یہ غریب مسکین ناجائز منافع خور
اشیا ئے ضروریہ کی بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کی 76 سالوں میں قانون سازی نہ کیے جانے پر سندھ ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت سے ایک ہفتے کی مہلت دے کر جواب طلب کر لیا ہے۔
یہ حکم ایک وکیل کی درخواست پر دیا گیا جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے گورنر جنرل کا حلف لینے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں بلیک مارکیٹنگ کے لیے قانون سازی کا حکم دیا تھا مگر 76 سالوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے آج تک بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی روکنے کے لیے قانون سازی نہیں کی۔
عدالت نے احکام کے باوجود تحریری جواب جمع نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا اور جواب جمع کرانے کے لیے ایک اور مہلت دے دی ہے اور سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں کی گئی قانون سازی کی توثیق کی کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے مگر ہماری یہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں اپنے مفاد کی لاتعداد قانون سازی عجلت میں کر لیتی ہیں مگر انھیں بانی پاکستان کی ہدایت اس لیے یاد نہیں کہ جن گورنر جنرل نے عوام کے لیے یہ ہدایت کی تھی وہ 1948 ہی میں وفات پا گئے تھے اس لیے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے بانی کے خطاب کی لاج رکھ لیتے اور عوامی مفاد کے لیے بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی روکنے کی قانون سازی کرلیتے۔
ملک میں اس وقت قومی و صوبائی اسمبلیاں موجود نہیں،اس لیے نگراں حکومت سے کوئی توقع نہیں کہ وہ قانون سازی کرا لے گی مگر شاید ایک ہفتے میں یہ جواب جمع کرا دیا جائے کہ ملک میں قانون سازی کرنے والے ادارے موجود نہیں ہیں۔
ظاہر ہے کہ سماعت اسمبلیوں کے الیکشن کے بعد آیندہ سال تک ملتوی ہو جائے اور جو کام 76 سالوں میں نہیں ہوا وہ اسمبلیوں کی غیر موجودگی میں کیسے ہو سکتا ہے۔
کراچی میں دودھ فروخت کرنے والوں نے حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ میں درخواست کی ہے کہ کمشنر کراچی نے ان کی مرضی کے خلاف دودھ کی قیمت دو سو تیس روپے سے کم کرکے دو سو روپے لیٹر مقرر کردی ہے جو غیر قانونی ہے اور ہم دودھ اس قیمت پر فروخت نہیں کرسکتے اس لیے ہمیں من مانی قیمت وصول کرنے کی حسب سابق اجازت دی جائے۔
کمشنر کراچی نے پہلی بار دودھ کی سرکاری قیمت مقرر کی اور اس پر عمل بھی کرایا۔ دودھ فروشوں پر چھاپے، جرمانے اور گرفتاریوں سے گھبرا کر ڈیری والے عدالت پہنچ گئے ہیں۔ یہ معاملات پہلے بھی عدلیہ تک آتے رہے مگر عوام کے حق میں کبھی فیصلہ نہیں آیا۔ کراچی کی انتظامیہ ماضی میں برسوں بعد دودھ کی قیمت مقرر کرتی رہی مگر عمل نہ کرا سکی کیونکہ ڈیری مافیا بہت طاقتور ہے۔
مہنگے وکیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور من مانیوں کی عادی اور کراچی کے سابق کمشنر ان کے آگے بے بس رہے ہیں اور عدالتوں میں ایسے معاملات پر کبھی جلد فیصلے نہیں ہوئے۔ عدالتوں نے ڈیری مافیا سے کبھی نہیں پوچھا کہ کراچی میں دودھ اور دہی ملک بھر میں سب سے مہنگا کیوں فروخت ہوتا آرہا ہے۔
کراچی میں سال بھر دودھ مختلف نرخوں پر کیوں فروخت ہوتا ہے۔ دودھ کا معیار کیوں چیک نہیں ہوتا۔ ڈیری مافیا پہلے سال میں ایک بار دودھ مہنگا کرتی تھی مگر اب وہ جب چاہے دودھ کی قیمت بڑھا دیتی ہے۔ عوامی احتجاج پر کراچی انتظامیہ جب بھی دودھ کا نرخ مقرر کرتی تھی مگر اس پر عمل کبھی نہیں ہوا۔
کراچی انتظامیہ کبھی کبھی پھلوں کو ایک نمبر یا دو نمبر قرار دے کر اس کے نرخ بھی مقرر کرتی رہی ہے مگر دودھ کبھی ایک یا دو نمبر قرار نہیں دیا گیا بلکہ اب تو ملک میں تین نمبر دودھ مصنوعی طریقے سے بنایا جا رہا ہے جو مضر صحت ہے مگر پنجاب کے سوا کہیں دودھ کا معیار چیک نہیں ہوتا اور باقی جگہوں پر سفید نظر آنے والا دودھ مختلف نرخوں پر ملتا ہے کیونکہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔
روزمرہ کی اشیا میں دودھ واحد چیز ہے جو ہر گھر کی اشد ضرورت ہے اور ہر گھر میں اپنی مالی طاقت کے مطابق خریدا جاتا ہے اور مہنگا ہونے کی وجہ سے دودھ کی طلب کم ہوئی ہے مگر ڈیری مافیا نرخ بڑھانے سے باز نہیں آ رہی اور نقصان کا رونا رونے کی عادی ہو چکی ہے۔
ڈیری مافیا اور دودھ فروش ضرورت سے زیادہ کما رہے ہیں جس کا ثبوت ان کی بڑھتی ہوئی دکانیں، باڑے اور باڑوں میں بڑھتی ہوئی بھینسیں اور اندرون ملک ان کی وسیع ہوتی ہوئی جائیدادیں ہیں۔ گاہک بڑھانے کے لیے دودھ فروش سیل کم ہونے پر نرخ کم زیادہ کرتے رہتے ہیں اور اضافی دودھ کی اسکیمیں بھی چلاتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دودھ کا کاروبار نقصان کا نہیں اندھی کمائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے اور دودھ مافیا عوام کو مسلسل لوٹ رہا ہے۔
غریب، مسکین ان ناجائز منافع خوروں میں فٹ پاتھوں اور دکانوں میں جگہ جگہ ٹائروں کے پنکچر لگانے والے اور گلی محلوں اور بازاروں میں موجود بال کاٹنے والے ہیئر کٹنگ سیلون بھی ان لوگوں کی اندھا دھند کمائی کا اہم ذریعہ ہیں اور ہر کوئی مرضی کے نرخ وصول کر رہا ہے۔
پنکچر کہیں بھی ہو سکتا ہے اور قریبی جگہ سے لگوانا پڑتا ہے اور پنکچر والے نہ صرف منہ مانگے پنکچر اور ٹیوبوں کے دام وصول کرتے ہیں بلکہ خود پنکچر بڑھا بھی دیتے ہیں۔ہول سیل منڈیوں اور عام دکانوں پر پھل اور سبزیوں کے نرخوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور نرخ آویزاں کیے بغیر لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔
چینی کی قیمت بڑھتے ہی مٹھائی و بیکری مصنوعات کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں مگر چینی کے نرخ کم ہو جانے پر نرخوں میں کمی نہیں ہوتی۔ مٹھائی، بیکری آئٹمز کا معیار کوئی چیک و بیلنس نہیں۔ اسی طرح کے بے شمار کاروبار ہیں جہاں عوام کو بری طرح لوٹ جاتا ہے جن میں ریسٹورنٹس اور بار بی کیو ریستوران بھی شامل ہیں اور جن کے نام مشہور ہوگئے وہ صرف نام کے باعث کروڑوں میں کھیل رہے ہیں جن کی قیمتیں چیک ہوتی ہیں نہ معیار ہر کوئی عوام کو لوٹنے میں مصروف ہے۔
یہ حکم ایک وکیل کی درخواست پر دیا گیا جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے گورنر جنرل کا حلف لینے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں بلیک مارکیٹنگ کے لیے قانون سازی کا حکم دیا تھا مگر 76 سالوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے آج تک بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی روکنے کے لیے قانون سازی نہیں کی۔
عدالت نے احکام کے باوجود تحریری جواب جمع نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا اور جواب جمع کرانے کے لیے ایک اور مہلت دے دی ہے اور سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں کی گئی قانون سازی کی توثیق کی کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے مگر ہماری یہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں اپنے مفاد کی لاتعداد قانون سازی عجلت میں کر لیتی ہیں مگر انھیں بانی پاکستان کی ہدایت اس لیے یاد نہیں کہ جن گورنر جنرل نے عوام کے لیے یہ ہدایت کی تھی وہ 1948 ہی میں وفات پا گئے تھے اس لیے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے بانی کے خطاب کی لاج رکھ لیتے اور عوامی مفاد کے لیے بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی روکنے کی قانون سازی کرلیتے۔
ملک میں اس وقت قومی و صوبائی اسمبلیاں موجود نہیں،اس لیے نگراں حکومت سے کوئی توقع نہیں کہ وہ قانون سازی کرا لے گی مگر شاید ایک ہفتے میں یہ جواب جمع کرا دیا جائے کہ ملک میں قانون سازی کرنے والے ادارے موجود نہیں ہیں۔
ظاہر ہے کہ سماعت اسمبلیوں کے الیکشن کے بعد آیندہ سال تک ملتوی ہو جائے اور جو کام 76 سالوں میں نہیں ہوا وہ اسمبلیوں کی غیر موجودگی میں کیسے ہو سکتا ہے۔
