جمہوریت وفاداری اور سندھ کا نثار…

سانگھڑ میں مظاہرین اسلامی مقدس کتاب پڑھ رہے تھے جب انھیں بے دردی سے قتل کیا گیا

پاکستان پیپلز پارٹی نے گزشتہ تین ادوار سے مسلسل سندھ پر حکومت کی ہے، پیپلزپارٹی کے بنیادی اراکین آج بھی جمہوریت پر کامل یقین رکھتے ہیںاور انھوں نے حالات کے جبرکا مقابلہ پامردی سے کیا ہے اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

سینیٹر نثارکھوڑو جو پیپلزپارٹی سندھ کے صدر اور پارٹی کے سب سے زیادہ تجربہ کار، مخلص اراکین میں سے ایک ہیں۔

میرا ان کے بارے میں ابتدائی خیال یہ تھا کہ وہ پارٹی کے سینئر رہنما ہیں، اور عمرکے اس حصے میں ہیں، جس میں جوانی والا جوش وجذبہ برقرار نہیں رہتا، جب ان سے ملاقات اورگفتگوکے لیے حاضر ہوا، تو میں نے دیکھا کہ فون کو پکڑتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے، لیکن جیسے جیسے انھوں نے میرے سوالات کے جوابات دینے شروع کیے، تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی آواز میں وہی گھن گرج موجود ہے، جو ایک نوجوان میں ہوتی ہے، وہی جوش وولولہ ہے جو بہت کچھ بدلنے اور انقلاب کا عزم رکھتا ہے۔

80 کی دہائی کے اوائل میں، انھوں نے اپنے سیاسی کیریئرکا آغاز پی پی پی سے کیا اور 1988 میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ تب سے، ہم نے انھیں اپوزیشن اور حکومتی بنچوں پر اپنی سیاسی جماعت کا دفاع کرتے دیکھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی مہارت کا ایک شعبہ پالیسی امور اور پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو متحرک کرنا ہے۔

لوگ پارٹی امور میں ان کی بے پناہ عزت کرتے ہیں۔ میرے والد کے پیپلز پارٹی کے اراکین کے ساتھ بطور صحافی تعلقات کی وجہ سے، میں نے بچپن سے ہی انھیں قریب سے دیکھا ہے سینیٹر نثارکھوڑو ہمیشہ ثابت قدم رہے۔

انھوں نے مارشل لاء کے نفاذ کا مشاہدہ کیا تھا، اور ہم نے یہ بھی دیکھا تھا کہ کس طرح جیل میں اور پارٹی کے اقتدار سے باہر ہونے کے باوجود وہ پارٹی اور سابق صدر زرداری کے لیے کھڑے ہوئے۔ جب میں نے ان سے مارشل لاء کے دوران پارٹیوں کی جدوجہد کے بارے میں دریافت کیا اور ایم آر ڈی کے بارے میں سوال کیا تو سینیٹر نثار کھوڑو نے جوابا کہا کہ '' شہادت اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد آج سے نہیں ہے، یہ مارشل لاء کا دور تھا اور سیاسی سرگرمیاں سختی سے روک دی گئی تھیں۔

تقریباً 3000 لوگ گرفتار ہوئے تھے اور ہم تباہ کن صورتحال سے دوچار تھے، پھر جمہوریت کی بحالی کی تحریک چلی اور ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے ہمارے پیارے قائد کو پھانسی دینے کی وجہ سے خود کو جیلوں میں ڈالنے کے لیے پیش کیا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہاں آمروں کی طرح منتخب حکومت تھی، 1973 کے آئین کے بعد مارشل لاء لگا دیا گیا، ہم کسی کو اپنا حق رائے دہی چھیننے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ ہم مختلف شہروں اور صوبوں سے لوگوں کے قتل کے بارے میں احتجاج کرتے اور سنتے رہے ہیں۔

سانگھڑ میں مظاہرین اسلامی مقدس کتاب پڑھ رہے تھے جب انھیں بے دردی سے قتل کیا گیا، تقریباً اٹھارہ افراد مارے گئے۔ خیرپور ناتھن شاہ کے واقعے کے بعد عوامی غم و غصہ عروج پر پہنچ گیا اور انھوں نے ضیاء کو صوبے میں داخل ہونے سے بھی روک دیا۔ دادو میںدو تین ہیلی پیڈ بھی بنائے گئے لیکن عوام نے ان کے ہیلی کاپٹرکو وہاں اترنے سے روک دیا۔

