کوچۂ سخن

سو کاروبار محبت وفا سے چلتا ہے<br /> یہ آشنائی کی اک انتہا سے چلتا ہے

فوٹو: فائل

غزل
سو کاروبار محبت وفا سے چلتا ہے
یہ آشنائی کی اک انتہا سے چلتا ہے
گھٹن سے عشق عزیزو نکال لوں گا کبھی
میں جانتا ہوں یہ پنکھا ہوا سے چلتا ہے
ضرور ہوں گے وہ مجنوں کے ماننے والے
وہ جن کا کام جنوں کی دُعا سے چلتا ہے
ہر ایک رُت میں محبت پہننا پڑتی ہے
کہ میرا جسم عمومی قبا سے چلتا ہے
ہم اپنے عشق کو کہتے ہیں زندگی لیکن
یہ وہ معاملہ ہے جو فنا سے چلتا ہے
گزرنے والوں کے دَم سے ہیں رونقیں ساری
ہر ایک راستہ خلقِ خدا سے چلتا ہے
غزال پہروں اُسے دیکھتے ہیں چھپ چھپ کر
وہ بد لحاظ کچھ ایسی ادا سے چلتا ہے
(اعجاز توکّل۔ رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
پھر چل پڑی بادِ صبا، مہکی فضا، مصرع ہُوا
خالی سی شاخِ فکر پر غنچہ کھلا، مصرع ہوا
کوئل، پپیہا،بلبلیں، بھنورے، گلابی کونپلیں
اک گنگناتا ،مسکراتا ، جھومتا مصرع ہوا
اہلِ ہوس، اُس کی گلی، آپس میں لڑتے ہی مرے
جب یہ تماشا ہو چکا، پردہ اٹھا، مصرع ہوا
پائل کی چھن چھن دل نشیں ، احساس میں کوئی حَسیں
توبہ شکن، رنگیں ادا ، جب آ گیا مصرع ہوا
در در پھری آوارگی، یہ بے بسی، بے چارگی
پھر بعد مدت مستجب ٹھہری دعا ، مصرع ہوا
عشقِ ستم گر کھا گیا، اعزاز ؔدل گھبرا گیا
پر اُس گلی کا راستا جوں ہی ملا مصرع ہوا
(خالداعزاز۔لاہور)


۔۔۔
غزل
راس آیا نہ میرا پیار اس کو
کتنا چاہا تھا میں نے یار اس کو
ہم نے سوچا تھا جانے سے پہلے
دیکھ آئیں گے ایک بار اس کو
دریا بن کر وہ خواب میں آیا
میں نے کر ہی لیا تھا پار ا س کو
دل کا آئینہ اجلا اجلا ہے
یاد کر دے گی داغ دار اس کو
روشنی بھی تھی میری آنکھوں میں
کھا گیا تیرا انتظار اس کو
آنکھ جو تجھ سے دور ہو گئی ہے
اشک پہ کیسا اختیار اس کو
رات، ہر رات مجھ سے کہتی ہے
چیختے چیختے پکار اس کو
پھر سے دل اس گلی میں جاتا ہے
جس گلی سے نہیں فرار اس کو
(بشریٰ شاہ۔ ڈیرہ غازی خان)


۔۔۔
غزل
کسی کا راجدھانی مسئلہ ہے
ہمارا رائیگانی مسئلہ ہے
کوئی شے ایک جا رہتی نہیں ہے
زمانی اور مکانی مسئلہ ہے
حکومت بانٹ لی ہے دو گھروں میں
یہاں پر خاندانی مسئلہ ہے
کوئی پیری سے تنگ آیا ہوا ہے
کسی کا یہ جوانی مسئلہ ہے
محبت مسئلہ ہے ذاتیاتی
میاں بین اللسانی مسئلہ ہے
کسی کا مسئلہ دو روٹیاں ہیں
کسی کا حکمرانی مسئلہ ہے
قبیلوں میں لڑائی چل رہی ہے
زمینیں اور پانی مسئلہ ہے
(راؤوحیداسد۔ملتان)


۔۔۔
غزل
دل میں ادھورے پن کی عجب داستان ہے
آنکھوں میں تشنگی کی بھی اپنی زبان ہے
آئے ہو تم تو ہو گئی برسات چار سو
موسم بھی جیسے آج بہت مہربان ہے
دیکھا تھااس نے خواب میں اک بار پیار سے
اب سوچتی ہوں سچ تھا کہ میرا گمان ہے
بن مانگے دے دیا ہے جسے میں نے اپنا دل
وہ شخص میری جان وہی آن بان ہے
شائد سمجھ سکے وہ کبھی دل کا ماجرا
کہنے کو ہم نوا ہے میرا ہم زبان ہے
(ثوبیہ خان نیازی۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
قہر کی آگ جل رہی ہوگی
عمر اس میں پگھل رہی ہوگی
موت کا قتل ہو رہا ہوگا
زندگی ہاتھ مَل رہی ہوگی
خال و خد خاک ہورہے ہوں گے
نئی صورت نکل رہی ہوگی
یہ مری خاک گم شدہ سی خاک
کسی پیکر میں ڈھل رہی ہوگی
قرن کی ریت کتنی تیزی سے
مٹھیوں سے پھسل رہی ہوگی
رنگ و نکہت و موج و مستی میں
پھر سے نیت بدل رہی ہوگی
کوئی تارا کہیں نہ چمکے گا
شام بے سود ڈھل رہی ہوگی
(طارق اسد۔ملتان)


