’’یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے‘‘
اب سپر طاقتوں کی غلامی اور مغرب کی آزادی کو دل و جان سے قبول کرلیا گیا ہے
فاتح اندلس طارق بن زیاد جب دشمن کے نزدیک پہنچے تو انھوں نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور مسلمانوں کو جہاد اور جذبۂ شہادت کے لیے ابھارا اور دعا فرمائی۔
علامہ اقبال نے اندلس کے میدان جنگ میں طارق بن زیاد کی کامیابی کی لگن اللہ اور اس کے رسول پاکؐ کی محبت سے سرشار ہوکر ان کا ایمان افروز خطاب اور غیرت ایمانی کی اہمیت کو اپنی نظم کے ذریعے اس طرح اجاگر کیا ہے کہ ایک مومن کی نگاہ میں شہادت کا درجہ عظیم تر ہے۔ پوری نظم مجاہدین کے لیے سراپا دعا بن گئی ہے۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنھیں تُو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
لیکن ماضی و حال کے حالات نے مسلمانوں کی عزت و توقیر، سر بلندی اور حاکمیت کو دولت کے انبار اور عشرت کدے کی قبر میں مدفون کردیا ہے۔
اب سپر طاقتوں کی غلامی اور مغرب کی آزادی کو دل و جان سے قبول کرلیا گیا ہے، یہی تو وجہ ہے کہ مسلم امہ کے جان و مال اور عزت و آبرو کو پیروں تلے روندھا جا رہا ہے، اگر ایک ملک پر یہود و نصاریٰ چڑھائی کرتے ہیں تو دوسرے ممالک کو قطعی اپنے مسلم بھائیوں کی پرواہ نہیں ہوتی جب مسلمان کے دل سے اسلامی روح رخصت ہو جائے، تب اسی طرح کی مسلمانوں کے حصے میں پسپائی اور ذلت آتی ہے۔
اگر سوچا جائے تو مسلم قوم ہر لحاظ سے سپر اور طاقتور ہے لیکن دوسرے ملکوں کے سامنے اکثر ممالک بھیگی بلی بن کر ان کے حکم کے سامنے گردن جھکا دیتے ہیں اور یہی بات غیر مسلموں کو شیر بنا دیتی ہے، ڈرنا ہی ہے تو اس رب سے ڈریں جس کے ہاتھ میں کل خدائی اور ایسی طاقت اور قدرت ہے جس کا کوئی ثانی نہیں، جس کے کن کہنے سے زمین وآسمان، سمندر اور پہاڑ دنیا کے نقشے پر اپنا جلوہ دکھا دیں۔
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ '' مسلمانو! اللہ کی راہ میں جنگ کرو، اور خوب جان رکھو کہ اللہ سننے اور جاننے والا ہے، تم میں سے کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے؟ تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے، گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے قوم بنی اسرائیل سے کہا '' پھر تم نے اس معاملے پر بھی غورکیا جو موسیٰ کے بعد سرداران یعنی اسرائیل کو پیش آیا تھا، انھوں نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقررکردو، تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں، نبی نے کہا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ تم کو لڑائی کا حکم دیا جائے اور پھر تم اپنی بات سے پھر جاؤ، وہ کہنے لگے: بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم راہ خدا میں نہ لڑیں؟ جب کہ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اور ہمارے بال بچے ہم سے جدا کر دیے گئے ہیں مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے اور اللہ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا ہے۔ ( سورۃ البقرہ)
یہودی قوم (بنی اسرائیل) شروع سے ہی اللہ سے وعدہ خلافی اور اس کی نعمتوں کی ناشکری کرتے آئے ہیں انھوں نے دو بار اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اٹھائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کا سامنا کرنا پڑا، جب بنی اسرائیل کی نافرمانیاں زیادہ بڑھ گئیں تو بابل کے بادشاہ بخت نصر نے ان پر حملہ کر کے ان کا قتل عام کیا اور جو زندہ بچ گئے انھیں گرفتار کر کے فلسطین سے بابل لے گیا جہاں مدت دراز تک وہ اس کی غلامی میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرتے رہے یہ لوگ احسان فراموش اور اپنے رب کے ناشکرے ہیں۔
برطانیہ کی ایما پر اور امریکا کی معاونت سے فلسطین میں آ کر بسے تھے آج ان کی ہی سرزمین پر انھی پر ظلم ڈھا رہے ہیں، غزہ کی پٹی خون میں نہا چکی ہے، اسرائیل کے دوست اور مسلمانوں کے دشمن امریکا اور ہندوستان اسرائیلیوں کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے، اسرائیل نے اپنے کرتوتوں سے اپنی زندگی اور بعد از مرگ کو جہنم میں بدل دیا ہے۔
