پاکستان میں توانائی کا تحفظ کیسے

وسائل کی دستیابی کے باوجود ہمارا ملک ہمیشہ بحران کا شکار رہا ہے


وسائل کی دستیابی کے باوجود ہمارا ملک ہمیشہ بحران کا شکار رہا ہے ۔ فوٹو : فائل

پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے آج اِس کی آبادی 23 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ واضح رہے کہ1951 ء میں ملک کی پہلی مردم شماری کے مطابق آج کے پا کستان کی کل آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی۔

پاکستان کا رقبہ 796095 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی کی گنجانیت 287 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ ملک میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جس کی آبادی2017 کی مردم شماری کے مطابق 11 کروڑ 10 لاکھ تھی جو آج 12 کروڑ بیان کی جاتی ہے۔

پنجاب کا رقبہ 205344 مربع کلومیٹر ہے، یہاں آبادی کی گنجانیت 536 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے مقابلے میں پا کستان کا رقبے کی بنیاد پر بڑا صوبہ بلوچستان ہے جس کا رقبہ 347190 مربع کلومیٹر ہے۔ آبادی تقریباً ایک کروڑ 25 لاکھ ہے، یہاں آبادی کی گنجانیت 35 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔

پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کی رفتار کافی تیز ہے اس کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ جب ہماری آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی تو اُس وقت برطانیہ ( جس نے برصغیرپر سو برس سے زیادہ حکومت کی تھی) کی آبادی 5 کروڑ 40 لاکھ کے قریب تھی آج برطانیہ کی آبادی 6 کروڑ ہے اور ہماری آبادی اس سے تقریباً چار گنا زیادہ ہو چکی ہے۔

ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں توانائی اور صنعتی پیداوار اور صنعتی ترقی کی رفتارکے درمیان ایک خوبصورت توازن اور استحکام تھا، البتہ گھریلو صارفین کی اکثریت بجلی اور قدرتی گیس کی سہولت سے محروم تھی۔

اس کی کچھ بنیادی وجوہات تھیں وہ یہ کہ اُس وقت تک عالمی سطح پر بھی معیار زندگی کی بنیاد پر ترقی یا فتہ اور ترقی پزیر ملکوں کے درمیان صرف 40 فیصد اور 60 فیصد کا فرق تھا، پھر 1930-32 ء کی عظیم عالمی کساد بازاری نے بھی ترقی یا فتہ اور ترقی پزیر ملکوں میں صنعتی پیداور میں کمی، تجارت اور کاروبار میں مندی، بے روز گاری اور مہنگائی میں اٖضافہ ہوا تھا اور اس کے سات سال بعد دنیا میں دوسری جنگِ عظیم نے تباہی مچا دی تھی۔

فرانس ، برطانیہ ، اٹلی ، جرمنی ، سوویت یونین، سمیت پورے یورپ کے شہر کھنڈرات میں تبد یل ہو گئے تھے، اسی طرح جاپان نے تو اپنے سینے پر دو ایٹم بم سہے تھے ہاں یہ ضرور تھا کہ سات سمندر پار امریکہ پر صرف پرل ہاربر پر جاپانی حملہ ہوا تھا، امریکہ اس کے بعد جنگ کے آخری دنوں میں جنگ کے اتحادیوں میں شامل ہوا تھا۔

اس دوران انسانی علم و تحقیق کا زیادہ زور اسلحہ اور جنگ کی ضرورتوں کو جدید سے جدید بنانے پر تھا، یوں ایٹم بم بھی دنیا میں کچھ جلد ایجاد کر لیا گیا،اس لیے پوری دنیا میں معیار ِزندگی میں بلندی یا اضافے کا رجحان سست رہا۔اکتوبر 1945 ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے بعد ایک جانب دنیا سے پرانے سیاسی اقتصادی نظام کا بتدریج خاتمہ شروع ہوا تو دوسری جانب یورپ میں تیز رفتاری سے تعمیر ِنو کا عمل شروع ہوا۔

جاپان میں امریکی جنرل میکارتھر کی تجویز پر امریکی صدر ٹرو مین نے مارشل پلان کے تحت یہاں بھی تعمیر ِنو کا عمل شروع کیا تھا۔

ہم جب 14 اگست 1947 ء کو آزاد ہوئے تو ہندوستان کی تقسیم اور مہاجرین کی آمد کے وقت فسادات میں لاکھوں افراد جان بحق ہوئے تھے مگر ہمارا انفراسٹرکچر یعنی ہر شعبے کا انتظامی ڈھانچہ جو انگریز نے بنایا تھا وہ مستحکم تھا۔

