مذبح خانہ
اس نظر اور سوچ کے دھوکے سے نکلنے کا واحد راستہ نظریاتی و سیاسی جدوجہد اور طریقہ ہے
عوام کو ہمارے سیاسی تجزیہ کار بتا رہے ہیں کہ اب پاکستان کی سیاسی ہلچل ایک والہانہ انداز سے کروٹ لینے والی ہے اور بس عوام کو عنقریب سیاسی و آئینی حقوق ملنے والے ہیں، کیونکہ ملک ایک مستحکم جمہوری نظام لانے کی کوشش میں جتا ہوا ہے اور ہمارے حکمرانوں نے اپنی غلطیوں کی اصلاح کی ٹھان لی ہے، سو اب وہ عوام کو ان کے جمہوری حقوق دینے میں سنجیدہ ہو چکے ہیں۔
اسی تناظر میں چار سال کی جلا وطنی کاٹنے والے مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف بھی ملک میں آچکے ہیں لہٰذا نواز شریف کے آتے ہی عوام کی جمہوری آزادی شروع ہو جائے گی، پھر یہاں نہ ماڑی جلبانی میں تین جوان کسان مارے جائیں گے اور نہ کوئی شہری اور صحافی کا رات گئے اغوا ہو گا اور نہ کسی کو کسی بھی طرف سے لاپتہ ہونے کی خبر سنائی دے گی، غریب کی کٹھیا میں راشن ابلتا ہوا ملے گا اور ہر ادارے میں سفارش کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر افراد تعینات کیے جائیں گے۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا چڑیا گھر کے جانور بڑے بڑے پنجرے اور غذا کی تمام تر سہولیات کے بعد بھی کیا خود کو ''فطری آزادی'' ملنے کے داعی ہوتے ہوں گے، تو پھر اس خطے میں عالمی طاقتوں کی باقاعدہ منصوبہ بندی سے قائم کی جانے والی ریاست میں عوام کی جمہوری اور سیاسی آزادی کی باتیں آخر کیوں اور کس مقصد کے تحت کی جاتی ہیں۔
شاید ہم نے تو اب تک ''چڑیا گھر'' میں مقید جانوروں ایسی آزادی اور سہولیات بھی حاصل نہیں کیں تو پھر عوام کو واضح طور سے کیوں نہیں بتایا جاتا کہ وہ اب تک ریاست کے رہواسی ہیں، باقی سب کچھ نظر اور سوچ کا دھوکا ہے۔
اس نظر اور سوچ کے دھوکے سے نکلنے کا واحد راستہ نظریاتی و سیاسی جدوجہد اور طریقہ ہے، جس کی نس بندی قیام پاکستان سے ہی کرنا شروع کر دی گئی تھی مگر کیا کریں کہ ان سوشلسٹ فکر کے چراغوں کو تیز ہوا کے جھکڑ بھی اب تک نہیں بجھا سکے ہیں۔
ہمارے پنجاب کے کامریڈ پروفیسر امیر حمزہ ورک کا آج بھی یہی استدلال ہے کہ پاکستان تو کمزور اور غریب ریاست ٹھہری لیکن یہاں کے عوام کیا ٹھہرے؟ وہ صرف اس لیے بدحال نہیں ہیں کہ یہاں بھوک، جہالت، بیروزگاری، مہنگائی، افراط زر، اسمگلنگ، بدامنی، رشوت وغیرہ کا دور دورہ ہے بلکہ ہمارے عوام اس لیے بدحال ہیں کہ انھیں سیاسی شعور کی ہوا نہیں لگنے دی گئی اور سیاسی شعور کی عدم موجودگی سماج کی سیاسی جہالت ہی کہلائی جاتی ہے۔
سو طے یہ کرنا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے یا سیاسی جہالت؟ تو میرا جواب یہی ہو گا سیاسی جہالت ہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اسی لیے ہمارے ہاں پڑھے لکھے جاہل کی اصطلاح بھی عام ہے کہ اسکول، کالج کی ڈگری رکھنے کے باوجود ہمارے اکثر شہری سیاسی، سماجی، طبقاتی، تہذیبی شعور سے عاری ہیں۔پاکستان کے جاگیردار، سرمایہ دار سیاستدان اور سیاسی جماعتیںعوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں مصروف ہیں اور ایسی بحثیں جاری ہیں جن کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ
وہ بات سارے فسانے میں نہ تھی جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