یہ لوگ شروع ہی سے عذاب کا شکار ہیں، ریگستان میں ڈالے گئے، ہٹلر نے چند کے علاوہ تمام یہودیوں کو اذیت دے کر مارا ہے اور اپنا تاریخی جملہ بھی کہہ گیا، بے شک پتا چل گیا ، ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب انھیں چھپنے کی اور پناہ لینے کی جگہ میسر نہ ہوگی۔
اسرائیلی بمباری روکنے کے لیے بیانات تو بہت سے اسلامی ملکوں نے دیے ہیں اور غیر مسلموں نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالیں اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی۔ مسلم ممالک کے رویوں سے نہتے مسلمان مایوس ہیں جب کہ ان کے پاس طاقت، افواج اور اسلحہ کا ذخیرہ ہے۔ وہ جہاد کرسکتے ہیں اللہ نے انھیں بار بار مواقعے عطا کیے ہیں لیکن ہمارے طاقتور مسلمان بھائی اس دنیا کی ہی زندگی سے خوش اور مطمئن ہیں جب کہ انھیں اپنوں کی خون میں ڈوبی لاشوں کو دیکھ کر اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا ضروری ہے۔
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خون عرب سے
کیا تُو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں، اذانِ سحر میں
کشاد درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لاتذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے
کاش کہ امت مسلمہ میں علامہ کی دعا کے مطابق وہ جذبہ اور جوش و خروش پیدا ہوجائے کہ مظلوم مسلمان بھائی ایک صدا پر لاؤ لشکر کے ساتھ پیش قدمی کرنے کے لیے کمر باندھ لے، کہ یہی ایمان کا تقاضا ہے۔
مسلمانوں کی بربادی کا شاخسانہ بھی یہی ہے کہ کشمیر و فلسطین کے خونی واقعات، اسلامی ملکوں پر حملے، مسلم حکمرانوں کو سزائے موت، یہ سب سانحات شرم دلانے کے لیے کافی ہیں، جب انسان یہ سوچ لے کہ یہ زندگی فانی ہے سب کچھ چھوڑ کر اندھیری قبر میں اترنا ہے تو پھر کیوں نہ ایسی موت کی خواہش ناگزیر ہے جو ابدی زندگی کی نوید سناتی ہے اور قرآن پاک جنت کی بشارت دیتا ہے، شہید کبھی نہیں مرتا وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے حتیٰ کہ اپنے حصے کا رزق بھی حاصل کرتا ہے۔ القرآن۔
علامہ اقبال نے اندلس کے میدان جنگ میں طارق بن زیاد کی کامیابی کی لگن اللہ اور اس کے رسول پاکؐ کی محبت سے سرشار ہوکر ان کا ایمان افروز خطاب اور غیرت ایمانی کی اہمیت کو اپنی نظم کے ذریعے اس طرح اجاگر کیا ہے کہ ایک مومن کی نگاہ میں شہادت کا درجہ عظیم تر ہے۔ پوری نظم مجاہدین کے لیے سراپا دعا بن گئی ہے۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنھیں تُو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
لیکن ماضی و حال کے حالات نے مسلمانوں کی عزت و توقیر، سر بلندی اور حاکمیت کو دولت کے انبار اور عشرت کدے کی قبر میں مدفون کردیا ہے۔
اب سپر طاقتوں کی غلامی اور مغرب کی آزادی کو دل و جان سے قبول کرلیا گیا ہے، یہی تو وجہ ہے کہ مسلم امہ کے جان و مال اور عزت و آبرو کو پیروں تلے روندھا جا رہا ہے، اگر ایک ملک پر یہود و نصاریٰ چڑھائی کرتے ہیں تو دوسرے ممالک کو قطعی اپنے مسلم بھائیوں کی پرواہ نہیں ہوتی جب مسلمان کے دل سے اسلامی روح رخصت ہو جائے، تب اسی طرح کی مسلمانوں کے حصے میں پسپائی اور ذلت آتی ہے۔
اگر سوچا جائے تو مسلم قوم ہر لحاظ سے سپر اور طاقتور ہے لیکن دوسرے ملکوں کے سامنے اکثر ممالک بھیگی بلی بن کر ان کے حکم کے سامنے گردن جھکا دیتے ہیں اور یہی بات غیر مسلموں کو شیر بنا دیتی ہے، ڈرنا ہی ہے تو اس رب سے ڈریں جس کے ہاتھ میں کل خدائی اور ایسی طاقت اور قدرت ہے جس کا کوئی ثانی نہیں، جس کے کن کہنے سے زمین وآسمان، سمندر اور پہاڑ دنیا کے نقشے پر اپنا جلوہ دکھا دیں۔