اُس وقت پاکستان کے شہری علاقوں میں بھی تمام لوگوں کو بجلی میسر نہیں تھی یہاں تک کہ سرکاری کالونیوں میں جن میں بڑی تعداد ریلوے اور پوسٹل کالونیوں کی تھی مزدوروں اور بعض شہروں میں کلرکوں کے کواٹروں میں بھی بجلی نہیں تھی اور نہ ہی ہمارے ہاں قدرتی گیس کا گھریلو استعمال تھا۔ توانائی کے گھریلو استعمال کی یہ صورتحال 1970 ء تک رہی۔

آزادی کے وقت پاکستان میں کل چار صنعتی یو نٹ تھے اور کراچی شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی پاکستان میں آزادی کے بعد صنعتی ترقی،توانانی کے شعبے میں اس ترقی سے اسی لیے ہم آہنگ اور متوازن تھی کہ دیہی علاقوں میں بجلی نہ تو گھریلو استعمال میں تھی اور نہ ہی زرعی مقاصد کے لیے بجلی کا استعمال عام تھا۔

پنجاب اور سندھ جہاں دنیا کا بڑا نہری نظام موجود ہے وہاں اُس وقت تک بھارت سے ہمارا سندھ طاس معاہدہ نہیں ہوا تھا اور 1960-61 میں سندھ طاس معاہد ے کے بعد بھی 1974 ء تک دریا ئے راوی، ستلج اور بیاس کا پانی نہیں رو کا گیا تھا اس لیے زیر زمین پانی کی سطح پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں بہت بلند تھی جس کی وجہ سے سیم اور تھور کے زرعی مسائل بھی تھے۔



پاکستان کے بیشتر علاقوں میں پینے کے پا نی کے لیے بھی سادہ کنووں کا استعمال تھا ، زندگی سادہ تھی ، شہری علاقوںمیں گھروں کی چھتوں پر پانی ٹینکیوں کا رواج بہت کم تھا اس لیے نہانے وضو کر نے کے لیے فی کس پانی کا استعمال آج کے مقابلے میں ساٹھ فیصد کم تھا اور پینے کے پانی اور زرعی مقاصد کے لیے بھی بجلی کا استعمال واجبی سا تھا۔

پھر موسمو ں میں بھی شدت نہیں تھی گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کے مسائل بھی نہیں تھے، انگریزوں نے ریلوے اور ڈاک کے علاوہ جو محکمے بنا ئے تھے اِن کے ملازمین کے لیے اکثر وہیں کالونیاں بھی بنائی گئی تھیں ، یوں اِن کو کام کی جگہ اور گھر کے درمیان فاصلہ چند منٹ کا ہو نے کی وجہ سے کہیں بسوں، رکشوں یا موٹر سائیکلوں کاا ستعمال نہیں تھا ۔ ملک کی آبادی کم اور شہروں میں فاصلے مختصر تھے اور لوگوں کی اکثریت گاڑیوں کی بجا ئے سائیکلوں کا استعمال کرتی تھی۔

آبادی میں تیزی سے اضافے کے ساتھ توانائی کی مانگ بھی بڑھنے لگی اور توانائی کی پیداوار میں اضافہ بھی نہیں ہوا ۔ یوں توانائی میں کمی سے ایسا بحران پیدا ہو ا جس کے منفی اثرات ملک کے تمام زرعی اور صنعتی پیداواری شعبوں پر مرتب ہونے لگے اور مسائل کی ایک ایسی زنجیر بن گئی ہے جس کی کڑیاں غربت ، بے روزگاری، ناخواندگی اور پھر سب سے بڑھ کر قومی اقتصادی بدحالی کی صورت میں سامنے آرہی ہیںاور اب اِن مسائل کی شدت میں تیزی سے مستقل اضافہ بھی ہو تا جا رہا ہے ۔

اس کا افسوس اور پچھتاوا تو ضرور ہے کہ ہم نے گذشتہ پچاس برسوں میں توانائی میں اضافے کے لیے بروقت کو ئی اچھی حکمت علمی اختیار نہیں کی، مگر خوشی اس بات کی ہے کہ اب ہمیں احساس ہے کہ ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پا نے کے لیے متواتر اور بہتر انداز کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ دنیا میںاب توانائی کے شعبوں میںایجادات اور دریافتوں کی بنیاد پر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کی ہے۔

