ڈالر کی ریل پیل مگر آلو ہے قلیل
لگتا آپ کا شیر بھوکا تھا اور وہ گوشت کی جگہ گوداموں میں پڑے آلو کھا گیا۔
QUETTA:
جناب وزیر خزانہ صاحب! آپ کی عظمت کو بندہ عاجز سلام پیش کرتا ہے۔ سنا ہے حضور آپ عام وزیر خزا نہ نہیںبلکہ وزیر ڈالر ہیں ۔کچھ تو کہتے ہیں کہ آپ کوئی پہنچی ہوئی ہستی اور جانی مانی ہوئی سرکارہیں۔ کچھ ماہرین توآپ کو ڈالر والا پیر بھی کہتے ہیں یہ جناب آپ کی ذات کے ہی کرشمے ہیں کہ ایک سال کے اندر ڈالروں کے ڈھیر لگ گئے ۔اور آپ کو ڈالروں کے نذرانے پے نذرانے پیش کیے جا رہے ہیں.
آپ جو کہتے ہیں وہ ہو ہی جاتا ہے ۔آپ نے فرمایا ڈالر 100سے بھی سستا ہو گا تو وہ ہو گیا۔آپ نے پیش گوئی کی اور فرمایا کہ ایک دوست ملک اربوں ڈالر کا تحفہ دے گا تو واقعی دیا گیااو ر وہ بھی بغیر نام اور کام بتلائے ۔پھر آپ نے پیشگی اطلاع دی کہ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک ڈالرز دیں گے اور با لکل ایسا ہی ہوا۔ آپ نے کہا 3 جی اور 4جی کی ٹیکنالوجی آئیں گے اور ساتھ ڈالر بھی لائیں گے یہ بھی ٹھیک ثابت ہوا ۔اور اب آپ فرما رہے ہیں کہ زر مبادلہ کے ذخائر15 ارب ڈالر سے تجاوز کر جا ئیں گے اور ملک کبھی دیوالیہ نہیں ہو گا یقیناً یہ بات بھی آپ کی درست ثابت ہو گی کیا پتہ آپ کو الہام ہوا ہو۔ خیر جب سے آپ کی حکومت آئی ہے ہمیں تو ہر طرف ڈالروں کے با رے میں ہی خبریں سننے کو ہی مل رہی ہیں ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ اربوں ڈالرز کیں۔
مگر حضور بالاجب آپ مضبوط معشییت اور مہنگائی کے کم ہونے کی بات کرتے ہیں تو سرکار یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی فوراً ہی جی متلاتا ہے اور عجیب سی طبعیت ہو جا تی ہے ۔ کیو نکہ ہم تو جس طرف دیکھتے ہیں ہمیں ظلم ، مہنگائی ،بے روزگاری اور کرپشن سے پسی ہوئی بے چاری عوام ہی نظر آتی ہے۔ کیا پتہ سرکار آپ صحیح فرما رہے ہوں اور ہماری ہی نظر خراب ہو ۔ جناب عالی آپ کو دالیں اور سبزیاں پسند تو نہیں ہوگیں کیا پتہ آپ صرف ڈالرز پر ہی گزارا کرتے ہوں کیونکہ آپ بڑے لوگ ہیں اور ممکن ہے بڑے لوگوں کی خوراک بھی بڑی ہو۔ لیکن عالم پٹواری عرف آلو کو تو ضرور جانتے ہوں گے ۔ آپ نے ایک آلو کے بارے میںتو سنا ہی ہو گا ۔ جی ہاں جناب یہ ایک غریب آدمی کی سبزی کا نا م تھا جو اب صرف امیر وں کے گھروں تک محدود ہوتی جارہی ہے۔
آپ نے اپنی 64 سالہ زندگی میں اسکی موجودہ قیمت پہلے کبھی نہیں سنی ہوگی ۔ ایک غریب کے پاس کو کھانے کے لیے بس آلو ہی تو بچا تھا کیونکہ گوشت تو پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکا تھا ۔ ایک آلو ہی تو اس کی آخری امید تھا جو اب غائب ہو گیا ہے۔اب بے چارہ غریب بھوکا نہیں مرے گا تو کیا کرے گا ۔لیکن حضور اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ لگتا آپ کا شیر بھوکا تھا اور وہ گوشت کی جگہ گوداموں میں پڑے آلو کھا گیا۔ حالانکہ اس شیر کو کھا نا تو دہشتگردی اور لودشیڈنگ کے زہریلے سانپ کوچاہیے تھا۔ اور جیتنا اس کو مہنگائی اور بے روز گاری کے بے لگام گھوڑے سے تھا۔ مقابلا بازی اسکی کرپشن اور رشوت خوری کے طوفان سے تھی ۔ لیکن حضرت کیا پتہ آپ کے شیرمیں اتنی ہمت ہی نہ ہو کہ وہ ان ساری چیزوں کا سامنا کر سکے ۔
