پاکستان پوسٹ نے مہنگی جگہیں کوڑیوں کے مول کرائے پر دیدیں
عمارات سے کرائے کی مدمیں صرف 6کروڑ 23لاکھ روپے سالانہ آمدنی ہورہی ہے جو کہ اوپن مارکیٹ کے لحاظ سے کئی گنا کم ہے۔
KARACHI:
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان پوسٹ کے اعلیٰ حکام کی غفلت کے باعث ملک کے اہم شہروں میں قائم 20عمارات سے کرائے کی مدمیں صرف 6کروڑ 23لاکھ روپے سالانہ آمدنی ہورہی ہے جو کہ اوپن مارکیٹ کے لحاظ سے کئی گنا کم ہے۔
پاکستان پوسٹ نے ادارے کی 20عمارتیں سرکاری، نجی ونیم سرکاری اداروں کو کرائے پر دی ہوئی ہیں۔ یہ عمارتیں، لاہور، کراچی، اسلام آباد، آزاد کشمیر اور ملتان کے اہم تجارتی اور مہنگے علاقوں میں واقع ہیں جن کی مارکیٹ ویلیو اربوں روپے میں ہے۔ کرایہ کی مد میں بھی ان عمارتوں سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل کرکے سرکاری خزانے کو خاطر خواہ منافع پہنچایا جاسکتا ہے۔ پاکستان پوسٹ کے اعلیٰ حکام نے سینیٹ کی قائم کمیٹی کو گذشتہ دنوں میں بتایا کہ لاہور میں پاکستان پوسٹ کی 11عمارات کرائے پر دی گئی ہیں جن سے صرف 21 لاکھ سالانہ کرایہ وصول کیا جارہا ہے، ملتان میں 2عمارتوں سے صرف 5لاکھ سالانہ کرایہ وصول کیا جارہا ہے، ذرائع کے مطابق ان اعدادوشمار کا انکشاف سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمی برائے مواصلات کے اجلاس میں ہوا جو اسلام آباد پارلیمنٹ ہائوس میں گذشتہ دنوں منعقد ہوا، اجلاس کی صدارت سینیٹر محمد دائود خان اچکزئی نے کی۔
اجلاس میں کمیٹی کے اراکین اور پوسٹ آفس کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے، اجلاس میں دلچسپ صورتحال اس وقت پیش آئی جب سینیٹرز کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر ڈائریکٹر جنرل پوسٹ آفس اور دیگر افسران عمارتوں کے درست مقام کے بارے میں نہ بتا سکے۔ نہ ہی یہ افسران کمیٹی کے اراکین کو عمارتوں کے کرائے کے نرخوں پر مطمئن کرسکے کہ کس فارمولے کے تحت یہ عمارات انتہائی کم نرخوں پردی گئی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان پوسٹ راولپنڈی میں قائم ایک عمارت سے80 لاکھ سالانہ روپے سالانہ کرایہ وصول کررہی ہے جبکہ 7لاکھ 30ہزار روپے کرایہ اسلام آباد اور آزاد کشمیر میں قائم عمارتوں سے سالانہ وصول کیا جارہا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان پوسٹ کے اعلیٰ حکام کی غفلت کے باعث ملک کے اہم شہروں میں قائم 20عمارات سے کرائے کی مدمیں صرف 6کروڑ 23لاکھ روپے سالانہ آمدنی ہورہی ہے جو کہ اوپن مارکیٹ کے لحاظ سے کئی گنا کم ہے۔
پاکستان پوسٹ نے ادارے کی 20عمارتیں سرکاری، نجی ونیم سرکاری اداروں کو کرائے پر دی ہوئی ہیں۔ یہ عمارتیں، لاہور، کراچی، اسلام آباد، آزاد کشمیر اور ملتان کے اہم تجارتی اور مہنگے علاقوں میں واقع ہیں جن کی مارکیٹ ویلیو اربوں روپے میں ہے۔ کرایہ کی مد میں بھی ان عمارتوں سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل کرکے سرکاری خزانے کو خاطر خواہ منافع پہنچایا جاسکتا ہے۔ پاکستان پوسٹ کے اعلیٰ حکام نے سینیٹ کی قائم کمیٹی کو گذشتہ دنوں میں بتایا کہ لاہور میں پاکستان پوسٹ کی 11عمارات کرائے پر دی گئی ہیں جن سے صرف 21 لاکھ سالانہ کرایہ وصول کیا جارہا ہے، ملتان میں 2عمارتوں سے صرف 5لاکھ سالانہ کرایہ وصول کیا جارہا ہے، ذرائع کے مطابق ان اعدادوشمار کا انکشاف سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمی برائے مواصلات کے اجلاس میں ہوا جو اسلام آباد پارلیمنٹ ہائوس میں گذشتہ دنوں منعقد ہوا، اجلاس کی صدارت سینیٹر محمد دائود خان اچکزئی نے کی۔
اجلاس میں کمیٹی کے اراکین اور پوسٹ آفس کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے، اجلاس میں دلچسپ صورتحال اس وقت پیش آئی جب سینیٹرز کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر ڈائریکٹر جنرل پوسٹ آفس اور دیگر افسران عمارتوں کے درست مقام کے بارے میں نہ بتا سکے۔ نہ ہی یہ افسران کمیٹی کے اراکین کو عمارتوں کے کرائے کے نرخوں پر مطمئن کرسکے کہ کس فارمولے کے تحت یہ عمارات انتہائی کم نرخوں پردی گئی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان پوسٹ راولپنڈی میں قائم ایک عمارت سے80 لاکھ سالانہ روپے سالانہ کرایہ وصول کررہی ہے جبکہ 7لاکھ 30ہزار روپے کرایہ اسلام آباد اور آزاد کشمیر میں قائم عمارتوں سے سالانہ وصول کیا جارہا ہے۔