جاگیردار، سرمایہ دار سیاستدان ایک دوسرے پر تنقید کر رہے اور ایک دوسرے کو اسٹبلشمنٹ سے ساز باز ہونے کے طعنے زبان زد عام ہیں، یہ ادھورا سچ ہے۔ نواز شریف کی واپسی کو طبقاتی اینگل سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ سماج میں ہر وقت ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے اور یہ ارتقاء ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہوتا ہے۔
طبقاتی جدوجہد یا متحارب طبقات کی آپسی کشمکش کے نتیجے میں دنیا سے قبائلی نظام کا خاتمہ ہوا، جاگیرداری کو شکست دے کر سرمایہ دارانہ نظام آیا پھر سرمایہ داری کو شکست دے کر سوشل ازم کا سورج طلوع ہوا اس کشمکش میں ہر طبقے کی سیاسی جماعتیں عمل انگیزی (cataylist) کا کام کرتی ہیں اور تبدیلی کے عمل میں تیزی وقوع پزیر ہو جاتی ہے۔
پاکستانی ریاست کے وسائل پیداوار پر تین طبقوں کا قبضہ ہے۔ 1۔سرمایہ دار (سول) 2۔افسر شاہی 3۔جاگیر دار
گزشتہ دو دہائیوں سے جاگیرداروں کا کردار اقتدار میں جونیئر پارٹنر کا ہے۔ پیر اور کچھ مذہبی قوتیں اس نظام کی reserve force ہیں اور اقتدار کے بڑے حصے پر قبضے کے لیے سول سرمایہ داروں اور افسر شاہی سرمایہ داروں کے درمیان طبقاتی کشمکش اور سمجھوتوں کے سلسلہ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، جب جب نواز شریف کو نکالا یا جیل میں ڈالا گیا۔
سول سرمایہ دار طبقہ کی کمزوری ظاہر ہوئی اور جب جب نواز شریف واپس اقتدار میں آیا مخالف قوتوں کی کمزوری ظاہر ہوئی۔ اس قسم کی طبقاتی کشمکش یا لڑائی کو علم سیاسیات میں سماج میں سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کی کشمکش کہا جاتا ہے جو ماضی میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے درمیان تھی اور گزشتہ دو دہائیوں سے سول سرمایہ داروں اور افسر شاہی سرمایہ داروں کے درمیان جاری ہے اور جاری رہے گی تا وقتیکہ سول سرمایہ دار طبقہ غالب آ کر پاکستانی ریاست پر اپنا اقتدار بلا شرکت غیرے قائم نہیں کر لیتا اور کسی بھی ریاست میں ایسی صورتحال کو سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کی تکمیل کہا جاتا ہے۔ یہ مرحلہ پاکستان میں کب آئے گا، ابھی اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
افسر شاہی اور سرمایہ داری کی نمایندہ قوتوں نے کئی بار اپنی پروردہ سیاسی جماعتیں پیدا کیں لیکن جدلی مادیت کے قوانین کے مطابق جب انڈے میں زندگی معرض وجود میں آ جاتی ہے تو پھر وہ زندگی جو چوزے کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو وہ چوزہ اپنی زندگی کے تحفظ کے لیے انڈے کے اس اوپری خول کو باہر نکلنے کے لیے توڑ دیتا ہے جس نے کسی وقت انڈے میں چوزے کی زندگی کی پیدائش کی حفاظت کی تھی، لہٰذا اس کشمکش میں جلد یا بدیر افسر شاہی سرمائے اور اس کی نمایندہ قوتوں کی شکست یقینی ہے، جب کہ سرمایہ دار اور ان کی نمایندہ سیاسی قوتوں کی فتح یقینی نظر آتی ہے۔
اس طبقاتی کشمکش میں اصل فریق محنت کش عوام کا بظاہر کوئی بنیادی کردار نظر نہیں آتا کیونکہ ایک تو ان کے مفادات کی نمایندہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اپنی انتشار پسندی کی وجہ سے کمزور ہیں اور دوسرا یہ کہ سیاسی جہالت کے اس سمندر میں محنت کش عوام سماجی، سیاسی اور طبقاتی شعور سے بہرہ مند نہیں ہو سکے ہیں، لہٰذا حکمرانوں کی طرح وہ بھی اس بات پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں کہ انھوں نے بشیر قصائی کے ہاتھوں ذبح ہونا ہے یا نذیر قصائی کے ہاتھوں قربان...؟