اب تو یہ اطلاع بھی سننے کہ مل رہی ہے کہ وہ شیر شیرو شاعری کا مقا بلہ کرتا ہے ۔ مثلاً
یہ ڈالر کا زمانہ ہے دوستو یہ ڈالر کا زمانہ ہے
بس ڈالرہی کو کھانا ہے اسحاق ڈار وزیر خزانہ ہے
اور وہ بڑا ہی سیانہ ہے نواز شریف سے سمبندھ پرانا ہے
غریبوں کو مہنگائی اور بھوک سے مروانا ہے بس ڈالر ہی جمع کیے جا نا ہے
صرف اپنی ہی تجوری بھر کرجانا ہے یہی طریقہ ان کا پرانا ہے
اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ ہے آلو کی بجائے ڈالرزرہی کھلانا ہے
ڈالڑرہے ذلیل مگرکیوں ہے آلو قلیل
دوستو بس ڈالر کا زمانہ ہے ڈالر کا زمانہ ہے
ایک غریب آدمی آپ سے صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہے کہ آپ کے خزانے میں جتنے مرضی ڈالر آجائیں اس سے اس کو کیا فائدہ ہو گا؟ ویسے بھی تو اس کو کھانے اور پینے کے لیے تو بس ایک یا دو ڈالر چاہیئں۔او راپنے معصوم بچے کا لباس خریدنے کے لیے 3یا 4ڈالرز کی ہی ضرورت ہو تی ہے ۔بے بیماری سے مرنے والی اسکی ما کو اپنے علاج کے لیے صرف چند ڈالر ہی تو چاہیے ہیں. اور اس کو اپنی بے روز گاری ختم کرنے کے لیے صرف چند سو ڈالر کی نوکری کی ہی تو تلاش ہے۔ غریب کی بیٹیوں کی بھی تو بس آپ سے اتنی سی عرض ہے کہ ڈالر انکل ہمیں اپنے جہیز کے لیے صرف چند ڈالرز ہی دے دو تاکہ ہم اپنے باپ کی دہلیز سے با عزت طریقے سے رخصت ہو سکیں۔ انتہائی مفلسی مگر خوداری میں زندگی میں بسر کرنے والا گورنمنٹ کاملازم بھی اپنی تنخواہ میں چند ڈالرز کا اضافہ چاہتا ہے۔ مگر آپ ان سب کو یہ کہ کر خاموش کر دیتے ہیں کہ قومی خزانے پر پہلے ہی بہت بوجھ ہے اور وہ مزیدبوجھ نہیں اٹھا سکتا ۔لیکن ساتھ ہی آپ ڈالروں کی خوشخبریاں بھی سنا کر بھی ریکارڈ بناتے جا رہے ہیں۔
بس کریں ڈار صاحب ، خدا کے لیے بس کردیں۔ ڈالروں کے پوجاری مت بنیں۔ کچھ غریب عوام کا بھی سوچیں ، آپ نے اتنے ڈالر جمع کر کے کہاں لے جانے ہیں۔ بس ایک احسان کردیجئے اپنے جیتے جی اور اپنی ہی حکومت کے ہوتے ہوئے ان خزانوں کا تھوڑا سا منہ غریبوں اور بے بسوں کی طرف کھو ل دیں۔ تاکہ یہ بے سہارا اور بے بس عوام آپ کے حق میں بھی کچھ دعائیں کرسکیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جناب وزیر خزانہ صاحب! آپ کی عظمت کو بندہ عاجز سلام پیش کرتا ہے۔ سنا ہے حضور آپ عام وزیر خزا نہ نہیںبلکہ وزیر ڈالر ہیں ۔کچھ تو کہتے ہیں کہ آپ کوئی پہنچی ہوئی ہستی اور جانی مانی ہوئی سرکارہیں۔ کچھ ماہرین توآپ کو ڈالر والا پیر بھی کہتے ہیں یہ جناب آپ کی ذات کے ہی کرشمے ہیں کہ ایک سال کے اندر ڈالروں کے ڈھیر لگ گئے ۔اور آپ کو ڈالروں کے نذرانے پے نذرانے پیش کیے جا رہے ہیں.
