سیاسی پتلی تماشوں پر مبنی کھیل

یہ اصول اسی صورت میں کارگر ہوگا جب ہماری اپنی ترجیحات میں سیاست اور جمہوریت کو مضبوط بنانا ہوگا

salmanabidpk@gmail.com

جب کسی ریاستی نظام کی بنیاد آئین اور قانون کی بالادستی یا جمہوری اصولوں کے بجائے ذاتیات پر مبنی خواہشات پر رکھی جاتی ہے تو ایسی ریاستیں اپنی ساکھ قائم نہیں کرسکتیں ۔ سیاسی مہم جوئی حالات میںاور زیادہ بگاڑپیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔

ہمارا موجودہ ریاستی نظام بھی اسی طرح کے بحران کا شکار ہے او رہم ایک ایسے محفوظ راستے کی تلاش میں ہیں جو ہمیں اس بحران سے باہر نکال سکے ۔اس وقت بھی قومی سیاست میں سیاسی تماشوں، سیاسی آنکھ مچولی یا سیاسی پتلی تماشوں کا کھیل بڑی شدت سے جاری ہے ۔

یہ کھیل کوئی ایک فریق نہیں کھیل رہا بلکہ بہت سے فریقین جن پر دوسری نوعیت یا سنجیدہ نوعیت کی ذمے داری عائد ہوتی ہے وہ بھی اسی روائتی کھیل کا حصہ بن کر مجموعی طور پر ریاستی نظام کو کمز ور کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں ۔جو بھی ہمارا سیاسی اسکرپٹ ہے اس میں کہانی پرانی نوعیت پر ہی مبنی ہے البتہ اس کے کردار بدل جاتے ہیں ۔

کردار بدلنے کے کھیل سے کبھی بھی حقیقی ترقی اور حقیقی جمہوریت یا مضبوط معیشت کا تصور ممکن نہیں ۔ یہ ہی عمل ہمیں آگے کے بجائے پیچھے کی طرف دکھیل رہا ہے ۔لیکن مجال ہے کہ ریاستی سطح پر موجود اہم فیصلہ سازوں میں اس پر کوئی ندامت ہویا ان میں کوئی تشویش کا پہلو نمایاں ہو۔ ان کے بقول ہمیں وہی کچھ کرنا ہے جو ہمارا دل یا ہمارے مفادات کہتے ہیں ۔ آئین و قانون کی کوئی بھی حیثیت نہیں او راس پورے عمل کو ہم نے واقعی تماشہ بنادیا ہے ۔

جب بھی ریاستی نظام میں مصنوعی انداز سے سیاسی او رجمہوری نظام کا رنگ بھرا جاتا ہے او راس کھیل میں عوام کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ مجموعی طور پر ریاستی نظام طاقت ور طبقوں کے کھیل کا نظام بن گیا ہے او راس میں عوام کی حیثیت یرغمال سے زیادہ نہیں تو یہ عملا غلط نہیں ہوگا ۔

سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ریاستی نظام میں موجود تمام فریقین اپنے اپنے آئینی , قانونی اور سیاسی یا جمہوری دائرہ کار میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں او ران کی خواہش دوسروں کے دائرہ کار میں مداخلت یا ان پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا ہوتا ہے ۔ یہ جو ریاستی اور سیاسی اداروں یا فریقین کے درمیان ٹکراو کا کھیل ہے اس سے ہم نے کیا ترقی کرلی ہے جسے ہم آج بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔

انتخابات کا عمل بھی مجموعی طور پر عدم شفافیت کا شکار ہے او راس کے پیچھے اصل سوچ اوفر فکر عوامی مینڈیٹ کو قبول نہ کرنا یا عوام کو یہ حق ہی نہ دینا کہ وہ اپنی ہی مرضی منشا کے مطابق اپنی سیاسی قیادت کا انتخاب کرسکیں ۔اس طرز کی سوچ اور فکر لوگوں کو ریاستی نظام سے لاتعلق کرتی ہے او ران کو لگتا ہے کہ یہ ریاست ہمارے مقابلے میں طاقت ور طبقات کی ہے او ران ہی کے مفادات اس نظام کے لیے اہم ہیں ۔

ریاست کی بڑی طاقت عوام کو ہی سمجھاجاتا ہے جب کہ ہم نے عوام کو محض ایک بڑا سیاسی ہتھیار سمجھ لیا ہے او رجب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو ہم نئے نئے سیاسی نعروں , وعدوں اور تماشوں کی بنیاد پر انتخابی ماحول سجا کر ووٹروں کو جذباتیت کی بنیاد پر اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ایک طرف ووٹروں اپنی طرف متوجہ کرنا اور دوسری طرف خو د کو اسٹیبلیشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنا یا خود کو ان کا بڑا وفادار سمجھ کر یقین دہانی کرانے اور اس میں کامیابی کو ہی اقتدار کی کنجی سمجھنے کا کھیل بدستور جاری ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ایک کمزور ریاست اور جمہوریت کے ماڈل کا حصہ ہیں او راس کا ایک بڑا نتیجہ کمزور معیشت کی بنیاد پر سامنے آرہا ہے ۔