۔۔۔


غزل
دل کے شور مچانے تک
آ گیا چور خزانے تک
رنگ بکھیرو منظر میں
منظر سے ہٹ جانے تک
آفت تسمے باندھ چکی
شوق کی فصل اُگ آنے تک
چیخو، کرم فرماؤں کے
کوئی کرم فرمانے تک
پھول نے کیا کیا خواب بنے
کھلنے سے مرجھانے تک
ٹھیک ہے، واپس آئے گا
لیکن تیرے آنے تک
کیسا حسن کہ سارے لوگ
چین سے ہیں، دیوانے تک
شور نظر اندازی کا
میرے شعر سنانے تک
(زبیر حمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)


۔۔۔
غزل
خلا میں پیش رفتی کی طرف پہلا اشارہ ہے
کرن کا داغ ہم نے اپنے دامن پر اتارا ہے
رُخِ عالم کو پیش و پس نہ کر دیں یہ جنوں پیشہ
خدا نے آدمی کو وقفے وقفے سے پکارا ہے
جہانِ حیرت و دریافت ہم ہی سے تو روشن ہے
یہ سیّاروں پہ نقشِ آبلہ پائی ہمارا ہے
یہ رفتارِ نمو یابی کا دھیما پن غنیمت ہے
ترقی کا نہ ہونا بھی ترقی کا اشارہ ہے
جو اسلوبِ سخن کے نام پر بیکار جاتے ہیں
انہی کے نام پر شہرِ سخن میں اک ادارہ ہے
وجودِ صفر سے تقویمِ دو عالم نہیں بنتی
حدودِ روشنی کے پار بھی روشن ستارا ہے
لطافت کا یہ پہلو شاعری کا حسن ہے توحیدؔ
گریبانِ جہانِ خشک و تر بھی استعارہ ہے
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
کیا کہیں ایسے حسیں پل کا بھلا کیا دام ہو
اس گھنیری زلف کے سائے میں اپنی شام ہو
دشمنوں کے درمیاں جو بھاگ جائیں چھوڑ کر
ایسے سارے دوستوں کا قاتلوں میں نام ہو
بے مروت بے وفا یاروں سے اپنا ربط کیا
چاہے پھر ان کی گلی کا راستہ دو گام ہو
ایک یہ حسرت کہیں ٹھہرے نہ اپنی ناتمام
کاش ان آنکھوں کا قسمت میں ہماری جام ہو
تم ہی جب کھیلے تو کیوں نہ اک کھلونا یہ بنے
اب تو اس دل کا تماشہ ہر گلی میں عام ہو
(عامرمعان۔ کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
ابھی پڑاؤ زمینی نہ آسمانی ہے
یہ لامکانی ہماری بڑی پرانی ہے
تو ایسے لوگوں میں آ کر یقین بانٹتا ہے
وہ جن کا پہلا تعارف ہی بدگمانی ہے
گذشتہ عشق اِسی پراتارتے ہیں لوگ
یہ میرا دل ہے کہ دیوارِ مہربانی ہے
کسی کو مرضی کا کردار مل سکا ہی نہیں
لکھاریا! تری حیرت زدہ کہانی ہے
بھڑک اٹھے نہ اٹھے بعد کا معاملہ ہے
کہ ہم نے تھوڑی بہت آگ تو لگانی ہے
سناؤ شعر تو دل میں اتار لے کوئی
کرو جو بات لگے شخص خاندانی ہے
اسی لیے مجھے صحراؤں سے عقیدت ہے
کہیں پڑھا تھا کہ یہ قیس کی نشانی ہے
تمہارے ہونٹ ہماری جبیں پہ ظاہر ہیں
کسی حسین مصور کی مہربانی ہے
(مصور عباس۔ڈیرہ اسماعیل خان)


۔۔۔
غزل
یہ سنتے ہی خوشی سے ہم بھی پیچھے آ گئے ہیں
وہ صاف انداز میں سب کچھ ہمیں فرما گئے ہیں
سہولت سے کنارا کر کے کار ِ خیر میں بھی
ستم سارے ہماری ذات پر وہ ڈھا گئے ہیں
اِک ایسا حادثہ درپیش آیا تھا یہاں پر
پرندے ہی نہیں اشجار بھی گھبرا گئے ہیں
بھلانے کا کوئی بھی راستہ چھوڑا نہیں ہے
ارے پاگل ترے ذہن و گماں پر چھا گئے ہیں
خوشی سے توڑ یا محفوظ رکھ مرضی ہے تیری
کھلونے ہیں ترے ہاتھوں میں جو ہم آ گئے ہیں
فقط دعوے نہیں تو جان بھی دیتا ہے ہم پر
ترے نخرے ہمیں کچھ اس سبب سے بھا گئے ہیں
(عظیم کامل۔جام پور)


۔۔۔
غزل
بے قراری جو بہت دل کو جلا دیتی ہے
صبرِ بسمل کا سلیقہ بھی سکھا دیتی ہے
سنا ہے اب بھی اسے یاد میری آتی ہے
بس یہی بات میرے دل کو بقا دیتی ہے
غم و الم کے دیے، کوئی اجنبی طاقت
شام ہوتے ہی میرے گھر میں جلا دیتی ہے
شاعری صرف خیالات کی دنیا تو نہیں
زخمِ دل شعر کی صورت میں دکھا دیتی ہے
ہم تو اس راہ کے راہی ہیں ازل سے، جس پر
چند لمحوں کی مسافت بھی تھکا دیتی ہے
ہم کو معلوم ہے اس زیست کا انجام عقیلؔ
خاک کو، خاک میں،پھر خاک بنا دیتی ہے
(عقیل نواز۔اسکردو)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story