آپ جو کہتے ہیں وہ ہو ہی جاتا ہے ۔آپ نے فرمایا ڈالر 100سے بھی سستا ہو گا تو وہ ہو گیا۔آپ نے پیش گوئی کی اور فرمایا کہ ایک دوست ملک اربوں ڈالر کا تحفہ دے گا تو واقعی دیا گیااو ر وہ بھی بغیر نام اور کام بتلائے ۔پھر آپ نے پیشگی اطلاع دی کہ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک ڈالرز دیں گے اور با لکل ایسا ہی ہوا۔ آپ نے کہا 3 جی اور 4جی کی ٹیکنالوجی آئیں گے اور ساتھ ڈالر بھی لائیں گے یہ بھی ٹھیک ثابت ہوا ۔اور اب آپ فرما رہے ہیں کہ زر مبادلہ کے ذخائر15 ارب ڈالر سے تجاوز کر جا ئیں گے اور ملک کبھی دیوالیہ نہیں ہو گا یقیناً یہ بات بھی آپ کی درست ثابت ہو گی کیا پتہ آپ کو الہام ہوا ہو۔ خیر جب سے آپ کی حکومت آئی ہے ہمیں تو ہر طرف ڈالروں کے با رے میں ہی خبریں سننے کو ہی مل رہی ہیں ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ اربوں ڈالرز کیں۔
مگر حضور بالاجب آپ مضبوط معشییت اور مہنگائی کے کم ہونے کی بات کرتے ہیں تو سرکار یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی فوراً ہی جی متلاتا ہے اور عجیب سی طبعیت ہو جا تی ہے ۔ کیو نکہ ہم تو جس طرف دیکھتے ہیں ہمیں ظلم ، مہنگائی ،بے روزگاری اور کرپشن سے پسی ہوئی بے چاری عوام ہی نظر آتی ہے۔ کیا پتہ سرکار آپ صحیح فرما رہے ہوں اور ہماری ہی نظر خراب ہو ۔ جناب عالی آپ کو دالیں اور سبزیاں پسند تو نہیں ہوگیں کیا پتہ آپ صرف ڈالرز پر ہی گزارا کرتے ہوں کیونکہ آپ بڑے لوگ ہیں اور ممکن ہے بڑے لوگوں کی خوراک بھی بڑی ہو۔ لیکن عالم پٹواری عرف آلو کو تو ضرور جانتے ہوں گے ۔ آپ نے ایک آلو کے بارے میںتو سنا ہی ہو گا ۔ جی ہاں جناب یہ ایک غریب آدمی کی سبزی کا نا م تھا جو اب صرف امیر وں کے گھروں تک محدود ہوتی جارہی ہے۔
آپ نے اپنی 64 سالہ زندگی میں اسکی موجودہ قیمت پہلے کبھی نہیں سنی ہوگی ۔ ایک غریب کے پاس کو کھانے کے لیے بس آلو ہی تو بچا تھا کیونکہ گوشت تو پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکا تھا ۔ ایک آلو ہی تو اس کی آخری امید تھا جو اب غائب ہو گیا ہے۔اب بے چارہ غریب بھوکا نہیں مرے گا تو کیا کرے گا ۔لیکن حضور اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ لگتا آپ کا شیر بھوکا تھا اور وہ گوشت کی جگہ گوداموں میں پڑے آلو کھا گیا۔ حالانکہ اس شیر کو کھا نا تو دہشتگردی اور لودشیڈنگ کے زہریلے سانپ کوچاہیے تھا۔ اور جیتنا اس کو مہنگائی اور بے روز گاری کے بے لگام گھوڑے سے تھا۔ مقابلا بازی اسکی کرپشن اور رشوت خوری کے طوفان سے تھی ۔ لیکن حضرت کیا پتہ آپ کے شیرمیں اتنی ہمت ہی نہ ہو کہ وہ ان ساری چیزوں کا سامنا کر سکے ۔
