ادب لفظ تصویرمعنی کو بدل دیتا ہے
استاد شعراء کی یک لفظی اصلاحوں کی دل چسپ داستان
(حصہ اول)
اردو ادب کی موثر ترین اور ہردل عزیز صنف 'شاعری' کے موجودہ خدوخال کو تشکیل دینے اور اس کی ہیئتی نوک پلک کو درست کرنے میں جہاں تشبیہات و استعارات، بحور و اوزان اور فکروخیال کی پختگی ورعنائی اہم ترین ہیں، وہیں اس صنف کے اہم ترین جزو یعنی ''اصلاح سخن'' کو بھی قطعاً نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
شاعری کے مطالب و مفاہیم کو زودفہم بنانے، شعر کی تخیلاتی بُنت کو سنوارنے، بحر کے صوتی آہنگ کو نکھارنے اور مصرعوں کے لفظی دروبست میں ردوبدل کے ذریعے اس کو قبول عام بنانے میں اصلاح ِ سخن کی حیثیت مرکزی ہے۔
بنا بر ایں سبب! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سخن وری سے کہیں زیادہ مشقت انگیز اور ریاضت طلب کام ''اصلاح سخن'' ہے۔ یہی وجہ ہے ایک طویل عرصے تک متقدمین استاد شعراء کو ادبی کسوٹی پر پرکھنے اور ان کی شاعرانہ عظمت کو متعین کرنے میں بغرض اصلاح ان کے شاگردوں کی کثیر تعداد کو بھی بطور پیمانہ شمار کیا جاتا تھا۔
اصلاح سازی کی ان محافل میں شاگردوں کی اصلاحی تربیت کے ساتھ ساتھ بسا اوقات یوں بھی ہوتا کہ اساتذہ اپنے کہے گئے اشعار شاگردان کے سامنے پیش کرتے اور کوئی ہونہار شاگرد مودبانہ اس میں ایسی ترمیم یا اضافے کی تجویز پیش کرتا جس سے شعر کی لفظی و فکری اور معنوی خوب صورتی فزوں تر ہوجاتی تو شاگرد کی اس مجوزہ اصلاح کو نہ صرف کھلے دل سے قبول کیا جاتا بلکہ اسکی خاطرخواہ حوصلہ افزائی بھی کی جاتی۔
اصلاح سخن کے عمل میں فنی دسترس اور ماہرانہ عبور رکھنے والے اساتذہ کی مہارت کو اس طور بھی جانچا جاتا کہ کامل استاد وہی ہے جو دوران اصلاح پورے شعر یا سالم مصرعے کو حذف کرنے کی بجائے فقط چند الفاظ یا ایک لفظ کے ردوبدل کے ذریعے شعر کے لطف کو دو آتشہ کر دے۔
شاعری کے معروف و محترم اساتذہ کی جانب سے اپنے شاگردوں کے کلام پر بنام اصلاح کی جانے والی ''یک لفظی تبدیلی'' ہمارے آج کے اس خاص مضمون کا عنوان ہے، تاکہ قارئینِ ادب نہ صرف اصلاح سخن کے اس پہلو کے کمالات ملاحظہ فرما سکیں، بلکہ اردو کے شعری ادب کے اس مخصوص موضوع سے متعلق واقعات کو یکجا کرکے مستقبل میں اس موضوع پر جامع اور مکمل تحقیق و تدوین کا آغاز ممکن ہو سکے۔
خدائے سخن میرانیسؔ کے یوں تو بہت سے شاگرد تھے مگر میر صاحب کی مرثیہ گوئی کی مصروفیات کے باعث ان کے ہاں باقاعدہ شاگردوں کی منڈلی اور اصلاح سخن کی محافل خال خال ہی سجتی تھیں۔
تاہم بیشتر شاگرد خط و کتابت کے ذریعے میر صاحب سے رابطے میں رہتے اور میر صاحب بھی اپنے ہاں آنے والے خطوط کا پابندی سے جواب دیتے تھے۔ ان کے ایک شاگرد آغا وزیر حسین عطاؔ نے ایک خط میں میر صاحب کے حضور اپنا ایک شعر برائے اصلاح روانہ کیا:
؎افسوس ہے کہ موت بھی اس وقت آئی جب
آہِ رساء پہنچ گئی دیوار کے قریب
میرؔ صاحب نے کمالِ ہنر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مصرع اولی میں معمولی سا تصرف کر کے شعر کی معنوی سلاست اور روانی میں خوب صورت اضافہ کردیا:
؎افسوس ہے کہ موت''اسی'' وقت آئی جب
آہ رساء پہنچ گئی دیوار کے قریب
راسخ ؔعظیم آبادی میر تقی میرؔ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شاگردی کی درخواست پیش کی۔ میر ؔصاحب نے فرمایا،''میاں! تم تو خود استاد ہو، اس پر شاگردی کی خواہش؟چہ معنی؟'' راسخ ؔنے اصرار کیا تو میرؔ صاحب نے کچھ سنانے کو کہا، جس پر راسخ ؔنے اپنا ایک مطلع پیش کیا:
؎تاخوابِِ مرگ ذکر تھا ان کی زبان پر
نیند آگئی ہمیں بھی اسی داستان پر
مطلع سن کے میر ؔصاحب خاموش رہے اور چند لمحوں بعد شعر کو دوبارہ اصلاحی انداز میں اس طرح دہرایا:
؎تا خواب ِ مرگ ذکر تھا ان کی زبان پر
نیند آگئی ہمیں ''تو'' اسی داستان پر
مصرع ثانی میں لفظ ''بھی'' کو ''تو'' سے بدل دیا۔ راسخ ؔساری زندگی اس ایک لفظ کی اصلاح پر اور اپنی شاگردی پر ناز کرتے رہے۔
اپنے زمانۂ شاگردی میں حالی ؔنے غالب ؔ کے حضور ایک شعر پیش کیا:۔
؎عمر شاید کرے نہ آج وفا
سامنا ہے شبِ تنہائی کا
اس پر غالب ؔنے یک لفظی اصلاح کی استادانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مصرع ثانی کو یوں کردو:
؎عمر شاید کرے نہ آج وفا
''کاٹنا'' ہے شبِ تنہائی کا
دبستان ناسخ ؔمیں تحریر ہے کہ ایک روز امام بخش ناسخ ؔکے شاگرد فتح الدولہ برق ؔ نے اپنا یہ شعر ناسخ ؔکی خدمت میں پیش کیا:
؎اس گل نے ایک رات جو پہنا تو بس گیا
بوئے گلاب آتی ہے موتی کے ہار سے
ناسخ ؔنے شعر سنا ،اور ایک لحظے کے توقف سے گویا ہوئے کہ مصرع ثانی کو یوں کر لو:
؎ اس گل نے ایک رات جو پہنا تو بس گیا
بو ''موتیے'' کی آتی ہے موتی کے ہار سے
شاہ عبدالسلام اپنی کتاب ''دبستان آتشؔ'' میں خواجہ حیدر علی آتش ؔکے شاگردوں کا تذکرہ قلم بند کرتے ہوتے ہوئے لکھتے ہیں،''ایک روزآتش ؔکے چہیتے شاگرد میر وزیرعلی صبا ؔنے اپنا درج ذیل شعر آتش ؔکے سامنے پڑھا:
؎بیٹھا ہے ہڈیوں پہ میری شیر کی طرح
دیکھے کوئی ذرا سگِ دلدار کا مزاج
خواجہ صاحب نے شعر سنا اور لمحہ بھر توقف کے بعد بولے ''کہ اگر ''بیٹھا'' کی جگہ ''بپھرا'' کردو تو سگ دل دار کی خوںخواری مزید نمایاں ہوجائے گی۔ '' اب شعر کی صورت کچھ اس طرح ہوگئی:
؎''بپھرا'' ہے ہڈیوں پر میری شیر کی طرح
دیکھے کوئی ذرا سگِ دلدار کا مزاج
سعدبدایونی اپنی کتاب ''داغ کے ہم تلامذہ'' میں لکھتے ہیں کہ ''ماہرؔالقادری نے اپنا یہ شعر استاد داغؔ کے گوش گزار کیا:
؎دیکھنے کے لیے آیا ہے زمانہ اس کو
اک تماشا ہے مسافر بھی سفر سے پہلے
داغؔ نے مصرع اولٰی میں معمولی سے تصرف سے شعر کی اساس کو مزید مضبوط کرتے ہوئے لفظ ''آیا'' کو''آتا'' سے بدل دیا:
؎دیکھنے کے لیے''آتا '' ہے زمانہ اس کو
اک تماشا ہے مسافر بھی سفر سے پہلے
مرزا صادق حسین خنداں ؔلکھنوی کا شمار لکھنؤ کے معروف شعراء میں ہوتا تھا۔ اصلاح کلام کے لیے عزیز ؔلکھنوی کی شاگردی کا اعزاز حاصل تھا۔ ایک بار ان کی خدمت میں مطلع بھیجا:
؎ اسیری میں اگر میرا تصور مہرباں ہوتا
