مسجد اقصیٰ کی عظمت وفضیلت
ان دنوں بھی فلسطین میں جو ہو رہا ہے امریکا کی سرپرستی میں ہی ہو رہا ہے
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔ یہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کے لئے تیسرا سب سے مقدس ترین مقام ہے ، یہ مسجد فلسطین کے شہر یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں کثیر تعداد میں نمازیوں کی گنجائش ہے اور مسجد کے خارجی صحن میں بھی ہزاروں فرزندان توحید نماز ادا کر سکتے ہیں ، مسجد اقصیٰ کو باقی مساجد پر فوقیت بھی حاصل ہے اور تاریخی اہمیت بھی حاصل ہے۔
لہٰذا مساجد میں سب سے افضل مسجد حرام پھر مسجد نبوی اور تیسرا مقام مسجد اقصی کا ہے،اسلام کا قبلہ اول ہونے سے لے کر اس منزل تک جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحابہ وسلم نے رات کے سفر (معراج) کے دوران تمام انبیاء کی نماز باجماعت پڑھائی ، مسجد اقصیٰ اسلام کی سب سے خاص تاریخی یادگاروں میں سے ایک ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ؓ کو اپنی زندگی میں تین اہم مساجد کی زیارت کرنے کا حکم دیا ، مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام، مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ یروشلم میں اس لیے کہ ان تینوں مساجد میں سے کسی ایک میں بھی نماز پڑھنے کا ثواب کسی اور جگہ کی نماز سے پانچ سو گنا زیادہ ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، وہ ذات پاک ہے جو لے گئی ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں ، تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے ۔
(سورہء بنی اسرائیل) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 16 یا 17 مہینے تک القدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ دیکھو اپنا منہ کعبہ کی طرف پھیر لو (مکہ میں) (بخاری)احادیث نبوی میں بھی مسجد اقصیٰ کا ذکر اور فضیلت تواتر سے ملتی ہے ۔
ام المومنین حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس نے حج یا عمرہ کی نیت سے مسجد اقصیٰ سے مسجد حرام تک کا احرام باندھا تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے یا آپﷺ نے یہ فرمایا کہ اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔
(سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1737) ہارون بن سعید ، ابن وہب ، عبدالحمید بن جعفر ، عمران بن ابی انس ، سلیمان ، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سفر کیا جائے تین مسجدوں کی طرف کعبہ کی مسجد اور میری مسجد، مسجد نبوی اور مسجد اقصی ٰ(صحیح مسلم:جلد دوم: حدیث نمبر 893) حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! دنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟
آپ ? نے فرمایا (مکہ کی) مسجد حرام، میں نے عرض کیا، پھر کون سی؟ آپ ﷺ نے فرمایا (بیت المقدس کی) مسجداقصیٰ (صحیح بخاری: جلد دوم: حدیث نمبر 601) حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک ہی مجلس میں آپس میں اس بات پر گفتگو کی کہ بیت المقدس کی مسجد (اقصیٰ) زیادہ افضل ہے یارسول اللہﷺ کی مسجد (نبوی)؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: میر ی اس مسجد (نبوی) میں ایک نماز (اجروثواب کے اعتبار سے) اس (بیت المقدس،مسجداقصیٰ) میں چار نمازوں سے زیادہ افضل ہے اور وہ (مسجداقصیٰ) نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے۔
عنقریب ایسا وقت بھی آنیوالا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدر زمین کا ایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کی زیارت کر سکے (اس کے لئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا) پوری دنیا یا فرمایا دنیا و مافیھا سے زیادہ افضل ہو گا (مستدرک حاکم : 8553، طبرانی اوسط :6983،8930، شعب الایمان :3849،صحیح الترغیب:1179) نیز مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے ۔