اب تو یہ اطلاع بھی سننے کہ مل رہی ہے کہ وہ شیر شیرو شاعری کا مقا بلہ کرتا ہے ۔ مثلاً
یہ ڈالر کا زمانہ ہے دوستو یہ ڈالر کا زمانہ ہے
بس ڈالرہی کو کھانا ہے اسحاق ڈار وزیر خزانہ ہے
اور وہ بڑا ہی سیانہ ہے نواز شریف سے سمبندھ پرانا ہے
غریبوں کو مہنگائی اور بھوک سے مروانا ہے بس ڈالر ہی جمع کیے جا نا ہے
صرف اپنی ہی تجوری بھر کرجانا ہے یہی طریقہ ان کا پرانا ہے
اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ ہے آلو کی بجائے ڈالرزرہی کھلانا ہے
ڈالڑرہے ذلیل مگرکیوں ہے آلو قلیل
دوستو بس ڈالر کا زمانہ ہے ڈالر کا زمانہ ہے
ایک غریب آدمی آپ سے صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہے کہ آپ کے خزانے میں جتنے مرضی ڈالر آجائیں اس سے اس کو کیا فائدہ ہو گا؟ ویسے بھی تو اس کو کھانے اور پینے کے لیے تو بس ایک یا دو ڈالر چاہیئں۔او راپنے معصوم بچے کا لباس خریدنے کے لیے 3یا 4ڈالرز کی ہی ضرورت ہو تی ہے ۔بے بیماری سے مرنے والی اسکی ما کو اپنے علاج کے لیے صرف چند ڈالر ہی تو چاہیے ہیں. اور اس کو اپنی بے روز گاری ختم کرنے کے لیے صرف چند سو ڈالر کی نوکری کی ہی تو تلاش ہے۔ غریب کی بیٹیوں کی بھی تو بس آپ سے اتنی سی عرض ہے کہ ڈالر انکل ہمیں اپنے جہیز کے لیے صرف چند ڈالرز ہی دے دو تاکہ ہم اپنے باپ کی دہلیز سے با عزت طریقے سے رخصت ہو سکیں۔ انتہائی مفلسی مگر خوداری میں زندگی میں بسر کرنے والا گورنمنٹ کاملازم بھی اپنی تنخواہ میں چند ڈالرز کا اضافہ چاہتا ہے۔ مگر آپ ان سب کو یہ کہ کر خاموش کر دیتے ہیں کہ قومی خزانے پر پہلے ہی بہت بوجھ ہے اور وہ مزیدبوجھ نہیں اٹھا سکتا ۔لیکن ساتھ ہی آپ ڈالروں کی خوشخبریاں بھی سنا کر بھی ریکارڈ بناتے جا رہے ہیں۔
بس کریں ڈار صاحب ، خدا کے لیے بس کردیں۔ ڈالروں کے پوجاری مت بنیں۔ کچھ غریب عوام کا بھی سوچیں ، آپ نے اتنے ڈالر جمع کر کے کہاں لے جانے ہیں۔ بس ایک احسان کردیجئے اپنے جیتے جی اور اپنی ہی حکومت کے ہوتے ہوئے ان خزانوں کا تھوڑا سا منہ غریبوں اور بے بسوں کی طرف کھو ل دیں۔ تاکہ یہ بے سہارا اور بے بس عوام آپ کے حق میں بھی کچھ دعائیں کرسکیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