ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کی کمزوریاں آشکار ہونے لگیں
بیٹنگ متزلزل، بولنگ اعتماد سے عاری،فیلڈنگ ناقص
ایشیاکپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم نمبر ون کی حیثیت سے میدان میں اتری، بھارت اور پھر سری لنکا کے ہاتھوں شکست کی وجہ سے اعتماد متزلزل ہوا،اس دوران نسیم شاہ اور حارث رؤف کو انجریز بھی ہوئیں۔
ورلڈکپ اسکواڈ کا اعلان ہونے سے قبل ہی نسیم شاہ کی خدمات سے محرومی کی تصدیق ہوگئی تھی،ان کا اب آپریشن بھی ہوچکا ہے، بیک اپ میں موجود بولرز میں سے احسان اللہ بھی کہنی کی سرجری کی وجہ سے دستیاب نہیں تھے، محمد حسنین بھی فٹ نہیں تھے۔
اس صورتحال میں حسن علی کو 15رکنی اسکواڈ اور زمان خان کو ریزرو کے طور پر شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، ورلڈکپ میں ابھی تک حسن علی نے اپنے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قدرے بہتر بولنگ کی مگر بھارتی بولرز جسپریت بمرا اور محمد شامی جیسی کاٹ ان کی بولنگ میں نظر نہیں آئی، شاہین شاہ آفریدی سے بہترین کارکردگی کی امیدیں وابستہ تھیں مگر وہ نسیم شاہ کی عدم دستیابی کا زیادہ ہی بوجھ لے گئے۔
ابتدائی تینوں میچز میں پیسر کچھ زیادہ ہی کرنے کی کوشش میں اپنی روایتی کارکردگی بھی نہ دکھا پائے، کسی بھی ٹیم کا سب سے اہم بولر پرفارم نہیں کرتا تو پوری بولنگ لائن اپ کا مورال گر جاتا ہے، اسی صورتحال سے دوچار پاکستانی بولرز نظر آئے،شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ ابتدا میں وکٹیں اڑاتے تو حارث رؤف بھی دلیری سے بولنگ کرتے ہوئے حریف ٹیم کیلئے مشکلات پیدا کرتے، بھارتی کنڈیشنز میں ان کا صرف اسپیڈ پر انحصار بہت مہنگا ثابت ہوا ہے۔
بیٹرز نے حارث رؤف کی تیز گیندوں کو باؤنڈری کی سیر کرانے میں آسانی محسوس کی جس کی وجہ سے وہ پیس اٹیک میں پاکستان ٹیم کی کمزور کڑی ثابت ہوئے ہیں، ٹیم منیجمنٹ وسیم جونیئر کو شامل کرنے پر غور کرسکتی ہے مگر وہ بھی ہوش سے زیادہ جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے مار کھاتے ہیں، ون ڈے میچزِ، خاص طور پر بھارتی کنڈیشنز میں درمیانی اوورز میں رنز کی رفتار پر قابو پانا اور وکٹیں اڑانا انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
اس معاملے میں بھی پاکستان ٹیم کی کارکردگی پریشانی کا باعث رہی ہے،بھارتی کنڈیشنز میں لیفٹ آرم اسپنرز انتہائی کامیاب ہوتے ہیں مگر شاداب خان کے آؤٹ آف فارم ہونے سے محمد نواز کی پرفارمنس پر بھی اثر پڑا،دونوں سے تو پارٹ ٹائم بولرز افتخار احمد کی کارکردگی قدرے بہتر رہی، بھارت کیخلاف میچ میں میزبان بولرز کی کارکردگی ایک سبق تھی۔
ہردیک پانڈیا ابتدا میں بابراعظم کے اسٹروکس روکنے میں ناکام رہے تو سیکھا اور دوسرے اسپیل میں اپنی لائن و لینتھ تبدیلی کرتے ہوئے ناکامی کا ازالہ کرلیا، اس دوران کپتان روہت شرما نے گیند چمکانے سے گریز کیا تاکہ سیمرز کو وکٹ ٹو وکٹ بولنگ کرنے میں آسانی ہو، بابر اعظم اور دیگر پاکستانی کرکٹرز مسلسل گیند کو چمکانے کی کوشش میں رہے۔
