مشرق وسطیٰ کی نازک صورت حال

اس لیے اس جنگ میں دوسرے فریقوں کا شامل ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے

فائل فوٹو

اسرائیل کی فوج غزہ میں مسلسل کارروائی کر رہی ہے۔ عالمی اور مقامی میڈیا کے مطابق جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب بھی اسرائیلی فوج اور فضائیہ نے غزہ پٹی میں بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب غزہ میں اسپتالوں بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، گزشتہ روز ایک چرچ کے بعد ایک تاریخی مسجد کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس کے نتیجے خاصا نقصان ہوا ہے۔

اسرائیلی طیاروں نے لبنان میں حزب اللہ تنظیم کے ٹھکانوں پر بھی بمباری کی ہے۔ حزب اللہ حالیہ تنازعہ میں حماس کی حمایت کر رہی ہے۔

ماضی میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو خاصا ٹف ٹائم دیا تھا، حماس کی حمایت کرنے پر اسرائیل حزب اللہ کو بھی سبق سکھانا چاہتاہے۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ اسرائیلی افواج نے لبنان اور اسرائیل کے سرحدی علاقے ہولا کے مقام پر صحافیوں کی ایک گاڑی پر بھی حملہ کیا ہے ۔

مسجد پر بمباری کے حوالے سے اسرائیل نے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جبالیہ کی مسجد میں حماس کی تنصیبات اور ہتھیاروں کو تباہ کیا گیا ،اسرائیلی فوج نے غزہ میں حماس سے منسلک 100 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا ہے، جن میں ایک سرنگ اور اسلحہ ڈپو شامل ہیں۔

اسرائیل اپنے ہر اقدام کو جائز ثابت کرنے کے لیے مسلسل پراپگینڈا مہم چلا رہا ہے ۔ ادھر حماس نے بھی عسقلان، اسدود اور غزہ کے اطراف دیگر اسرائیلی بستیوں پر راکٹوں سے حملے کیے ہیں۔

فلسطین کی وزارت صحت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اسرائیل کی بمباری میں پانچ ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جب کہ 13ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

حماس نے 200سے زائد یہودیوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ غزہ میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں میں بیشتر زندہ ہیں جب کہ 100 سے 200 افراد ایسے ہیں جن کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔

اسرائیل اور حماس کی اس لڑائی کے دوران امریکا کی نیوی نے حوثی ملیشیا کی جانب سے اسرائیل پر فائر کیے گئے میزائل اور ڈرونز کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی جنگ کا دائرہ پھیل رہا ہے اور اس کے اثرات شام،لبنان، اردن اور یمن پر بھی مرتب ہورہے ہیں ۔

امریکا کے صدر جو بائیڈن نے گزشتہ روز اوول آفس سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے روس کے صدر کے صدر ولادی میر پیوٹن اور حماس پر شدید تنقید کی، انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس اور پیوٹن دونوں اپنی ہمسایہ جمہوریتوں کو ملیا میٹ کردینا چاہتے ہیں۔

انھوں نے دوٹوک الفاظ میں واضع کردیا ہے کہ اسرائیل اور یوکرین کی جنگوں میں کامیابی امریکا کی نیشنل سیکیورٹی کے لیے بہت اہم ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ وہ حماس اور پیوٹن کو جیتنے نہیں دیں گے۔ اسی پر بس نہیں انھوں نے اسرائیل اور یوکرین کے دفاع کے لیے امریکی عوام سے 100ارب ڈالر کی فوجی امداد کی اپیل بھی کی ہے۔

ادھر امریکا کے شہر نیو یارک کے ٹائمز اسکوائر میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ہے، مظاہرین نے حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرے۔حماس تحریک کے سربراہ خالد مشعل نے العربیہ چینل کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل پر حملہ ایک حسابی مہم جوئی ہے۔

اسرائیل کہتا ہے کہ وہ حماس کو ختم کر دے گا، جس میں وہ کامیاب نہیں ہو گا،ہم اسرائیل کو شکست دیں گے۔وہ ملک جنھوں نے ہمیں دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالا ہے، وہ تیسرے فریق کے ذریعے ہم سے رابطہ کر رہے ہیں''۔ خالد مشعل نے واضع کیا کہ ہمارے پاس اسرائیلی فوجیوں کی کافی تعداد موجود ہے جن کے بدلے ہم اپنے قیدیوں کے لیے مذاکرات کر سکتے ہیں۔

یوں حماس نے بھی اپنی پوزیشن واضع کردی ہے ۔ ادھر عالمی سطح پر بھی پیش رفت جاری ہے ۔ عالمی اور مقامی میڈیا کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ جمعے کو قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی سے برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے ملاقات کی، اس ملاقات میں غزہ میں خوراک، پانی اور ادویات کی فوری فراہمی اور کشیدگی روکنے پر اتفاق کیا گیا ہے ۔


اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگرتیریس نے اسی روز رفاہ کراسنگ کا دورہ کیا جہاں انھوں نے غزہ میں محصورفلسطینیوں کو امداد کی فراہمی کے معاملات کا جائزہ لیا۔سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اقوام متحدہ کے انتونیو گوتریس کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کرکے غزہ میں جنگ بڑھنے کے خطرے سے پیدا شدہ صورت حال بارے تبادلہ خیال کیا ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان نے فلسطینیوں کے جائز حقوق کی حمایت کی ہے۔ جرمنی نے غزہ کے محصور شہریوں کو 50ملین یورو کی اضافی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے خلاف جذبات مسلسل گرم ہو رہے ہیں۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بھی جمعے کو ہزاروں افراد نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں کے حق میں بڑھتے مظاہروں کی وجہ سے اسرائیل نے مصر، اردن، مراکش، بحرین اور ترکیہ میں اپنے سفارتخانے خالی کردیے ہیں۔

یوں اسرائیل کے لیے مشرق وسطیٰ میں خاصی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ وہ عرب ملک جو اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں، وہاں سفارت خانے خالی ہونے کا مطلب یہی ہے کہ ان ملکوں کے عوام بھی اسرائیل کے حق میں نہیں ہیں۔ ایران نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر حملے نہ روکے تو جنگ میں دوسرے فریق بھی شامل ہو جائیں گے۔

ایران کی یہ بات خاصی حد تک درست ہے کیونکہ امریکا اور یورپ مسلسل اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ امریکا تو باقاعدہ اسرائیل کی مالی اور دفاعی مدد بھی کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک تک بھی اس جنگ کی تپش پہنچ رہی ہے۔

اس لیے اس جنگ میں دوسرے فریقوں کا شامل ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ بہرحال عوامی جمہوریہ چین نے بھی فلسطین اور اسرائیل کے موجودہ تنازع کے بارے میں کہا ہے کہ چین ہمیشہ امن اور انصاف کے ساتھ کھڑا ہوا ہے، ہم شہریوں اور شہری تنصیبات کے خلاف حملوں کی مخالفت اورفوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ٹوکیومیں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائیوں میں اضافہ ہونے سے غزہ کے شہریوں کے لیے تباہ کن ہو گا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی فلسطین کے صدر محمود عباس کو فون کیا ہے۔

سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس حوالے سے بھارتی وزیراعظم نے بتایا ہے کہ انھوں نے فلسطین کے صدر سے غزہ کے اسپتال پر حملے میں ہونے والی اموات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ اسپین کی وزیر سماجی امور ای یونے بیلارا نے اپنی حکومت سے اسرائیل سے تعلقات معطل اورتجارتی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے ۔

پاکستان اور چین نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اور تشدد کی موجودہ بڑھتی ہوئی شدت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے دورہ چین کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں فریقین نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تنازعہ سے نکلنے کا بنیادی راستہ ''دو ریاستی حل اور فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام'' میں مضمر ہے۔ مشترکہ بیان میں مخاصمت بند کرنے، شہریوں کے تحفظ اور غزہ میں مزید انسانی تباہی سے بچنے کے لیے ہرممکن کوشش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

غزہ کے حالیہ تنازعے پر غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ عالمی رائے عامہ اسرائیل کے حق میں نہیں ہے۔ عالمی رائے عامہ چاہتی ہے کہ فوری جنگ بندی کی جائے اور کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے۔

عالمی رائے عامہ کی سوچ درست ہے کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اسرائیل اس تنازعے کا بڑا کردار ہے جب کہ حماس محض ایک جماعت ہے اس لیے امن کی طرف قدم بڑھانے کی زیادہ ذمے داری اسرائیلی حکام پر عائد ہوتی ہے۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی اسرائیل کے اسٹرٹیجک اور اقتصادی مفادات کے حق میں نہیں ہے۔

امریکا اور مغربی یورپی ممالک کو بھی اس معاملے میں فریق نہیں بننا چاہیے۔ اسی طرح روس کو بھی اس لڑائی میں بطور فریق کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ امریکا اور روس کے باہمی تنازعے میں فلسطینی عوام کے مفادات اور جانوں کا نقصان نہیں ہونا چاہیے۔

فلسطینی قیادت کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ امریکا، یورپی یونین اور روس کی باہمی چپقلش میں فلسطینی عوام کو جنگ کا چارہ نہ بننے دیں۔

اسی میں فلسطینیوں کی بھلائی ہے۔ طاقتور ملکوں نے اپنے مفادات کی لڑائی ہمیشہ کمزور ملکوں میں لڑی ہے۔ افغانستان، یمن، شام، لیبیا، لبنان، مالی، سوڈان اور صومالیہ اس کی مثالیں ہیں۔ طاقتور ملکوں نے اپنی لڑائی لڑنے کے لیے ان ملکوں کو تباہ وبرباد کر دیا۔
Load Next Story