اسرائیلی دہشت گردی پر دنیا کی بے حسی سوالیہ نشان

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے حامی ممالک نے جنگ بندی کی قرار داد بھی منظور نہیں ہونے دی

پاکستان، فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے، نیتن یاہو دنیا کا بڑا مجرم، غزہ پر حملہ سوچی سمجھی سازش ، ہسپتال پر بمباری افسوناک، جنگ فوری طور پر نہ رکی تو خطرناک نتائج برآمد ہونگے: تجزیہ کاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

فلسطین پر اسرائیلی ظلم و بربریت دہائیوں سے جاری ہے۔ فلسطین پر قبضہ اسرائیل کا ایجنڈہ ہے اسی لیے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنا قبضہ بڑھاتا جا رہا ہے۔

اب غزہ میں دو ہفتے سے زائد سے شدید بمباری کی جا رہی ہے جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور اس تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔

اسرائیل، غزہ میں انسانیت سوز سلوک کر رہا ہے۔ وہاں ہسپتال پر میزائل داغ کر اسے تباہ کر دیا، زیر علاج مریضوں اور زخمیوں کو ، جو بالکل نہتے تھے شہید کر دیا گیا۔ اس ظلم کی کوئی دوسری مثال نہیںملتی۔ یہ باعث افسوس ہے کہ امریکا اور برطانیہ پوری طرح اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے حامی ممالک نے جنگ بندی کی قرار داد بھی منظور نہیں ہونے دی۔ دوسری طرف چین، روس سمیت اسلامی ممالک فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دنیا بھر میں اسرائیل کی مذمت اور فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے۔

اس اہم مسئلے کو دیکھتے ہوئے ''اسرائیلی جارحیت اور دنیا کا کردار'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف تجزیہ کاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

(دفاعی تجزیہ نگار)

فلسطینیوں کی نسل کشی اور فلسطین پر قبضہ صیہونیوں کی 122 سالہ جدوجہد اور پلاننگ کا نتیجہ ہے۔1897ء میں سوئزرلینڈ میں زاؤنسٹ کانفرنس ہوئی۔ زاؤن فلسطین میں ہے،اس لیے وہ اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

فلسطین میں نسل کشی اور علاقے پر قبضہ کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس حوالے سے انفرادی اور اجتماعی کوششیں بھی جاری ہیں۔

برطانیہ مکمل طور پر اسرائیل کے ساتھ ہے۔ فلسطین میں صرف مسلمان ہی نہیں دیگر مذاہب کے پیروکار بھی رہتے ہیں لہٰذا وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تمام مذاہب کی توہین اور ان کے ماننے والوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے، 1948ء سے پہلے ساری زمین فلسطین کی تھی مگر اب وہاں 78 فیصد یہودی اور22فیصد فلسطینی ہیں۔ یہ ظلم کی انتہا ہے، انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے۔

جرمنی کو آج بھی ہولوکاسٹ کے نام پر دبا کے رکھا جاتا ہے۔ امریکا اور فرانس،ا سرائیل کے ساتھ ہیں۔ امریکا نے سب سے پہلے اعلان کیا تھا کہ ہم اسرائیل کی ہر ممکن مدد کریں گے،ا س کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ عملی طور پر اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔

نیتن یاہو دنیا کا سب سے بڑا مجرم ہے، نریندر مودی اور اس کی سوچ ملتی ہے، اگر نیتن یاہو اقتدار میں نہ ہو تو یہ جیل میں ہوگا۔ غزہ پر بمباری کے ذریعے اسرائیل اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، برطانیہ اور امریکا اس جرم میں اسے ساتھ ہیں، اگر بڑی طاقتیں دہشت گردوں کو سپورٹ کریں گی تو پھر کبھی مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا۔

اس سے دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، نئی تنظیمیں سامنے آسکتی ہیں جو ان کے خلاف عمل کریں۔ اسلامی ممالک کے کردار کی بات کریں تو افسوس ہے کہ 11 روز بعد اسلامی ممالک نے کانفرنس بلائی، اس سے ان کی طاقت اور سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ جنگ روکی جائے تاکہ مزید جانیں ضائع نہ ہوں۔