چمن کے تنکے تنکے پر خیال آشیاں ہوتا
عزیز ؔنے اس پر لفظ ''میرا'' کاٹ کر ''ذوق'' بڑھا دیا اور یوں اس ایک لفظ کی اصلاح نے شعر کا پورا ٹھاٹھ ہی بدل دیا۔
؎ اسیری میں اگر ''ذوق ِتصور'' مہرباں ہوتا
چمن کے تنکے تنکے پر خیال آشیاں ہوتا
تسلیم ؔلکھنوی، نسیم ؔدہلوی کے شاگرد تھے۔ ایک دفعہ شعر و سخن کی ایک محفل میں استاد نسیم ؔدہلوی نے مطلع پڑھا:
؎رحم آجاتا ہے دشمن کی پریشانی پر
زخم رو دیتے ہیں شمشیر کی عریانی پر
محفل میں موجود احباب اور شاگردوں نے دادوتحسین سے نوازا، تسلیمؔ بھی دادخواہوں میں شامل تھے مگر ان پر وہ کیفیت طاری نہ تھی جو دیگر حاضرین پر تھی۔ نسیم ؔبھانپ گئے اور بولے،''تیری نظر میں پہچانتا ہوں، جو دل میں ہے وہ کہو۔'' تسلیم ؔنے انتہائی احترام سے کہا،''حضور! خادم اگر کہتا تو یوں کہتا'':
؎رحم آ جاتا ہے دشمن کی پریشانی پر
زخم ''خوں'' روتے ہیں شمشیر کی عریانی پر
خون رونے کی ترکیب نے نسیم ؔکو پھڑکا دیا اور تسلیم ؔکو ڈھیروں دعائیں دیں۔
داغ ؔدہلوی کے معروف شاگرد اور اپنے وقت کے استاد پنڈت لبھو رام جوش ؔملیسانی، اپنے شاگردوں کے کلام پر دی جانے والی اصلاحوں پر مبنی کتاب ''آئینہ اصلاح'' میں بیان کرتے ہیں کہ ان کے شاگرد شری لکشمی چند نسیم ؔجالندھری نے اپنا درج ذیل شعر برائے اصلاح بذریعہ خط ارسال کیا:
؎کوئی مر بھی جائے تو ان کی بلا جانے نسیمؔ
کیا پڑی تھی ان کو وہ کیوں آکے مجھ کو دیکھتے
جوش صاحب نے شعر کو روزمرہ کے محاوراتی آہنگ سے ہم کنار کرنے اور اس کی زبان و سلاست کو مزید بہتر بناتے ہوئے دوسرے مصرعہ میں صرف ایک لفظ کی تبدیلی کی:
؎کوئی مر بھی جائے تو ان کی بلا ''سے'' اے نسیمؔ
کیا پڑی تھی ان کو وہ کیوں آکے مجھ کو دیکھتے
علامہ ڈاکٹر ضمیر اختر نقوی کی کتاب ''دبستان ناسخؔ'' میں تحریر ہے کہ ان کے چہیتے شاگرد خواجہ وزیر ؔلکھنوی نے شعروسخن کی ایک محفل میں اپنا درج ذیل مطلع استاد ناسخ ؔکے گوش گزار کیا:
؎ چلا ہے اے دلِ راحت طلب کیوں شادماں ہوکر
زمینِ کوئے جاناں رنج دے گی آسماں ہوکر
استاد ناسخ ؔنے حسبِ عادت مطلع کے مصرع اولٰی میں فقط ایک لفظ ''کیوں'' کو ''کیا'' سے بدل کر مطلع کو ہر لحاظ سے کامل کردیا:
؎ چلا ہے اے دلِ راحت طلب ''کیا'' شادماں ہو کر
زمینِ کوئے جاناں رنج دے گی آسماں ہوکر
ڈاکٹر شہناز چاندنی اپنی کتاب ''پنجاب اور دبستان داغؔ'' میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے استاد داغ دہلوی کے شاگردوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ''داغ ؔکے شاگرد میر حسن امیر ؔنے بذریعہ خط اپنا ایک شعر حضرت ِداغ ؔکو بغرض اصلاح ارسال کیا'':
؎بن ٹھن کے ''جو'' نکلے ابھی رہگزر سے
اللہ بچائے انہیں دشمن کی نظر سے
استاد داغ ؔنے اپنے فنی کمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے مصرع اول میں لفظ جو کو وہ سے بدلتے ہوئے اس میں معمولی ترمیم سے اشاراتی طور شعر کو اور زیادہ با کمال بنادیا:
؎بن ٹھن کے ''وہ'' نکلے ابھی رہگزر سے
اللہ بچائے انہیں دشمن کی نظر سے