اسی تناظر میں چار سال کی جلا وطنی کاٹنے والے مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف بھی ملک میں آچکے ہیں لہٰذا نواز شریف کے آتے ہی عوام کی جمہوری آزادی شروع ہو جائے گی، پھر یہاں نہ ماڑی جلبانی میں تین جوان کسان مارے جائیں گے اور نہ کوئی شہری اور صحافی کا رات گئے اغوا ہو گا اور نہ کسی کو کسی بھی طرف سے لاپتہ ہونے کی خبر سنائی دے گی، غریب کی کٹھیا میں راشن ابلتا ہوا ملے گا اور ہر ادارے میں سفارش کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر افراد تعینات کیے جائیں گے۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا چڑیا گھر کے جانور بڑے بڑے پنجرے اور غذا کی تمام تر سہولیات کے بعد بھی کیا خود کو ''فطری آزادی'' ملنے کے داعی ہوتے ہوں گے، تو پھر اس خطے میں عالمی طاقتوں کی باقاعدہ منصوبہ بندی سے قائم کی جانے والی ریاست میں عوام کی جمہوری اور سیاسی آزادی کی باتیں آخر کیوں اور کس مقصد کے تحت کی جاتی ہیں۔
شاید ہم نے تو اب تک ''چڑیا گھر'' میں مقید جانوروں ایسی آزادی اور سہولیات بھی حاصل نہیں کیں تو پھر عوام کو واضح طور سے کیوں نہیں بتایا جاتا کہ وہ اب تک ریاست کے رہواسی ہیں، باقی سب کچھ نظر اور سوچ کا دھوکا ہے۔
اس نظر اور سوچ کے دھوکے سے نکلنے کا واحد راستہ نظریاتی و سیاسی جدوجہد اور طریقہ ہے، جس کی نس بندی قیام پاکستان سے ہی کرنا شروع کر دی گئی تھی مگر کیا کریں کہ ان سوشلسٹ فکر کے چراغوں کو تیز ہوا کے جھکڑ بھی اب تک نہیں بجھا سکے ہیں۔
ہمارے پنجاب کے کامریڈ پروفیسر امیر حمزہ ورک کا آج بھی یہی استدلال ہے کہ پاکستان تو کمزور اور غریب ریاست ٹھہری لیکن یہاں کے عوام کیا ٹھہرے؟ وہ صرف اس لیے بدحال نہیں ہیں کہ یہاں بھوک، جہالت، بیروزگاری، مہنگائی، افراط زر، اسمگلنگ، بدامنی، رشوت وغیرہ کا دور دورہ ہے بلکہ ہمارے عوام اس لیے بدحال ہیں کہ انھیں سیاسی شعور کی ہوا نہیں لگنے دی گئی اور سیاسی شعور کی عدم موجودگی سماج کی سیاسی جہالت ہی کہلائی جاتی ہے۔
سو طے یہ کرنا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے یا سیاسی جہالت؟ تو میرا جواب یہی ہو گا سیاسی جہالت ہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اسی لیے ہمارے ہاں پڑھے لکھے جاہل کی اصطلاح بھی عام ہے کہ اسکول، کالج کی ڈگری رکھنے کے باوجود ہمارے اکثر شہری سیاسی، سماجی، طبقاتی، تہذیبی شعور سے عاری ہیں۔پاکستان کے جاگیردار، سرمایہ دار سیاستدان اور سیاسی جماعتیںعوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں مصروف ہیں اور ایسی بحثیں جاری ہیں جن کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ
وہ بات سارے فسانے میں نہ تھی جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
جاگیردار، سرمایہ دار سیاستدان ایک دوسرے پر تنقید کر رہے اور ایک دوسرے کو اسٹبلشمنٹ سے ساز باز ہونے کے طعنے زبان زد عام ہیں، یہ ادھورا سچ ہے۔ نواز شریف کی واپسی کو طبقاتی اینگل سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ سماج میں ہر وقت ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے اور یہ ارتقاء ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہوتا ہے۔
