اسرائیل اور حماس تنازعہ کیا رخ اختیار کرے گا
ایک طاقتور ملک کا چھوٹی سی میونسپلٹی کے خلاف اعلان جنگ بہت عجیب سی بات ہے
اسرائیل کی غزہ میں بمباری مسلسل جاری ہے ، عالمی میڈیا نے بتایا ہے کہ گزشتہ روزغزہ میں مزید 55 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں، اسرائیل کی بمباری کی زد میں عبادت گاہیںبھی آرہی ہیں۔
گیا، یوں جانی اور مالی نقصانات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، عبادت گاہوں پر حملوں سے اسرائیل کے خلاف غم وغصہ بھی بڑھتا جارہاہے۔ ادھر حماس کا دعویٰ ہے کہ اس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے غزہ کی سرحد کے قریب تازہ اسرائیلی حملے کو پسپا کردیا ہے۔
ایک طاقتور ملک کا چھوٹی سی میونسپلٹی کے خلاف اعلان جنگ بہت عجیب سی بات ہے، غزہ بہت چھوٹا سا ایریا ہے، اس کے پاس فوج ہے نہ ٹینک اور نہ فضائیہ ہے، اسرائیل غزہ پر حملے کو اپنے دفاع کے حق تحت جائز قرار دے رہا ہے، امریکا اور مغربی یورپ بھی اسرائیل کے موقف کی تائید کررہے ہیں اور حماس کو کچلنے کی بات کررہے ہیں۔
اس لڑائی میں سارا نقصان ہورہا ہے ،ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیاہے، تعلیمی ادارے بند ہیں، کاروباری مزکز بند ہیں، ہزاروںفلسطینی بے بسی اور بیچارگی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں جنھیں نہ تو پیٹ بھر غذا مل رہی ہے اور نہ ہی پینے کا پانی میسر ہے۔
اسرائیل نے اس خطے پر جس تیور کے ساتھ حملہ شروع کیا ہے، اس میں مزید شدت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورت میں جنگ کا نتیجہ جو بھی نکلے یہ تو طے ہے کہ اس سے انصاف اور امن کے اس تصور کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جس تصور میں کسی بھی تعصب اور جانبداری کی گنجائش نہیں ہے۔
اس جنگ کے جلد ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے بلکہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ جنگ مقبوضہ مغربی کنارے تک بھی پھیل سکتی ہے جہاں پہلے سے ہی اسرائیلی افواج موجود ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پہلے ہی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اسرائیلی رد عمل مشرق وسطیٰ کو تبدیل کر دے گا۔
غزہ خشکی کا ایسا ٹکڑا ہے جو اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک سینڈوچ کی طرح موجود ہے۔ غزہ کے ساتھ ہی مغربی کنارے کا فلسطینی علاقہ بھی ہے، یہ دونوں جگہیں غزہ اور مغربی کنارا فلسطینی علاقے ہیں۔ دونوں کئی دہائیوں سے جنگی مرکز بنے ہوئے ہیں۔
آج کل مسلسل اسرائیلی بمباری کے باعث غزہ پر گہرے دھویں کے بادل مرغولوں کی طرح جابجا نظر آتے ہیں۔ البتہ رات کے وقت اس بادل نما دھویں سے زیادہ آگ کی بارش شعلوں کا روپ دھارتی نظر آنے لگتی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو پہلے سے ہی بلاک کر رکھا ہے۔
یہ بلاکیڈ کئی برسوں پر محیط ہے۔ اس وجہ سے غزہ کے ارد گرد رکاوٹیں، دیواروں کی صورت میں باڑ اور دوسری رکاوٹیں کھڑی ہیں۔
حماس کے پاس اس غزہ کی پٹی کا کنٹرول 2007سے ہے۔ تب سے ہی اسرائیل نے اس کو محاصرے میں لے کر اسے دنیا کی ایسی کھلی اور بڑی جیل بنا دیا ہے جس پر ایک طرف آنے جانے کی اجازت نہیں تو دوسری جانب اسرائیل کی بمباری کی زد میں رہتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ غزہ سے باہر کے سب راستے حتیٰ کہ جڑی ہوئی ساحلی پٹی بھی اسرائیلی جبری قبضے میں ہے۔ غزہ دنیا کے گنجان ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی 23 لاکھ ہے۔ ان 23لاکھ میں سے نصف آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔
یونیسف کے مطابق قریبا دس لاکھ بچے غزہ میں رہتے ہیں۔ ان کی عمر پندرہ سال سے کم ہے اور کل آبادی کا چالیس فیصد ہیں۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ دنیا کے ان علاقوں میں بھی شامل ہے جہاں دنیا کی بد ترین بے روزگاری ہے، جب کہ غزہ میں رہنے والے 80 فیصد لوگ سخت غربت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کا نام انسانی حقوق کی تنظیم، دی ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کو دیا ہے۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو عام طور پر غزہ کے دونوں طرف آنے جانے سے روکتی ہے۔
دنیا کی بعض بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفاد کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں خطرناک کھیل کھیلتی آئی ہیں، جس کی وجہ سے فسلطین کے عوام مسلسل اسرائیل کے ناجائز تسلط اور اس کے ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔
امن کی ہر کوشش کو بھی اسرائیل سبو تاژ کرتا رہا ہے اور 76 برس سے اسرائیل انھیں طاقتوں کے اشارے پر وہ نہ صرف اپنی آبادی کو پھیلا رہا ہے بلکہ ایک ایک کر کے فلسطین کے تمام علاقوں پر قابض ہوتا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اردن، گولان پہاڑی وغیرہ پر بھی اس کے قبضہ کو دنیا دیکھ رہی ہے، یعنی اہل وطن پر اپنے ہی وطن میں زمین تنگ ہوچکی ہے ایک مدت سے بچے، بوڑھوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور اسرائیل یہ کارروائیاں، اور ظلم مسلسل کرتا آرہا ہے۔
فلسطین کے غیور عوام اپنی سر زمین آزاد کرانے کے لیے برسوں سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ جنگ پہلے ہی علاقے کی جغرافیائی سیاست کو بدل رہی ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی حمایت کی ہے۔ اس تنازعے نے ایک بار پھر مغربی منافقت کو بے نقاب کردیا ہے۔
ایک طرف بے گناہ شہری مارے جا رہے ہیں اور دوسری طرف اس پر ہونے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حالیہ میٹنگ چند بڑی طاقتوں کی بے حسی کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔
اس مسئلے کا تاریک پہلو تویہ ہے کہ اگر کبھی اقوام متحدہ نے کوئی قرارداد منظور بھی کی تو اسرائیل نے اسے تسلیم نہیں کیا اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی، یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ کا اب تک کوئی قابل قبول حل نہیں نکل سکا۔ تنازعہ کی اصل جڑ اسرائیل کی خطرناک توسیع پسندانہ سوچ ہے، جس کے ذریعے وہ فلسطین کے عوام کو وہاں سے بے دخل کر کے پورے ارض فلسطین پر قبضہ جما لینا چاہتا ہے۔
عالمی سطح پر امن و انصاف کا نعرہ بلند کرنے والی قوتیں بھی اس وقت مصلحت آمیز رویہ ظاہر کررہی ہیں۔ اس رویے سے نہ تو انصاف کی فراہمی ممکن ہے، نہ ہی قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔
امن و انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ضروری یہ ہے کہ جارحیت اور تشدد کی پر زور مخالفت کی جائے تو اور جو لوگ اس جارحیت کی زد پر ہوں ان کی حمایت کی جائے، اگر اس تناظر میں اس جنگ کے متعلق عالمی سطح پر ہونے والے رد عمل کا جائزہ لیا جائے تو انتہائی افسوس کے ساتھ یہ ماننا پڑے گا کہ عالمی برادری ان سنگین حالات میں بھی اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جو حملے ہو رہے ہیں اور وہاں کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق جس انداز میں سلب کر لیے گئے ہیں، ان پر کوئی یہ کہنے کی جرات نہیں کر رہا ہے کہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی یہ کارروائی عالمی قوانین کی رو سے بھی درست نہیں ہے۔
غزہ کے عوام صرف صہیونی فوجی کارروائی کا ہی ہدف نہیں بن رہے ہیں بلکہ وہ زندہ رہتے ہوئے بھی موت سے بدتر زندگی جینے کو مجبور ہیں، جو لوگ بجلی، پانی، غذا اور خوراک سے محروم ہوں ان کی زندگی کس اذیت میں گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔
اس جنگ کے متعلق میڈیا کے ایک طبقے نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں اپنی نشریات کو پیش کرنے کا جو طرز اختیار کر لیا ہے وہ عالمی سطح پر کئی طرح کی غلط فہمیاں پیدا کر رہا ہے۔ میڈیا کی جانب سے جو کچھ دکھایا جارہا ہے اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر عالمی سیاسی سازش کے تحت پناہ گزیں بن کر آنے والے یہودیوں پر ہمیشہ ظلم ہوتا رہا ہے اور وہ اب تک انصاف سے محروم ہیں۔
فلسطین اسرائیل تنازع سے متعلق اس خام اور بے بنیاد تصور کو جس طرح تاریخی حقیقت بنا کر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے وہ بھی مضحکہ خیز ہے۔ اس خطہ پر بسنے کے بعد سے اب تک یہودیوں کی بس یہی کوشش رہی ہے کہ رفتہ رفتہ پورے خطہ پر اپنا قبضہ جما لیا جائے۔
اب تک فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جو بھی امن معاہدے ہوئے، ان میں سے بیشتر کی خلاف ورزی اسرائیل کی جانب سے ہوئی۔
اس ضمن میں حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کی ان من مانیوں پر امن و انصاف کے علم برداروں نے کوئی سخت موقف نہیں اختیار کیا۔ حالیہ لڑائی میں بھی حماس کو عالمی مدد حاصل نہیں ہے۔روس، چین اور ایران کھل کر اسرائیل اور امریکا کی مذمت کررہے ہیں لیکن مسلم ممالک کی حکومتوں کا ردعمل ایسا نہیں ہے جس سے اسرائیل پر کوئی دباؤ بڑھ سکے۔