(بخاری:1190، مسلم:1394) یاد رہے کہ مسجد الحرام میں ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ۔ (ابن ماجہ : 1406) مستدرک حاکم کی حدیث سے بھی یہ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے دلوں میں مسجد اقصیٰ کی محبت بھری ہوئی ہے اسے کوئی نہیں نکال سکتا ، لیکن اس کی زیارت کے سلسلے میں مزید مصائب وآلام کا شکار ہونا ممکن ہے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جب سلیمان بن داؤد بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں (۱) یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (درست) ہوں (۲) یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے (۳) یااللہ ! جو آدمی اس مسجد (بیت المقدس) میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا ۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا '' اللہ تعالیٰ نے سلیمانؑ کی پہلی دودعائیں تو قبول فرما لی ہیں (کہ ان کا ذکر توقرآن مجید میں موجود ہے) مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کرلی گئی ہو گی (سنن ابن ماجہ:1408،سنن نسائی:693) ۔
آج اگر دیکھا جائے یہود و ہنود مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں، مصائب، مظالم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں، مظلوم مسلمانوں کی پکار سننے والا کوئی نہیں، قبلہ اول بیت المقدس کی بے توقیری اور بے حرمتی کی جا رہی ہے، نہتے فلسطینیوں کو ہر سہولت سے محروم کر کے ان کی زندگی اجیرن بنائی جا رہی ہے۔
آج اسرائیلی بربریت جاری ہے اور امریکہ اس بربریت میں اسرائیل کا ناصرف حمایتی ہے بلکہ وہ مسلمانوں کی اس نسل کشی کا سب سے بڑا مجرم بھی ہے ۔ ان دنوں بھی فلسطین میں جو ہو رہا ہے امریکہ کی سرپرستی میں ہی ہو رہا ہے ۔ امریکہ ناصرف اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے بلکہ ہر طرح سے مدد بھی کر رہا ہے، اسلحہ و دیگر سازو سامان اسرائیل بھیجا جا رہا ہے جو کسی المیہ سے کم نہیں۔ ادھر مسلم ممالک کے حکمران صرف اور صرف بیانات کی حد تک محدود ہیں۔
عملی طور پر فلسطینیوں کی حمایت یا ان کی مدد کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا اور وقت کے فرعون اسرائیل نے فلسطینی شہر غزہ کو کھنڈر بنا چکا ہے، انسانی حقوق کے علمبردار ہو نے کا دعویٰ کر نے والا نام نہاد یہ وہی امریکا ہے جسے نہ تو مظلوم فلسطینیوں کا دہائیوں سے بہتا خون نظر آتا ہے نہ اسے کشمیر میں دہائیوں سے بہتا ہوا خون نظر آتا ہے۔ نہ تو کبھی امریکہ کو خیال آیا کہ فلسطین و کشمیر میں بھی انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔
عالمی طاقت کے نشے میں دھت امریکہ نے انصاف کا ساتھ دینے کے بجائے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی قوتوں اسرائیل اور بھارت کی پشت پناہی کی ہے ، امریکہ کی یہ پالیسیاں ثابت کرتی ہیں کہ وہ اس معاملے میں انسانوں کو دیکھ کر نہیں بلکہ ان کے مذاہب کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے ، فلسطین کی موجودہ صورتحال بھی دنیا کے تمام اہم ممالک اور عالمی اداروں پر سوالیہ نشان ہے ۔ ایک تو اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ اسرائیل کو جنگی سامان اور افرادی قوت بھی فراہم کر رہا ہے ۔
یعنی امریکہ دنیا میں ظلم کی حمایت کر رہا ہے ۔ اس جنگ میں جہاں امریکہ اسرائیل کی مدد کر رہا ہے غزہ میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ گھروں کو نقصانات پہنچنے اور خوف کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں اور اس وقت تک کی آمدہ اطلاعات اور خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق آٹھ سو سے زائد معصوم بچے اور تین ہزار سے زائد مرد و خواتین شہید ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ کی طرف سے یہ تصدیق ہوئی ہے کہ غزہ میں تقریباً تہتر ہزار سے زائد افراد نے مختلف سکولوں میں پناہ لی ہوئی ہے، ان سکولوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملے سے قبل یہاں لاکھوں افراد رہائش پذیر تھے ، اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ میں کھانے پینے کی اشیا اور ایندھن کی سپلائی رو ک رکھی ہے بلکہ ان کو وہ تمام ضروری سہولیات جو میسر ہو تی ہیں وہ منقطع کر دی گئی ہیں ، پانی ، خوراک ، ایندھن ، انٹرنیٹ ، بجلی کی سہولت سے فلسطینی عوام کو محروم کر دیا گیا ہے۔
امن کے نام نہاد علمبرداروں کا یہ وہ چہرہ ہے جسے دنیا متعدد بار دیکھ تو چکی ہے لیکن بوجوہ اس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔ اگر کوئی بولتا ہے تو موت کے سوداگر اکٹھے ہو کر اس کے خلاف ہو جاتے ہیں ، تب بھی ان مجاہدین جوان ، مرد ، خواتین اور بچوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ ان کے عزائم و حوصلے مزید بلند ہیں ، میں بطور مسلمان اپنے فلسطینی بھائیوں ، ماؤں ، بہنوں کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ کو آزادی نصیب فرمائے ۔آمین