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ '' مسلمانو! اللہ کی راہ میں جنگ کرو، اور خوب جان رکھو کہ اللہ سننے اور جاننے والا ہے، تم میں سے کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے؟ تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے، گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے قوم بنی اسرائیل سے کہا '' پھر تم نے اس معاملے پر بھی غورکیا جو موسیٰ کے بعد سرداران یعنی اسرائیل کو پیش آیا تھا، انھوں نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقررکردو، تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں، نبی نے کہا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ تم کو لڑائی کا حکم دیا جائے اور پھر تم اپنی بات سے پھر جاؤ، وہ کہنے لگے: بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم راہ خدا میں نہ لڑیں؟ جب کہ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اور ہمارے بال بچے ہم سے جدا کر دیے گئے ہیں مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے اور اللہ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا ہے۔ ( سورۃ البقرہ)
یہودی قوم (بنی اسرائیل) شروع سے ہی اللہ سے وعدہ خلافی اور اس کی نعمتوں کی ناشکری کرتے آئے ہیں انھوں نے دو بار اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اٹھائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کا سامنا کرنا پڑا، جب بنی اسرائیل کی نافرمانیاں زیادہ بڑھ گئیں تو بابل کے بادشاہ بخت نصر نے ان پر حملہ کر کے ان کا قتل عام کیا اور جو زندہ بچ گئے انھیں گرفتار کر کے فلسطین سے بابل لے گیا جہاں مدت دراز تک وہ اس کی غلامی میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرتے رہے یہ لوگ احسان فراموش اور اپنے رب کے ناشکرے ہیں۔
برطانیہ کی ایما پر اور امریکا کی معاونت سے فلسطین میں آ کر بسے تھے آج ان کی ہی سرزمین پر انھی پر ظلم ڈھا رہے ہیں، غزہ کی پٹی خون میں نہا چکی ہے، اسرائیل کے دوست اور مسلمانوں کے دشمن امریکا اور ہندوستان اسرائیلیوں کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے، اسرائیل نے اپنے کرتوتوں سے اپنی زندگی اور بعد از مرگ کو جہنم میں بدل دیا ہے۔
یہ لوگ شروع ہی سے عذاب کا شکار ہیں، ریگستان میں ڈالے گئے، ہٹلر نے چند کے علاوہ تمام یہودیوں کو اذیت دے کر مارا ہے اور اپنا تاریخی جملہ بھی کہہ گیا، بے شک پتا چل گیا ، ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب انھیں چھپنے کی اور پناہ لینے کی جگہ میسر نہ ہوگی۔
اسرائیلی بمباری روکنے کے لیے بیانات تو بہت سے اسلامی ملکوں نے دیے ہیں اور غیر مسلموں نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالیں اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی۔ مسلم ممالک کے رویوں سے نہتے مسلمان مایوس ہیں جب کہ ان کے پاس طاقت، افواج اور اسلحہ کا ذخیرہ ہے۔ وہ جہاد کرسکتے ہیں اللہ نے انھیں بار بار مواقعے عطا کیے ہیں لیکن ہمارے طاقتور مسلمان بھائی اس دنیا کی ہی زندگی سے خوش اور مطمئن ہیں جب کہ انھیں اپنوں کی خون میں ڈوبی لاشوں کو دیکھ کر اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا ضروری ہے۔
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خون عرب سے
کیا تُو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں، اذانِ سحر میں
کشاد درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لاتذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے
کاش کہ امت مسلمہ میں علامہ کی دعا کے مطابق وہ جذبہ اور جوش و خروش پیدا ہوجائے کہ مظلوم مسلمان بھائی ایک صدا پر لاؤ لشکر کے ساتھ پیش قدمی کرنے کے لیے کمر باندھ لے، کہ یہی ایمان کا تقاضا ہے۔
مسلمانوں کی بربادی کا شاخسانہ بھی یہی ہے کہ کشمیر و فلسطین کے خونی واقعات، اسلامی ملکوں پر حملے، مسلم حکمرانوں کو سزائے موت، یہ سب سانحات شرم دلانے کے لیے کافی ہیں، جب انسان یہ سوچ لے کہ یہ زندگی فانی ہے سب کچھ چھوڑ کر اندھیری قبر میں اترنا ہے تو پھر کیوں نہ ایسی موت کی خواہش ناگزیر ہے جو ابدی زندگی کی نوید سناتی ہے اور قرآن پاک جنت کی بشارت دیتا ہے، شہید کبھی نہیں مرتا وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے حتیٰ کہ اپنے حصے کا رزق بھی حاصل کرتا ہے۔ القرآن۔