طبقاتی جدوجہد یا متحارب طبقات کی آپسی کشمکش کے نتیجے میں دنیا سے قبائلی نظام کا خاتمہ ہوا، جاگیرداری کو شکست دے کر سرمایہ دارانہ نظام آیا پھر سرمایہ داری کو شکست دے کر سوشل ازم کا سورج طلوع ہوا اس کشمکش میں ہر طبقے کی سیاسی جماعتیں عمل انگیزی (cataylist) کا کام کرتی ہیں اور تبدیلی کے عمل میں تیزی وقوع پزیر ہو جاتی ہے۔
پاکستانی ریاست کے وسائل پیداوار پر تین طبقوں کا قبضہ ہے۔ 1۔سرمایہ دار (سول) 2۔افسر شاہی 3۔جاگیر دار
گزشتہ دو دہائیوں سے جاگیرداروں کا کردار اقتدار میں جونیئر پارٹنر کا ہے۔ پیر اور کچھ مذہبی قوتیں اس نظام کی reserve force ہیں اور اقتدار کے بڑے حصے پر قبضے کے لیے سول سرمایہ داروں اور افسر شاہی سرمایہ داروں کے درمیان طبقاتی کشمکش اور سمجھوتوں کے سلسلہ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، جب جب نواز شریف کو نکالا یا جیل میں ڈالا گیا۔
سول سرمایہ دار طبقہ کی کمزوری ظاہر ہوئی اور جب جب نواز شریف واپس اقتدار میں آیا مخالف قوتوں کی کمزوری ظاہر ہوئی۔ اس قسم کی طبقاتی کشمکش یا لڑائی کو علم سیاسیات میں سماج میں سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کی کشمکش کہا جاتا ہے جو ماضی میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے درمیان تھی اور گزشتہ دو دہائیوں سے سول سرمایہ داروں اور افسر شاہی سرمایہ داروں کے درمیان جاری ہے اور جاری رہے گی تا وقتیکہ سول سرمایہ دار طبقہ غالب آ کر پاکستانی ریاست پر اپنا اقتدار بلا شرکت غیرے قائم نہیں کر لیتا اور کسی بھی ریاست میں ایسی صورتحال کو سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کی تکمیل کہا جاتا ہے۔ یہ مرحلہ پاکستان میں کب آئے گا، ابھی اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
افسر شاہی اور سرمایہ داری کی نمایندہ قوتوں نے کئی بار اپنی پروردہ سیاسی جماعتیں پیدا کیں لیکن جدلی مادیت کے قوانین کے مطابق جب انڈے میں زندگی معرض وجود میں آ جاتی ہے تو پھر وہ زندگی جو چوزے کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو وہ چوزہ اپنی زندگی کے تحفظ کے لیے انڈے کے اس اوپری خول کو باہر نکلنے کے لیے توڑ دیتا ہے جس نے کسی وقت انڈے میں چوزے کی زندگی کی پیدائش کی حفاظت کی تھی، لہٰذا اس کشمکش میں جلد یا بدیر افسر شاہی سرمائے اور اس کی نمایندہ قوتوں کی شکست یقینی ہے، جب کہ سرمایہ دار اور ان کی نمایندہ سیاسی قوتوں کی فتح یقینی نظر آتی ہے۔
اس طبقاتی کشمکش میں اصل فریق محنت کش عوام کا بظاہر کوئی بنیادی کردار نظر نہیں آتا کیونکہ ایک تو ان کے مفادات کی نمایندہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اپنی انتشار پسندی کی وجہ سے کمزور ہیں اور دوسرا یہ کہ سیاسی جہالت کے اس سمندر میں محنت کش عوام سماجی، سیاسی اور طبقاتی شعور سے بہرہ مند نہیں ہو سکے ہیں، لہٰذا حکمرانوں کی طرح وہ بھی اس بات پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں کہ انھوں نے بشیر قصائی کے ہاتھوں ذبح ہونا ہے یا نذیر قصائی کے ہاتھوں قربان...؟