اس کے بعد، سمری کورٹس تشکیل دی گئیں، اور ہم نے لوگوں کو اپنے دفاع کے حق سے محروم کیے جانے، فیصلے سنائے جانے کی کہانیاں سنی تھیں اور یہ واقعات خاص طور پر پی پی پی کے اراکین اور ہمدردوں کو متاثر کرتے تھے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر، ہم نے لوگوں کے ووٹ کے حق کے دفاع کے لیے ایک اتحادی تحریک بنائی۔ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے باوجود ہم وکلاء تحریک کے مضبوط ترین اتحادی رہے ہیں۔


لوگوں کے لیے یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ 12 مئی کو جب پاکستان کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخارچوہدری نے کراچی میں بار کونسل سے خطاب کرنا تھا تو ہم معزز عدالتوں کے ساتھ کھڑے ہونے والوں میں شامل تھے۔ کراچی ایئر پورٹ پر ہم ان کا استقبال کرنے جا رہے تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ مخالف انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں نے وہ رکاوٹیں کھڑی کیں جو ہمیں سڑکوں پر آگے بڑھنے سے روک رہی تھیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اس دن کے اجالے کے سانحے میں جن 52 افراد کوکھو دیا، اس کے ذمے دار پرویز مشرف ہیں۔

اسی دن شام کو ہم نے پرویز مشرف کو راولپنڈی میں ایک جلسے میں طاقت کا مظاہرہ کرتے دیکھا۔ ہم 12 مئی کے شہداء کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، ان کے گورنر نے بعد میں معافی مانگی اور ان 52 جانوں کے لیے ہمدردی کا اظہارکیا۔ بہرحال، محترمہ نے واپسی کا فیصلہ کیا، اور ہم نے ہمیشہ ان سے اپنی قوم کو بچانے کے لیے ایسا کرنے کی تاکیدکی ہے۔

وقت بھی ان کی واپسی کے لیے بہترین تھا اور انتخابات کی تاریخ بھی آگئی تھیں، اگرچہ وہ اپنی زندگی کو لاحق خطرات اور ممکنہ خطرات سے آگاہ تھیں، اس کے باوجود انھوں نے 18 اکتوبر 2007 کو اپنے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ ملک بھر سے لوگ اپنے محبوب قائد کے استقبال کے لیے آئے تھے اور باقی تاریخ ہے۔

محترمہ کی غلطی کیا تھی؟ وہ صرف ووٹنگ کے حقوق، انتخابی شفافیت، اور عوام کے لیے اپنے لیڈر منتخب کرنے کی اہلیت کی درخواست کررہی تھیں۔ ہم محترمہ بے نظیر بھٹوکی قیادت میں اس لڑائی کے عمل سے گزرے۔ اختیارات کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے، محترمہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جان دینے کا فیصلہ کیا تاکہ ہم اور ہماری قوم زندہ رہے۔

جب وہ ہمارے اور اس ملک کے لوگوں کے لیے آئی تھیں تو محترمہ ہمیں بتاتی تھیں کہ ان کے خیال میں موت کسی بھی وقت آسکتی ہے، چاہے وہ یہاں ہو یا کہیں اور۔ ہماری قوم کے لوگ محترمہ کو ہمیشہ اپنے لیڈرکے طور پر یاد رکھیں گے اور پیپلز پارٹی کی قیادت ان کی جدوجہد اور جمہوریت کے لیے لگن کو آگے بڑھائے گی۔

حالیہ سیلاب نے بہت سے لوگوں کو رہنے کی جگہ نہیں چھوڑی، جس کی وجہ سے ہمارے لیے حالات کو سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ تاہم، بلاول بھٹو کی قیادت میں، ہم نے سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ ایفیکٹڈ پروگرام کا اعلان کیا، جو نہ صرف آپ کو گھر بنانے میں مدد کرتا ہے بلکہ متاثرہ افراد کو زمین کی ملکیت بھی دیتا ہے۔یہ اس بات کی ایک مثال ہے کہ ہم کس طرح اپنے نعرے، '' روٹی، کپڑا اور مکان'' پر پورا اترتے ہیں، جس کا مقصد لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا اور ان کے لیے ہمدردی کا اظہارکرنا ہے۔

اس لیے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ پی پی پی نے اپنے سابقہ نظریات بدل لیے ہیں یا صدر زرداری یا ان کی انتظامیہ بدل گئی ہے۔

ایک سیر حاصل گفتگوکے بعد، مجھے یہ احساس ہوا کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، اس کے بارے میں ہم واقعی زیادہ نہیں جانتے ہیں۔ میں قارئین سے گزارش کروں گا کہ اگلے انتخابات میں دیانت دار امیدواروںکو ووٹ دیں، آنے والے دنوں میں حالات میرے اور اس ملک کے دیگر نوجوانوں کے لیے بہتر ہوںگے۔ آخر میں، میں فیض احمد فیض کا حوالہ دوں گا۔

ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
Load Next Story