ایران، ترکی، چین، روس و دیگر ممالک اسرائیل کی مخالفت تو کر رہے ہیں لیکن کوئی ایکشن مشکل نظر آرہا ہے۔ غزہ کی تباہی صیہونیوں اور نیتن یاہو کا ایجنڈہ ہے،اب جو کچھ ہو رہا ہے یہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا ہے، مسلمان چپ رہے تو مسائل سنگین ہوں گے۔ میرے نزدیک موجودہ حالات میں سعودی عرب کا کردار انتہائی اہم ہوگیا ہے۔

معاملات ڈیڈ اینڈ پر ہیں، روس اپنی جنگ میں ہے، چین جنگ میں شامل نہیں ہوگا، امریکا بھی الجھا ہوا ہے، معاملات گھمبیر نہیں ہونگے لیکن اگر جاری رہے تو نقصان فلسطین کا ہوگا لہٰذا سفارتی کوششیں تیز کرنا ہونگی۔ اسرائیل نے فلسطین میں ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ہے، وہاں بچوں اور خواتین کو مارا جا رہا ہے، آبادی پر بمباری کی جارہی ہے ۔

اسرائیل نے ہسپتال پر بمباری کی جو غیر انسانی ہے۔ وہاں ڈاکٹرز موجود رہے جن کی ویڈیو آئی کہ ہم یہاں سے نہیں جائینگے۔ اسرائیل کے حامی انسان دشمن ہیں۔ انہوں نے جنگ بندی کی قرارداد منظور نہیں ہونے دی۔ یہ وقت ہے کہ انسان دوست متحد ہوجائیں اور بھرپور کوشش سے جنگ بندی کروائیں اور اسرائیل کے ایجنڈے کو ناکام بنائیں۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

(ماہر امور خارجہ )


مشرق وسطیٰ میں ایک نئے بحران نے جنم لیا ہے۔ یہ انسانیت کا بحران ہے جس نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے، ہزاروں شہید ہوگئے ہیں جس پر خود یورپ میں شور مچ گیا ہے کہ اسرائیل حماس کو نہیں فلسطینیوں کو مار رہا ہے۔

اب اسرائیل کی جانب سے ہسپتال پر حملہ کر دیا گیا جو فرعونیت اور بے حسی کی انتہا ہے۔ اس پر دنیا بھر میں احتجاج کیا گیا ہے اور اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے۔

1948ء سے اب تک اسرائیل اپنی ڈکلیئرڈ پالیسی کے تحت اپنا نقشہ جاری نہیں کرتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فلسطین پر اپنا قبضہ بڑھاتا جا رہا ہے، 1967ء ، 1973ء اور اب بھی ہم یہ دیکھ رہے ہیں لہٰذا اسرائیل کی پالیسی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ یہ جنگ جلد ختم ہونے والی نہیں۔

اب اسرائیل کی جانب سے غزہ میں سب ملیا میٹ کر دیا جائے گا اور پھر سکیورٹی کے نام پر وہاں اپنی فوج کے ذریعے قبضہ جمایا جائے گا۔اسرائیل اور سعودی عرب کی بات چل رہی تھی جس میں فلسطین کے حوالے سے بات ہونی تھی کہ اچانک یہ جنگ کا معاملہ ہوگیا۔ اسرائیل نے جب یہ دعویٰ کیا کہ اس کے 900 شہری مارے گئے ہیں اسی دن اندازہ ہوگیا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ اس طرح سعودی عرب سے فلسطین کے معاملے کو ختم کر دیا گیا۔

اسرائیل نے حماس کو دہشت گرد کہا ہے مگر اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اس میں ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں ہے، سویلین مارے جا رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔جو بھی اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں ان پر افسوس ہوتا ہے،ا گر انہیںانسانیت کا احساس ہوتا تو ایسا نہ کرتے۔

امریکا نے اپنا بحری بیڑہ بھیج دیا، برطانیہ بھی پوری طرح اسرائیل کی سپورٹ کر رہا ہے، برطانوی وزیراعظم نے اسرائیلی صدرسے ملاقات کی، میرے نزدیک بڑی جنگ کا خطرہ نہیں،نہ ہی کسی عرب ملک میں اس کی صلاحیت ہے۔

امریکا اور برطانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ سپین اور جنوبی افریقہ نے مخالفت کی ہے، عرب ریاستوں میں دور اندیشی نہیں ہے، ابھی تک اسلامی ممالک کی طرف سے فلسطین کیلئے کوئی امدادی فنڈ قائم نہیں کیا گیا۔ افسوس ہے کہ اسلامی ممالک ''لپ سروسنگ'' کر رہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے مسلسل سفارتی اقدامات کی ضرورت ہے۔