بولرز نے لائن ولینتھ کے بجائے اسپیڈ کو ہتھیار بنایا جس سے بیٹرز نے تسلسل کے ساتھ اسٹروکس کھیلتے ہوئے ہدف کا حصول آسان بنالیا،نائب کپتان شاداب خان کو ڈراپ کرنے کا مشکل فیصلہ کرتے ہوئے اسامہ میر کو پلیئنگ الیون میں شامل کیا گیا تو دباؤ برداشت نہ کرسکے، ڈیوڈ وارنر کا 10پر کیچ ڈراپ کیا تو انھوں نے بولرز کے صبر کا امتحان لیا،اس غلطی کی وجہ سے پریشان اسامہ میر کی بطور بولر کارکردگی پر بھی اثر پڑا، کسی نوجوان کرکٹر کو اچانک بڑے میچ میں موقع دیا جائے تو دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: سازگار کنڈیشنز میں بیٹرز کی ریکارڈ سازی جاری
اس کے ذہن میں ہوتا ہے کہ میں ایک اسٹار کھلاڑی کی جگہ لے رہا ہوں،توقعات کا بوجھ اٹھانا ہے، ایسا نہ کرپایا تو کیریئر متاثر ہوگا، میگا ایونٹس میں اپنی غلطیوں سے مسلسل سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر پاکستانی کپتان اور بولرز اس معاملے میں بہت پیچھے نظر آئے، ڈراپ کیچز نے بولرز کی مشکلات میں اضافہ کیا، بہرحال شاہین شاہ آفریدی آسٹریلیا کیخلاف میچ میں اپنا اعتماد بحال کرتے دکھائی دیئے، فیلڈنگ میں بھی نمایاں بہتری لانے ہوگی۔
بیٹنگ میں پاکستان کا کمبی نیشن کارکردگی میں تسلسل نہیں لاسکا، ایشیا کپ میں مسلسل ناکام ہونے والے فخرزمان ایشیائی کنڈیشنز کیلئے موزوں اوپنر نہیں، عام شائقین بھی جانتے ہیں کہ جہاں گیند بیٹ پر نہ آتی ہو ان کی جارحیت دم توڑ جاتی ہے، دفاعی کھیل کے وہ عادی نہیں، انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ان سے بہتر کارکردگی کی توقع کرسکتے ہیں مگر سری لنکا میں ان کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اسی وقت عبداللہ شفیق کو مواقع اور اعتماد دینے کی ضرورت تھی۔
باآخر سری لنکا سے ورلڈکپ میچ میں فخر زمان کو باہر بٹھانے کا فیصلہ کرلیا گیا، عبداللہ شفیق نے سنچری بنائی اور پاکستان نے ریکارڈ ہدف عبور بھی کرلیا، امام الحق ابتدا میں پریشان رہے، آسٹریلیا کیخلاف میچ میں اچھی اننگز کھیلی، محمد رضوان بھی بھارتی پچز سے جلد ہم آہنگ ہوئے ہیں مگر بابر اعظم کپتانی کے بوجھ تلے دبے نظر آتے ہیں۔
سعود شکیل نے بھی ایک اچھی اننگز کھیلی مگر مجموع ی طور پر سیٹ ہونے کے بعد وکٹ گنوا کر پاکستانی بیٹنگ لائن کیلئے مشکلات بڑھاتے رہے ہیں، مڈل آرڈر میں تیزی سے وکٹیں گرنے کا دباؤ افتخار احمد پر آتا ہے،انھوں نے ہر اننگز میں ٹیم کی ضرورت کے مطابق بیٹنگ کی کوشش ضرور کی ہے مگر میچ فنش کرنے میں ناکام ہوتے رہے ہیں۔
آسٹریلیا کیخلاف میچ میں ان کا کریز پر مزید 4 اوورز کیلئے قیام پاکستان کو فتح کے قریب کردیتا مگر ایڈم زیمپا کی گگلی سمجھ نہیں پائے،شاداب خان اور محمد نواز کسی موقع پر بیٹ سے بھی آل راؤنڈر کا کردار ادا کرتے نظر نہیں آئے۔
ورلڈکپ میں پاکستان نے ابھی تک 4میچز میں 2شکستوں کے ساتھ اپنا سفر دشوار کرلیا ہے،ابھی 6 میچ باقی ہیں، صرف اسی سوچ کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا کہ اگر افغانستان کی ٹیم انگلینڈ کو ہراسکتی ہے، جنوبی افریقہ کو نیدرلینڈز زیر کرسکتا ہے تو پاکستان ان کیخلاف فتح کیوں حاصل نہیں کرسکتا۔