعمال کیا ہے، جن میں سے چالیس سے زائد بار یہ حق اسرائیل کے تحفظ اور ناجائز دفاع میں استعمال کیا ہے۔
اسرائیل ہے کیا؟ کیا یہ کوئی سپر پاور ہے؟ اسرائیل کی کل آبادی صرف 80 لاکھ ہے جبکہ مسلمان ایک عشاریہ آٹھ بلین ہیں۔ مسلم اقوام نے اپنے تحفظ کےلیے کئی ممالک کی مشترکہ افواج بھی جوڑ رکھی ہیں۔ مسلم ممالک ایٹمی قوت بھی ہیں۔ مسلم ممالک کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں اور نہ ان کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ ہاں اگر کمی ہے تو ایمان کی اور جنگ بدر کے 313 مجاہدین والے جذبے کی۔ یہی وہ چند اسباب ہیں جن کے باعث دنیا بھر کے مسلمان باتوں یا بددعاؤں سے فلسطین کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اول تو یہ سمجھنا کہ مسلمان کچھ نہیں کرسکتے، وہ دنیا میں مظلوم ہیں، تو اس سے بڑا ڈھونگ کوئی نہ ہوگا۔ وسائل و اسباب کے باجود مسلم حکمرانوں کی یہ خاموشی و گمشدگی صرف قرضوں میں ڈوبنے کی وجہ سے یا اپنی تجارت بچانے کی وجہ سے ہے۔ اسرائیل اور اس کے حمایتیوں نے یا تو مسلم ممالک کو قرضہ دے کر سر نِگوں کر رکھا ہے یا پھر ان سے تجارتی معاہدے کرکے انہیں مظلوم مسلمانوں سے منہ موڑنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
اسرائیلیوں حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، کیا وہ حماس کا حصہ تھے؟ اگر نہیں تو پھر عالمی طاقتوں کی بے حسی کیا ظاہر کرتی ہے؟ مسلم حکمران فلسطین کی عملی مدد تو کیا کرتے وہ تو ان حملوں کو رکوانے کےلیے بھی کوئِی بھاگ دوڑ کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ بیانات اور لفظی جدوجہد سے تو اسرائیل حملوں سے باز آنے سے رہا۔ اسرائیل کتنا طاقتور ہے، اسرائیل کا دفاعی سسٹم کس قدر منظم ہے، ان ساری باتوں سے تو حماس کے حملوں نے پردہ اٹھا دیا۔ مسلم حکمران اگر آج اس نیت سے خاموش ہیں یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل ان کو کوئی نقصان نہ پہنچادیں تو یاد رکھیے گریٹر اسرائیل کا خواب انہیں کسی ناپاک عزم سے باز نہیں رکھے گا۔ آج قبلہ اول پر قبضہ ہے۔ اگر مسلم حکمران اسی طرح مسنگ پرسن کی طرح گمشدہ رہے تو خدا نہ کرے کل یہ پیش قدمی قبلہ دوم کی جانب بھی ہوسکتی ہے۔ افغانستان، عراق، شام، لبنان، فلسطین اور دیگر مسلم ریاستوں میں خون کی ہولی کھیلنے والے کیوں کر وسائل سے مالا مال مسلم دنیا کے دیگر ممالک پر حملے سے باز رہیں گے؟
یہ بے حسی پوری مسلم امہ کےلیے انتہائی خطرناک ہے۔ یہ وقت ایک ہونے اور مشترکہ کوششوں کا ہے۔ اہل فلسطین پر ہونے والے مظالم کا حساب تو ہمیں آخرت میں دینا ہی ہوگا لیکن خاموش رہنے کا خمیازہ شاید ہمیں دنیا میں ہی بھگتنا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