کامیاب کون بطور وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم
پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے طور پر شہباز شریف کا مکمل کنٹرول تھا
تقریباً 12 سال سے زائد پنجاب کا کامیاب وزیر اعلیٰ کہلانے والے میاں شہباز شریف 16ماہ تک ایک اتحادی حکومت میں وزیر اعظم رہے، جس کے بعد ان کے پاس یہ کہنے کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہم نے اپنی سیاست قربان کر کے ریاست بچائی ہے جب کہ اس دعوے کے برعکس اتحادی حکومت میں شامل جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اتحادی حکومت کے خاتمے کے صرف دو ماہ بعد کہہ رہے ہیں کہ ریاست ڈوب رہی ہے مگر سب کو الیکشن کی پڑی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ چاہتے ہیں الیکشن ہوں۔ منتخب حکومت کا آنا ضروری ہے۔ نواز لیگ کا سارا بوجھ شریف خاندان کو نہیں اٹھانا چاہیے، نہیں معلوم ان کے وزراء کہاں ہیں۔
میاں شہباز شریف کا سارا زور نواز شریف کی واپسی اور آیندہ کے بیانات پر ہے وہ کہیں بھی اپنی حکومت کی 16 ماہ کی کارکردگی کا ذکر نہیں کر رہے حالانکہ 2022 میں سندھ، بلوچستان و کے پی کی طوفانی بارشوں میں شہباز شریف ملک کے مختلف علاقوں کے دوروں پر گئے تھے اور ہر جگہ متاثرین سے ملے تھے۔
کیا یہ سمجھا جائے کہ میاں شہباز شریف کے پاس بطور وزیر اعظم اپنی کارکردگی بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے اور نہ وہ پنجاب کے عوامی وزیر اعلیٰ کی طرح عوام کے لیے کچھ کر سکے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انھیں کارکردگی دکھانے کا موقعہ نہیں ملا اور نہ وہ اپنی کابینہ کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا ذکر کر سکے۔ اسحاق ڈار نے معیشت کی بہتری کے دعوے کیے تھے اور کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کو بہتر طور سمجھتے ہیں اور ڈالر نیچے لائیں گے۔
انھوں نے اپنے دعوؤں سے عوام کو مایوس کیا ۔ میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم دور سے لگتا ہے کہ انھوں نے ملک و قوم کو اپنی پنجاب جیسی کارکردگی نہیں دکھائی اور وقت پورا ہوتے ہی لندن چلے گئے جہاں سے واپسی پر وہ اپنی 16 ماہ کی کارکردگی کا ذکر کرنے کے بجائے صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف آ کر ملک و قوم کے مسائل حل کرائیں گے اور چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے۔
انھیں یہ بھی کہنا چاہیے کہ اپنی حکومت میں وہ جو مسائل چھوڑ کر گئے ہیں وہ بھی نواز شریف ہی حل کرائیں گے کیونکہ وہ کوئی کارکردگی دکھا ہی نہیں سکے تھے۔
پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے طور پر شہباز شریف کا مکمل کنٹرول تھا۔ شہباز شریف (ن) لیگی وفاقی حکومت میں ہی نہیں بلکہ 5 سال پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب رہے مگر انھیں نواز شریف حکومت جیسی وفاقی سرپرستی پی پی حکومت میں نہیں ملی اور صدر آصف زرداری نے ان کا مخالف پنجاب میں گورنر مقرر کیا اور گورنر راج بھی لگایا تھا جو ہائیکورٹ نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔
بطور وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی کارکردگی اس لیے بھی بہتر رہی کہ وہ سوتے کم اورکام اور دورے زیادہ کرتے تھے۔
پنجاب اسمبلی وہ بہت کم آتے تھے۔ کابینہ کے اجلاس بھی کم ہوتے تھے اور وہ بااختیار و مطلق العنان وزیر اعلیٰ تھے جب کہ ان کے بڑے بھائی وزیر اعظم تھے جنھوں نے پنجاب جیسا بڑا صوبہ اپنے چھوٹے بھائی کے حوالے کیا ہوا تھا جن کی محنت اور کارکردگی کے باعث 2013 میں (ن) لیگ کی وفاقی حکومت بنی اور 2018 کے الیکشن میں دھاندلی اور آر ٹی ایس بٹھائے جانے کے باوجود (ن) لیگ نے پنجاب اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں مگر ایک منصوبے کے تحت انھیں حکومت بنانے نہیں دی گئی۔
شہباز شریف اتحادی حکومت میں وزیر اعظم تھے اور اتحادیوں کی اندرون خانہ سیاست کے باعث کھل کر کام نہیں کر سکے۔ انھوں نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔
حالانکہ ان سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ بطور وزیر اعظم ویسی ہی کارکردگی دکھائیں گے جیسی وہ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب دکھاتے رہے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حامی عدلیہ بھی ان کی راہ میں رکاوٹ رہی۔ (ن) لیگ پنجاب کی حمزہ حکومت غیر قانونی طور پر ختم کرائی گئی جس سے ان کے لیے پنجاب و کے پی میں مسائل پیدا کیے گئے اور وہ بے بس اور مجبور وزیر اعظم بنے رہے اور ملک کی بری معاشی حالت میں وہ مہنگائی بڑھاتے رہے اور ان کی ناکامی میں وزیر خزانہ نے اہم کردار ادا کیا اور (ن) لیگ کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا جس کے نتائج کا (ن) لیگ اب پنجاب میں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