اسلامی ممالک کو بھر پور انداز میں یہ معاملہ اقوام متحدہ و دیگر فورمز پر اٹھانا چاہیے۔ چین اور روس کی سپورٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹھوس اقدامات کی طرف جانا چاہیے۔ فلسطین کا کرائسس بڑے پلان کا حصہ ہے، اس کی تیاری پہلے کی گئی ہے۔

وہاں ایک المیہ جنم لے چکا ہے، 22 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بدقسمتی سے ہم فلسطین کے حل سے دور چلے گئے ہیں، تمام اسلامی ممالک کو سفارتی محاذ پر مشترکہ کوشش کرنی چاہیے، صرف مذاکرات سے ہی جنگ بندی ہوسکتی ہے، بصورت دیگر بہت نقصان ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل خود کو وسعت دینے کیلئے فلسطین میں اتنی بمباری کرے گا کہ وہاں دوبارہ آباد کاری نہیں ہوسکے گی۔

قیصر شریف

(مرکزی سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی )

جماعت اسلامی کے زیر اہتمام قومی فلسطین کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی سمیت 20 سے زائد سیاسی و مذہبی جماعتوں نے شرکت کی اور فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

تمام جماعتوں نے جماعت اسلامی کی کاوش کو سراہا اور اس کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا کہ قائد اعظمؒ کے فرمان 'اسرائیل ناجائز ریاست ہے' کو ریاستی پالیسی بنانا ہوگا، تمام سفارتخانوں میں فلسطین کا مقدمہ پیش کیا جائے۔ہم اس وقت چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں، ہمیں سفارتی، پارلیمانی کردار کی طرف بھی جانا چاہیے۔

اسرائیل نے فلسطین میںہمیشہ ظلم کیا ہے۔ حماس کا حالیہ ردعمل فلسطین میں دہائیوں سے جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف ہے۔ اسرائیل سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ظالمانہ اقدامات کرکے فلسطین پر اپنا قبضہ بڑھاتا جا رہا ہے، اگر مسئلہ فلسطین مذاکرات سے حل ہونا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا، ضرورت ہے کہ غیرت ایمانی کے جذبے کو جگایا جائے۔

پاکستانی عوام کے دل اپنے فلسطینی بہن، بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہر پاکستانی اس وقت پریشان اور اضطرابی کیفیت میں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت عوامی جذبات کی درست ترجمانی نہیں کر رہی۔ میرے نزیک یہ وقت فلسطین کی آزادی کا اہم موقع ہے، مسلم ممالک مل کر ایک پالیسی بنائیں، اگر امت مسلمہ 10 فیصد وسائل بھی فلسطین کیلئے مختص کردے تو فلسطین آزاد ہوجائے گا۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چین اور روس کو بھی شرکت کی دعوت دینی چاہیے تھی، مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے ہر محاذ پر لڑنا ہوگا۔جماعت اسلامی صرف فلسطین کا نعرہ ہی نہیں لگاتی بلکہ ہم عملی طور عالمی اداروں کے ساتھ فلسطین میں خدمت کا کام کر رہے ہیں۔

ہمارا ادارہ الخدمت فاؤنڈیشن واحد ادارہ ہے جو فلسطین میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ ہم نے حکومت پاکستان کو بھی آفر دی ہے کہ ہماری میڈیکل و ریسکیو ٹیمیں فلسطین میں خدمات دینے کیلئے تیارہیں۔

جماعت اسلامی حکمرانوں اور ارباب ا ختیار سے گزارش کرتی ہے کہ ایسا کام کریں جس سے فلسطین کے مسلمانوں کو حوصلہ ملے، ان کی مشکلات کم ہوں اور انہیں اسرائیل سے آزادی مل سکے، اس کی ظلم و بربریت کم ہوسکے۔ اس وقت سب سے اہم یہ ہے کہ فلسطین میں جنگ بندی ہو، وہاں لوگوں کو ریلیف ملے، ان کی قیمتی جانیں بچائی جائیں اور وہاں جو نقصان ہوا ہے، اس کے ازالہ کیلئے کام کیا جائے۔
Load Next Story