اب معدنی تیل، گیس اور کوئلے کے علاوہ ہائیڈرو پاور یعنی پن بجلی کے علاوہ تقریباً 75 برسوں سے ایٹمی پاور پلانٹوں سے بھی بجلی پیدا کی جا رہی ہے پھر گذشتہ 50 برسوں سے اور خصوصاً جب سے گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج یعنی پوری دنیا میں سالانہ حدت میں اضافہ موسموں میں غیرفطری انداز کی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اس کے لیے ماہرین اور سائنس دانوں نے اِن مسائل کا بنیادی سبب معدنی کوئلے، تیل گیس اور ایٹمی ایندھن کو ثابت کیا ہے۔

خصوصاً معدنی کو ئلے کے استعمال پر تو اب دنیا بھر میں پابندیاں عا ئدکی جا رہی ہیں اور ایندھن کے استعمال اور اِن سے بجلی پیدا کر نے کی بجائے ہائیڈرو پاور کے علاوہ Renewable Energy یعنی ہوا۔

دھوپ اور سمندر ی لہروں اور موجوں سے بجلی ،،توانائی،، حاصل کر نے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اور جن ملکو ں میں Renewable Energy کا استعمال کیا جا رہا ہے وہاں اس سے دو فائدے ہو رہے ہیں ایک یہ کہ اِن ملکوں میں فضائی ، آبی اور زمینی آلودگی کے کم یا ختم ہو نے سے انسانی صحت پر مثبت اثرات تو مرتب ہو ہی رہے ہیں ساتھ ہی ہر طرح کی قدرتی حیات پر نکھار آرہا ہے اور ساتھ ہی زرعی پیداواراور اس کے معیا ر میں بھی قابل قدر اضافہ د یکھنے میں آیا ہے، لیکن Renewable Energy کے لیے بھی بعض ممالک کے پاس قدرتی وسائل بہت محدود ہیں جیسے سنٹرل ایشیا اور دنیا کے کچھ ممالک ایسے ہیں جو Land lake لینڈ لاک ممالک کہلاتے ہیں جن کے پاس سمندر اور ساحل نہیں ہیں۔

بعض اتنے سرد ممالک ہیں جہاں اگرچہ بارشیں اور برفباری تو بہت ہوتی ہے مگر اِن کے سمندر چھ مہینوں تک منجمد رہتے ہیں اور اِن پر جہاز رانی تک نہیں ہوتی ۔ اسکینڈے نیوی ممالک میں ایسے خطے بھی ہیں جہاں مہینوں سورج ہی نہیں نکلتا ، مگر اِن کے مقابلے میں پاکستان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم اور احسان ہے۔

پاکستان دنیا کے 193 ممالک میں سے رقبے کے اعتبار سے 33 ویں نمبر پر ہے مگر اس کے پاس Renewable Energy کے ہر طرح کے قدرتی وسائل موجود ہیں۔ ملک کے جنوب میں بحر عرب پر پاکستان کے پاس ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحل ہے۔

جہاں نسیم بری اور نسیم بحری سے رات دن مناسب تیز ہوائیں چلتی ہیں کہ یہاں سندھ بلوچستان ساحل پر Gharo Keti Bandar غاروکیٹی بندر پر صرف ساحل کی 60 کلومیٹر لمبائی پر پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق 50000 میگا واٹ بجلی حرکی توانائی سے پیدا کی جا سکتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں رقبے کے لحاظ سے دنیا کا نواں ملک قازقستان جس کا رقبہ 2724900 مربع کلومیٹر ہے اس کے پاس ساحل نہیں ہے۔

دنیا میںبہت سے ایسے ملک ہیں جن کے پاس ایک یا دو ایکلوجیکل زون اور اِن کے سسٹم ہیں ، پاکستان رقبے میں کم ہونے کے باوجود 7 ایکالوجیکل زون رکھتا ہے جس میں سے دو ایکالوجیکل سسٹم اور زون دنیا میں منفرد ہیں۔ ہمارے ملک میںجنوب میں گرم پانی کے سمندر بحر عرب پر ایک ہزار کلو میٹر ساحل ہے وہاں اس کے شمال میں دنیا کے عظیم پہاڑ کوہ ہمالیہ کی 8500 میٹر اور اس سے زیادہ بلند 14 چوٹیوں میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ،،کے ٹو K2 ،، سمیت پانچ بلند ترین چوٹیاں پاکستان کے پاس ہیں۔