ہم نے اداروں کو مضبوط اور خود مختار بنانے کی کوشش اس لیے نہ کی کہ ان اداروں کے سامنے خو دکو جوابدہ نہ بنانا پڑے ۔ ان کے بقول اگر اداروں کے مقابلے میں افراد طاقتور ہوںگے تو ادارے افراد ہی کے تابع بن کر ان کے اپنے مفادات کو ہر صورت فوقیت یا تقویت دینگے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک کا طاقت ور طبقہ یا طبقات مل کر اداروں کو کمزور کرنے او ران اداروں کی اپنی خودمختاری کے مقابلے میں اپنی خودمختاری کے کھیل کی پزیرائی سمیت مستحکم بھی کررہے ہیں ۔یہ افراد کی طاقت پر مبنی کھیل ہے اسے کیسے ختم کیا جائے گا او رکون سی حکمت عملی ہے جہاں افراد کے مقابلے میں ادارے طاقت پکڑ سکیں ۔

یہ اصول اسی صورت میں کارگر ہوگا جب ہماری اپنی ترجیحات میں سیاست اور جمہوریت کو مضبوط بنانا ہوگا ۔ کیونکہ ایک مضبوط سیاسی و جمہوری نظام میں کوئی ایک فریق نہیں بلکہ تمام فریقوں کو ہر صورت مختلف تناظر میں جوابدہ ہونا پڑتا ہے ۔ کیونکہ جمہوریت اور جوابدہی کا باہمی تعلق ہی ایک مضبوط اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کے نظام کو تقویت یا یقینی بناسکتا ہے ۔

ہمارے رائے عامہ بنانیوالے افراد او رادارے جو عام لوگوں کی ذہن سازی میں شریک ہوتے ہیں اوراس کی بنیاد پر رائے عامہ کی تشکیل کرتے ہیں، وہ خو د بھی طاقت ور طبقات کے کھیل میں کہیں گم ہوکر رہ گئے ہیں ۔ان افراد یا اداروں کی ترجیحات میں عام آدمی یا ریاستی نظام کے مفادات کے مقابلے میں خود طاقت ور طبقوں کے مفادات زیادہ اہمیت اختیار کرجاتے ہیں ۔

سرمائے کی بنیاد پر چلنے والے نظام میں ہی وہ طبقہ بالادستی حاصل کرتا ہے جو خود بھی سرمائے کی بنیاد پر اپنا کام کرتا ہے ۔

وہ لوگ جو عوامی سوچ اور فکر کے ساتھ اپنا سچ پر مبنی نقطہ نظر رکھتے ہیں یا ان کو عوامی مفادات پر مبنی دانشور کہا جاتا ہے تو ان کے پاس آوازیں تو ہیں مگر ان کی نہ تو کوئی سننے والا ہے او رنہ ہی ہمیں ان کی کوئی بڑی سیاسی پزیرائی یا سیاسی رسائی ممکن نظر آتی ہے ۔ ان کے مقابلے میں سیاسی بونوں کا راج ہے ۔یہ سیاسی، سماجی، معاشی ، قانونی اور انتظامی سطح پر موجود سیاسی بونے ہی ہمارے مسائل کی جڑ ہیں ۔

بڑے عہدوں پر یا کرسیوں پر جب چھوٹے لوگ سیاسی پسند و ناپسند کی بنیاد پربیٹھیں گے تو نتیجہ بربادی کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے اور ان حالات کو پیدا کرنے کے اصل ذمے دار بھی ہم خود ہی ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے اندر کی موجود سیاسی مہم جوئی ہمیں غلط فیصلوں کی طرف دکھیلتی ہے ۔

اس لیے اگر پاکستان کو جدید ریاست یا مضبوط ریاست جہاں عوام طاقتور ہوں او رجہاں آئین و قانون کی حکمرانی ہو او رجمہوریت ہی کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہو تو ہمارا موجودہ طرز عمل یا حکمت اس کے برعکس ہے اس لیے ہمیں مجموعی طور پر اس ریاستی نظام کی بقا کے لیے دیانت پر مبنی تجزیہ درکار ہے ۔

اس تجزیہ میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے آگے بڑھنے کی حکمت عملی ہی ہمیں درست سمت کا تعین کرنے میں مدد دے سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بطور ریاست ہم اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار ہیں اور واقعی ہماری ترجیحات کا یہ حصہ ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔

اگر ایسا ہے تو ہم محفوظ راستے کی تلاش میں سچ اور سچائی یا ترقی کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں لیکن اگر اس کے مقابلے میں ہمارا سچ محض ہماری ذات تک او راپنے ہی ذاتی مفادات کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو پھر جو بھی راستہ اختیار کرلیں ہمیں ترقی کے بجائے پیچھے کی طرف دکھیلنے کا سبب بنے گا ۔

ہمیں انفرادی ترقی سے اجتماعی ترقی کے راستے کو اختیار کرنا ہے او رجب تک اجتماعی ترقی کا عمل مضبوط بنیادوں پر طاقت نہیں پکڑے گا تو انفرادی ترقی کا عمل ہمیں کچھ نہیں دے سکے گا اس لیے سیاسی پتلی تماشوں اور آنکھ مچولی کے کھیل سے سب کو ہی باہر نکلنا ہے ۔یہ کھیل ہمارے مفاد میں نہیں او رہماری ترجیح ریاستی، ادارہ جاتی اور عوامی مفادات سے ہی جڑی ہونی چاہیے۔
Load Next Story