کراچی میں دودھ فروخت کرنے والوں نے حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ میں درخواست کی ہے کہ کمشنر کراچی نے ان کی مرضی کے خلاف دودھ کی قیمت دو سو تیس روپے سے کم کرکے دو سو روپے لیٹر مقرر کردی ہے جو غیر قانونی ہے اور ہم دودھ اس قیمت پر فروخت نہیں کرسکتے اس لیے ہمیں من مانی قیمت وصول کرنے کی حسب سابق اجازت دی جائے۔
کمشنر کراچی نے پہلی بار دودھ کی سرکاری قیمت مقرر کی اور اس پر عمل بھی کرایا۔ دودھ فروشوں پر چھاپے، جرمانے اور گرفتاریوں سے گھبرا کر ڈیری والے عدالت پہنچ گئے ہیں۔ یہ معاملات پہلے بھی عدلیہ تک آتے رہے مگر عوام کے حق میں کبھی فیصلہ نہیں آیا۔ کراچی کی انتظامیہ ماضی میں برسوں بعد دودھ کی قیمت مقرر کرتی رہی مگر عمل نہ کرا سکی کیونکہ ڈیری مافیا بہت طاقتور ہے۔
مہنگے وکیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور من مانیوں کی عادی اور کراچی کے سابق کمشنر ان کے آگے بے بس رہے ہیں اور عدالتوں میں ایسے معاملات پر کبھی جلد فیصلے نہیں ہوئے۔ عدالتوں نے ڈیری مافیا سے کبھی نہیں پوچھا کہ کراچی میں دودھ اور دہی ملک بھر میں سب سے مہنگا کیوں فروخت ہوتا آرہا ہے۔
کراچی میں سال بھر دودھ مختلف نرخوں پر کیوں فروخت ہوتا ہے۔ دودھ کا معیار کیوں چیک نہیں ہوتا۔ ڈیری مافیا پہلے سال میں ایک بار دودھ مہنگا کرتی تھی مگر اب وہ جب چاہے دودھ کی قیمت بڑھا دیتی ہے۔ عوامی احتجاج پر کراچی انتظامیہ جب بھی دودھ کا نرخ مقرر کرتی تھی مگر اس پر عمل کبھی نہیں ہوا۔
کراچی انتظامیہ کبھی کبھی پھلوں کو ایک نمبر یا دو نمبر قرار دے کر اس کے نرخ بھی مقرر کرتی رہی ہے مگر دودھ کبھی ایک یا دو نمبر قرار نہیں دیا گیا بلکہ اب تو ملک میں تین نمبر دودھ مصنوعی طریقے سے بنایا جا رہا ہے جو مضر صحت ہے مگر پنجاب کے سوا کہیں دودھ کا معیار چیک نہیں ہوتا اور باقی جگہوں پر سفید نظر آنے والا دودھ مختلف نرخوں پر ملتا ہے کیونکہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔
روزمرہ کی اشیا میں دودھ واحد چیز ہے جو ہر گھر کی اشد ضرورت ہے اور ہر گھر میں اپنی مالی طاقت کے مطابق خریدا جاتا ہے اور مہنگا ہونے کی وجہ سے دودھ کی طلب کم ہوئی ہے مگر ڈیری مافیا نرخ بڑھانے سے باز نہیں آ رہی اور نقصان کا رونا رونے کی عادی ہو چکی ہے۔
ڈیری مافیا اور دودھ فروش ضرورت سے زیادہ کما رہے ہیں جس کا ثبوت ان کی بڑھتی ہوئی دکانیں، باڑے اور باڑوں میں بڑھتی ہوئی بھینسیں اور اندرون ملک ان کی وسیع ہوتی ہوئی جائیدادیں ہیں۔ گاہک بڑھانے کے لیے دودھ فروش سیل کم ہونے پر نرخ کم زیادہ کرتے رہتے ہیں اور اضافی دودھ کی اسکیمیں بھی چلاتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دودھ کا کاروبار نقصان کا نہیں اندھی کمائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے اور دودھ مافیا عوام کو مسلسل لوٹ رہا ہے۔
غریب، مسکین ان ناجائز منافع خوروں میں فٹ پاتھوں اور دکانوں میں جگہ جگہ ٹائروں کے پنکچر لگانے والے اور گلی محلوں اور بازاروں میں موجود بال کاٹنے والے ہیئر کٹنگ سیلون بھی ان لوگوں کی اندھا دھند کمائی کا اہم ذریعہ ہیں اور ہر کوئی مرضی کے نرخ وصول کر رہا ہے۔
پنکچر کہیں بھی ہو سکتا ہے اور قریبی جگہ سے لگوانا پڑتا ہے اور پنکچر والے نہ صرف منہ مانگے پنکچر اور ٹیوبوں کے دام وصول کرتے ہیں بلکہ خود پنکچر بڑھا بھی دیتے ہیں۔ہول سیل منڈیوں اور عام دکانوں پر پھل اور سبزیوں کے نرخوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور نرخ آویزاں کیے بغیر لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔
چینی کی قیمت بڑھتے ہی مٹھائی و بیکری مصنوعات کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں مگر چینی کے نرخ کم ہو جانے پر نرخوں میں کمی نہیں ہوتی۔ مٹھائی، بیکری آئٹمز کا معیار کوئی چیک و بیلنس نہیں۔ اسی طرح کے بے شمار کاروبار ہیں جہاں عوام کو بری طرح لوٹ جاتا ہے جن میں ریسٹورنٹس اور بار بی کیو ریستوران بھی شامل ہیں اور جن کے نام مشہور ہوگئے وہ صرف نام کے باعث کروڑوں میں کھیل رہے ہیں جن کی قیمتیں چیک ہوتی ہیں نہ معیار ہر کوئی عوام کو لوٹنے میں مصروف ہے۔