اسی طرح قطبین کے علاوہ دنیا کے تمام بڑے گلیشیئرز بھی پاکستان کے پاس ہیں پھر یہاں سے دریائے سندھ،جہلم سمیت اِن کے کئی معاون دریا نکلتے ہیں جن پر سندھ طاس معاہدے کے تحت تربیلہ اور منگلا جیسے دو بڑے ڈیمز 1974 ء تک تعمیر ہو چکے تھے مگر اس کے بعد کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا یہاں درہ ہندوکش اور قراقرم سے لیکرآزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا تک کئی مقامات ایسے ہیں جہاں بڑے، درمیانے اور چھوٹے ہائیڈور پاور ڈیمز بنائے جا سکتے ہیں،اس وقت چند ڈیمز بنائے بھی جا رہے ہیں۔

اسی طرح بلوچستا ن کے پہاڑی علاقوں میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں درمیانے، چھوٹے ڈیمز بنائے جا سکتے ہیں حرکی اور شمسی توانائی کے حصول کے لیے بلوچستان سندھ اور جنوبی پنجاب میں گرم ترین آندھیوں اور بگولوں والے بڑے بڑے دشت اور صحرا موجود ہیں، پھر جہاں تک تعلق گھریلو استعمال کی بجلی کا ہے تو اب یہ رجحان عام ہے کہ لو گو ں کی بڑی تعداد اپنے گھروںکی چھتوں پر سولر پینل نصب کر کے گھریلو استعمال کے لیے شمسی توانائی حاصل کر رہی ہے اور ملک کے بہت سے بارانی علاقوں میں تو اسی انداز کی شمسی تو انائی سے دیہاتوں میں ہزاروں ٹیوب ویل بھی چلائے جا رہے ہیں مگر اس سے ہمارے ہاں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر رہی ہے ۔

یہ تو وہ قدرتی ذرائع اور وسائل ہیں جن سے ہم سستی اور مصفا بجلی حاصل کر سکتے ہیں ۔اب اُن مسائل کی جانب آتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری وہ توانائی جس کے لیے ہم سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کرتے ہیں مگر اس توانائی ( بجلی اور قدرتی گیس) کی ایک بڑی مقدار ناقص سپلائی لائنوں اور چوری کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے اور بدقسمتی سے اس نقصان کا بوجھ بھی ایمانداری سے بل ادا کر نے والوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے سیاستدان خصوصاً پارلیمنٹ کے اراکین جن کا بنیادی کام قانون سازی ہے وہ بلدیاتی نوعیت کے تعمیراتی کاموں اور عوامی سہولتوں کی بنیاد پر ووٹ حاصل کر نے کی خاطر دیہی اور شہری علاقوں میں بجلی اور گیس کی سپلائی کے لیے اِن اداروں، محکموں پر دباؤ ڈالتے ہیں اس لیے توانائی کے اعتبار سے ہماری کوئی بھی پا لیسی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوتی۔

اس لیے ضروری ہے کہ یا تو توانا ئی کے شعبے پرائیویٹ ہوں یا پھر اِن کو خودمختا ر اتھارٹی کی حیثیت دے دی جا ئے، یوں بجلی اور گیس کی چوری پر بھی قابو پا لیا جا ئے گا اور توانائی کی پالیسی اور حکمت علمی بھی کار گر ہو سکے گی۔

بجلی اور گیس کی لائنوں کو معیاری بنایا جائے، قدرتی گیس اور بجلی کے محکموں اور شعبوں میں ماضی میں بہت سے انجینئر اور پیشہ ورانہ ماہرین سیاسی بنیادوں پر اہلیت اور مطلوبہ قابلیت کو نظر انداز کر کے تعینات کئے گئے ان سب کی چھانٹی کی جائے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی بنیاد پر انشاء اللہ ایسی بہتری آئے گی کہ ہم اس بحران سے باہر آجائیں گے، ورنہ یہ واضح رہے کہ ہمارے قدرتی گیس کے ذخائر آئندہ 12 برسوں میں ختم ہو جا ئیں گے۔

اور ہمارے ملک کی آبادی میں سالانہ 55 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے اس لیے ہمارے پاس اب وقت بہت ہی کم ہے، اس بار جب سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور خصوصاً بجلی کے حوالے سے جو احتجاج ہوا ہے اس پر پہلی بار پاکستان بھر میں بجلی چوری کے خلاف سرکار ی سطح پر کاروائیاں جاری ہیں، یقینا اس کے مثبت اثرات جلد سامنے آئیں گے مگر ضروری یہ ہے کہ حکومت کوئی ایسا لائحہ عمل اپنائے کہ آئندہ اقتدار میں آنے والی ہر حکومت اِ ن پالیسیوں پر عمل جاری رکھے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں