کیا پروٹوکول زیادتیوں کا ازالہ کرسکتا ہے
21اکتوبر کا جلسہ بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ شرکاء کی تعداد غیر معمولی تھی، چشم دید صحافیوں کے بقول جتنے لوگ پارک کے اندر تھے تقریباً اتنے ہی باہر تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں رِنگ روڈ پر ہی پھنسی رہیں، بہت سے ورکر آٹھ سے دس کلو میٹر پیدل چل کر جلسہ گاہ میں پہنچے۔ مجمع پرجوش (charged) تھا۔
جلسے نے یقیناً مسلم لیگ کے ورکروں کو یقین ، اعتماد اور فتح کے جذبوں سے سرشار کردیاہے۔ مسلم لیگ (ن) کے منتظمین کو چاہیے تھا کہ کسی بھاری آواز والے تربیت یافتہ شخص کو اسٹیج سیکریٹری بناتے جو شرکاء کو مسلسل گرماتا رہتا۔ جلسہ گاہ میں لوگ تین بجے سے موجود تھے جب کہ میاں نواز شریف سات بجے کے بعد پہنچے۔
اس دوران حاضرین کو engage رکھنا ضروری تھا۔ اس کے لیے چاہیے تھا کہ ہر صوبے کے صدر سے تقریر کروائی جاتی، مریم نواز (جنھوں نے جلسے کی کامیابی کے لیے بڑی محنت کی تھی)حاضرین سے بات چیت کرتی رہیں مگر کچھ مزید تقریریں بھی ہونی چاہئیںتھیں۔ بہرحال میاں نوازشریف کے آنے سے حاضرین کی تھکاوٹ دور ہوگئی، جلسے کے شرکاء اپنے لیڈر کو دیکھ کر نہال ہوگئے اور ان کے جوش اور ولولے میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔
لندن میں بیٹے کے دفتر سے باہر نکلتے ہوئے میاں صاحب پر بیماری اور نقاہت کے آثار نظر آتے تھے مگر وطنِ عزیز پہنچ کر، اپنے شہر لاہور میں بادشاہی مسجد کے سامنے نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد میاں صاحب کا مورال بلند ہوگیا۔ جلسہ گاہ میں جب انھوں نے اپنے پرجوش ورکروں کو دیکھا تو ان کا چہرہ کھِل اُٹھا اور اس پر تازگی اور بشاشت چمکنے لگی۔
انھوں نے ایک مکمل صحت مند لیڈر کی طرح ایک گھنٹے سے زیادہ کھڑے ہوکر خطاب کیا۔ مخالفین کہتے رہے کہ وہ خود برطانیہ میں مقیم رہے ہیں، جو اسرائیل کا سرپرست ہے، اب بیٹوں کے کاروبار بھی وہیں ہیں شاید وہ فلسطین کا ذکر نہ کریں مگر انھوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر ایسے دو ٹوک انداز میں فلسطین کا ذکر کیا جس میں اخلاص اور جذبہ واضح نظر آتا تھا، اس موقعے پر مریم نواز نے انھیں فلسطین کا پرچم پکڑایا جو لہرا کر وہ فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے رہے۔
فلسطین کے حق میں پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے قائد (جو تین بار وزیراعظم رہ چکا ہو) کی جانب سے اس قدر واضح اور پرجوش موقف قابلِ تحسین ہے، یہ یقیناً مظلوم فلسطینیوں نے لیے بڑی حوصلہ افزائی کا موجب ہوگا۔ اس موقعے پر کچھ مبصرین نے پی ٹی آئی چیئرمین کے موقف کے بارے میں یاد دلایا کہ انھوں نے کبھی اسرائیل کی کھل کر مذمّت نہیں کی۔
اس وقت زیک گولڈسمتھ اسرائیل کی کھل کر حمایت کررہا ہے، زیک گولڈسمتھ چیئرمین پی ٹی آئی کا وہی سابق سالا ہے جو لندن میئر کے انتخاب میں ایک مسلمان اور پاکستانی والدین کے بیٹے صادق خان کا حریف تھا اور پاکستانیوں کی توقعّات کے برعکس چیئرمین پی ٹی آئی نے لندن جاکر ایک مسلمان اور پاکستانی کے مقابلے میںاس کی انتخابی مہم چلاتے رہے۔
یہ بڑے تلخ حقائق ہیں جن کے بارے میں ملک کی ایک انتہائی مخلص اور محب وطن شخصیت حکیم محمد سعید شہید اور جیّد اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم نے کئی سال پہلے قوم کو مُنتبّہ کردیا تھا۔ اب میاں صاحب کی تقریر کی جانب آتے ہیں۔
جسدِ قومی کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ریاستِ پاکستان کو پھر سے پیروں پر کھڑا کرنے اور اس کا وقار بحال کرنے کے لیے جس مدبّرانہ سوچ اور فراخدلانہ اپروچ کی بڑے عرصے سے ضرورت محسوس کی جاتی تھی، اس کی جھلک میاں نوازشریف کی تقریر میں نظر آئی۔ ان کی تقریر، دشنام، الزام اور انتقام کی منفی باتوں سے بالکل پاک تھی۔
انتہائی شائستہ انداز میں انھوں نے اپنے ذاتی صدموں کا ذکر بھی کیا اور اپنے چاہنے والوں کے سامنے اپنے دکھ بھی شیئر کیے اور ایسا کرکے انھوں نے اپنا بوجھ ہلکا کر لیا، جو ہو جانا چاہیے تھا مگر انھوں نے زخم لگانے والواں کا زیادہ تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور نہ ہی ان سے انتقام لینے کا عندیہ دیا جو ان کی فراخدلانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی تقریر ایک سیاست دان کی نہیں ایک statesman جیسی تقریر تھی۔
اُن پر تنقید کرنے اور ڈیل کرکے آنے کا طعنہ دینے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو ان سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں، کچھ پی ٹی آئی کے جیالے ہیں اور کچھ ایسے اینکر اور ''تجزیہ کار'' ہیں جنھیں مشرف دور سے اس ڈیوٹی پر فائز کردیا گیا تھا، کچھ پی ٹی آئی کے دور میں مختلف چینلوں میں بھرتی کیے گئے۔
انھیں چور ڈاکو والا بیانیہ دھراتے رہنے کا ٹاسک دیا گیا تھااور اسی کی انھیں تنخواہ ملتی تھی، وہ ابھی تک اپنی وہی ڈیوٹی نبھارہے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ ''ایک سزا یافتہ شخص کو معمول سے ہٹ کر سہولتیں فراہم کی گئیں اور دیکھیں جی اشتہاری مجرم کو ایئرپورٹ پر وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا'' اگر ان کے دل بغض اور کینے سے سیاہ نہ ہوچکے ہوتے تو وہ یہ سوال کبھی نہ کرتے۔ اس لیے کہ اب تو سب کچھ بے نقاب ہوچکا ہے اور میاں صاحب کے سیاسی مخالفین بھی بارہا کہہ چکے ہیں کہ نوازشریف صاحب کو ایک بوگس کیس میں سزا دلوائی گئی تھی۔
عمران خان کے وکیل حامد خان صاحب نے خود کہا ہے کہ فیصلہ تو کہیں اور ہوچکا تھا ۔ جب یہ بات طے ہے کہ فیصلہ ہی بدنیّتی کی بنیاد پر دھونس، دباؤ اور بلیک میلنگ کے ذریعے دلوایا گیا تھا تو اس فیصلے کی حیثیّت کیا رہ جاتی ہے! ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے ایک ایسے سیاسی رہنما کو سزا دلوادینا جس نے اس ملک کو ایٹمی قوت بنایا ہو اور جس نے ملک کو تعمیر وترقی سے ہمکنار کیا ہو، بہت بڑا ظلم اور انتہا درجے کی زیادتی تھی، کیا ہوائی اڈّوں کا پروٹوکول نوازشریف کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرسکتا ہے؟
اس زیادتی کا ہر صورت ازالہ ہونا چاہیے تھا اور ملک کے قانون دانوں، دانشوروں اور صحافیوں کو تو اس بات کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ اتنی بڑی زیادتی پر سابق وزیرِاعظم نوازشریف سے معافی مانگی جائے، ان غیر قانونی فیصلوں کو null and void قرار دیا جائے اور victim کو پوری عزت کے ساتھ اس کی پرانی پوزیشن پر بحال کیا جائے۔
ایک متنازعہ فیصلے کے victim کو سزا یافتہ یا اشتہاری کہنا بغض، نفرت اور کینہ پروی تو ہوسکتی ہے، صحافت نہیں! کیا جب چیئرمین پی ٹی آئی کو سزا ہوگئی تھی تو انھی اینکروں نے اسے ایک بار بھی سزا یافتہ مجرم کہہ کر پکارا تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو کو تو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی اور سب سے بڑی عدالت نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی تھی، مگر کیا کبھی پی پی پی کے نظریاتی طور پر حامی صحافیوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزا یافتہ مجرم کہا ہے؟ بالکل نہیں، بلکہ وہ سزا یافتہ مجرم کے بجائے شہید بھٹو لکھتے ہیں۔
خاص مقاصد کے تحت بنائے گئے جھوٹے مقدمات میں ججوں پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے لکھوالینا اور اپنے ناپسندیدہ سیاسی رہنماؤں کو سزا دلوا کر سیاسی منظرنامے سے ہٹا دینا ہماری تاریخ کے سیاہ باب ہیں۔ ہاں! پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنما بلاول بھٹو کی طعنہ زنی کچھ لوگوں کو عجیب لگ رہی ہے، بہت سے لوگ طنز کرتے ہیں کہ سولہ ماہ تک تو بلاول شہباز شریف کی کابینہ میں خوب موجیں کرتا رہا، اس وقت اسے مسلم لیگ ن کے وزیراعظم سے کوئی شکایت نہیں تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ آصف زرداری صاحب اپنے صاحبزادے کو آیندہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانا چاہتے ہیں مگر یہ دال گلتی نظر نہیں آرہی ۔ ملک کو مسائل کی دلدل سے وہ رہنما ہی نکال سکتا ہے جو بڑی پارٹی کا قائد ہو جو تجربہ اور صلاحیت رکھتا ہو اور جس نے ماضی میں اپنے ہر دورِ اقتدار میں معیشت کو بہتر کیا ہو اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہو۔ سندھ میں بھی غالباً اس بار پیپلز پارٹی کی من مرضی نہیں چل رہی۔
لہٰذا انھوں نے شور مچانا شروع کردیا ہے پی پی پی کے اپنے ایک سابق ایم این اے کہہ کررہے تھے کہ جب سے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنے کے بعد سے نوازشریف نے پی پی پی کی قیادت کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی، ہماری قیادت کو بھی ان دستخطوں کا پاس کرنا چاہیے اور فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے حلقوں سے بھی ایسی آوازیں آرہی ہیں کہ میاں نوازشریف نے کسی سے انتقام نہ لینے کی بات تو کی ہے مگر وہ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی ذکر کرتے اور اس میں معافی تلافی کراتے۔ پی ٹی آئی والوں کو کون سمجھائے کہ معافی سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی غلطی تسلیم کی جائے اگر پی ٹی آئی چیئرمین معافی تلافی چاہتے ہیں تو انھیں پہلے اپنی غلطی تسلیم کرنا ہوگی اور اس کے بعد معافی کی درخواست کرنا ہوگی۔
جلسے نے یقیناً مسلم لیگ کے ورکروں کو یقین ، اعتماد اور فتح کے جذبوں سے سرشار کردیاہے۔ مسلم لیگ (ن) کے منتظمین کو چاہیے تھا کہ کسی بھاری آواز والے تربیت یافتہ شخص کو اسٹیج سیکریٹری بناتے جو شرکاء کو مسلسل گرماتا رہتا۔ جلسہ گاہ میں لوگ تین بجے سے موجود تھے جب کہ میاں نواز شریف سات بجے کے بعد پہنچے۔
اس دوران حاضرین کو engage رکھنا ضروری تھا۔ اس کے لیے چاہیے تھا کہ ہر صوبے کے صدر سے تقریر کروائی جاتی، مریم نواز (جنھوں نے جلسے کی کامیابی کے لیے بڑی محنت کی تھی)حاضرین سے بات چیت کرتی رہیں مگر کچھ مزید تقریریں بھی ہونی چاہئیںتھیں۔ بہرحال میاں نوازشریف کے آنے سے حاضرین کی تھکاوٹ دور ہوگئی، جلسے کے شرکاء اپنے لیڈر کو دیکھ کر نہال ہوگئے اور ان کے جوش اور ولولے میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔
لندن میں بیٹے کے دفتر سے باہر نکلتے ہوئے میاں صاحب پر بیماری اور نقاہت کے آثار نظر آتے تھے مگر وطنِ عزیز پہنچ کر، اپنے شہر لاہور میں بادشاہی مسجد کے سامنے نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد میاں صاحب کا مورال بلند ہوگیا۔ جلسہ گاہ میں جب انھوں نے اپنے پرجوش ورکروں کو دیکھا تو ان کا چہرہ کھِل اُٹھا اور اس پر تازگی اور بشاشت چمکنے لگی۔
انھوں نے ایک مکمل صحت مند لیڈر کی طرح ایک گھنٹے سے زیادہ کھڑے ہوکر خطاب کیا۔ مخالفین کہتے رہے کہ وہ خود برطانیہ میں مقیم رہے ہیں، جو اسرائیل کا سرپرست ہے، اب بیٹوں کے کاروبار بھی وہیں ہیں شاید وہ فلسطین کا ذکر نہ کریں مگر انھوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر ایسے دو ٹوک انداز میں فلسطین کا ذکر کیا جس میں اخلاص اور جذبہ واضح نظر آتا تھا، اس موقعے پر مریم نواز نے انھیں فلسطین کا پرچم پکڑایا جو لہرا کر وہ فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے رہے۔
فلسطین کے حق میں پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے قائد (جو تین بار وزیراعظم رہ چکا ہو) کی جانب سے اس قدر واضح اور پرجوش موقف قابلِ تحسین ہے، یہ یقیناً مظلوم فلسطینیوں نے لیے بڑی حوصلہ افزائی کا موجب ہوگا۔ اس موقعے پر کچھ مبصرین نے پی ٹی آئی چیئرمین کے موقف کے بارے میں یاد دلایا کہ انھوں نے کبھی اسرائیل کی کھل کر مذمّت نہیں کی۔
اس وقت زیک گولڈسمتھ اسرائیل کی کھل کر حمایت کررہا ہے، زیک گولڈسمتھ چیئرمین پی ٹی آئی کا وہی سابق سالا ہے جو لندن میئر کے انتخاب میں ایک مسلمان اور پاکستانی والدین کے بیٹے صادق خان کا حریف تھا اور پاکستانیوں کی توقعّات کے برعکس چیئرمین پی ٹی آئی نے لندن جاکر ایک مسلمان اور پاکستانی کے مقابلے میںاس کی انتخابی مہم چلاتے رہے۔
یہ بڑے تلخ حقائق ہیں جن کے بارے میں ملک کی ایک انتہائی مخلص اور محب وطن شخصیت حکیم محمد سعید شہید اور جیّد اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم نے کئی سال پہلے قوم کو مُنتبّہ کردیا تھا۔ اب میاں صاحب کی تقریر کی جانب آتے ہیں۔
جسدِ قومی کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ریاستِ پاکستان کو پھر سے پیروں پر کھڑا کرنے اور اس کا وقار بحال کرنے کے لیے جس مدبّرانہ سوچ اور فراخدلانہ اپروچ کی بڑے عرصے سے ضرورت محسوس کی جاتی تھی، اس کی جھلک میاں نوازشریف کی تقریر میں نظر آئی۔ ان کی تقریر، دشنام، الزام اور انتقام کی منفی باتوں سے بالکل پاک تھی۔
انتہائی شائستہ انداز میں انھوں نے اپنے ذاتی صدموں کا ذکر بھی کیا اور اپنے چاہنے والوں کے سامنے اپنے دکھ بھی شیئر کیے اور ایسا کرکے انھوں نے اپنا بوجھ ہلکا کر لیا، جو ہو جانا چاہیے تھا مگر انھوں نے زخم لگانے والواں کا زیادہ تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور نہ ہی ان سے انتقام لینے کا عندیہ دیا جو ان کی فراخدلانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی تقریر ایک سیاست دان کی نہیں ایک statesman جیسی تقریر تھی۔
اُن پر تنقید کرنے اور ڈیل کرکے آنے کا طعنہ دینے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو ان سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں، کچھ پی ٹی آئی کے جیالے ہیں اور کچھ ایسے اینکر اور ''تجزیہ کار'' ہیں جنھیں مشرف دور سے اس ڈیوٹی پر فائز کردیا گیا تھا، کچھ پی ٹی آئی کے دور میں مختلف چینلوں میں بھرتی کیے گئے۔
انھیں چور ڈاکو والا بیانیہ دھراتے رہنے کا ٹاسک دیا گیا تھااور اسی کی انھیں تنخواہ ملتی تھی، وہ ابھی تک اپنی وہی ڈیوٹی نبھارہے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ ''ایک سزا یافتہ شخص کو معمول سے ہٹ کر سہولتیں فراہم کی گئیں اور دیکھیں جی اشتہاری مجرم کو ایئرپورٹ پر وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا'' اگر ان کے دل بغض اور کینے سے سیاہ نہ ہوچکے ہوتے تو وہ یہ سوال کبھی نہ کرتے۔ اس لیے کہ اب تو سب کچھ بے نقاب ہوچکا ہے اور میاں صاحب کے سیاسی مخالفین بھی بارہا کہہ چکے ہیں کہ نوازشریف صاحب کو ایک بوگس کیس میں سزا دلوائی گئی تھی۔
عمران خان کے وکیل حامد خان صاحب نے خود کہا ہے کہ فیصلہ تو کہیں اور ہوچکا تھا ۔ جب یہ بات طے ہے کہ فیصلہ ہی بدنیّتی کی بنیاد پر دھونس، دباؤ اور بلیک میلنگ کے ذریعے دلوایا گیا تھا تو اس فیصلے کی حیثیّت کیا رہ جاتی ہے! ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے ایک ایسے سیاسی رہنما کو سزا دلوادینا جس نے اس ملک کو ایٹمی قوت بنایا ہو اور جس نے ملک کو تعمیر وترقی سے ہمکنار کیا ہو، بہت بڑا ظلم اور انتہا درجے کی زیادتی تھی، کیا ہوائی اڈّوں کا پروٹوکول نوازشریف کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرسکتا ہے؟
اس زیادتی کا ہر صورت ازالہ ہونا چاہیے تھا اور ملک کے قانون دانوں، دانشوروں اور صحافیوں کو تو اس بات کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ اتنی بڑی زیادتی پر سابق وزیرِاعظم نوازشریف سے معافی مانگی جائے، ان غیر قانونی فیصلوں کو null and void قرار دیا جائے اور victim کو پوری عزت کے ساتھ اس کی پرانی پوزیشن پر بحال کیا جائے۔
ایک متنازعہ فیصلے کے victim کو سزا یافتہ یا اشتہاری کہنا بغض، نفرت اور کینہ پروی تو ہوسکتی ہے، صحافت نہیں! کیا جب چیئرمین پی ٹی آئی کو سزا ہوگئی تھی تو انھی اینکروں نے اسے ایک بار بھی سزا یافتہ مجرم کہہ کر پکارا تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو کو تو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی اور سب سے بڑی عدالت نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی تھی، مگر کیا کبھی پی پی پی کے نظریاتی طور پر حامی صحافیوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزا یافتہ مجرم کہا ہے؟ بالکل نہیں، بلکہ وہ سزا یافتہ مجرم کے بجائے شہید بھٹو لکھتے ہیں۔
خاص مقاصد کے تحت بنائے گئے جھوٹے مقدمات میں ججوں پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے لکھوالینا اور اپنے ناپسندیدہ سیاسی رہنماؤں کو سزا دلوا کر سیاسی منظرنامے سے ہٹا دینا ہماری تاریخ کے سیاہ باب ہیں۔ ہاں! پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنما بلاول بھٹو کی طعنہ زنی کچھ لوگوں کو عجیب لگ رہی ہے، بہت سے لوگ طنز کرتے ہیں کہ سولہ ماہ تک تو بلاول شہباز شریف کی کابینہ میں خوب موجیں کرتا رہا، اس وقت اسے مسلم لیگ ن کے وزیراعظم سے کوئی شکایت نہیں تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ آصف زرداری صاحب اپنے صاحبزادے کو آیندہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانا چاہتے ہیں مگر یہ دال گلتی نظر نہیں آرہی ۔ ملک کو مسائل کی دلدل سے وہ رہنما ہی نکال سکتا ہے جو بڑی پارٹی کا قائد ہو جو تجربہ اور صلاحیت رکھتا ہو اور جس نے ماضی میں اپنے ہر دورِ اقتدار میں معیشت کو بہتر کیا ہو اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہو۔ سندھ میں بھی غالباً اس بار پیپلز پارٹی کی من مرضی نہیں چل رہی۔
لہٰذا انھوں نے شور مچانا شروع کردیا ہے پی پی پی کے اپنے ایک سابق ایم این اے کہہ کررہے تھے کہ جب سے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنے کے بعد سے نوازشریف نے پی پی پی کی قیادت کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی، ہماری قیادت کو بھی ان دستخطوں کا پاس کرنا چاہیے اور فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے حلقوں سے بھی ایسی آوازیں آرہی ہیں کہ میاں نوازشریف نے کسی سے انتقام نہ لینے کی بات تو کی ہے مگر وہ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی ذکر کرتے اور اس میں معافی تلافی کراتے۔ پی ٹی آئی والوں کو کون سمجھائے کہ معافی سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی غلطی تسلیم کی جائے اگر پی ٹی آئی چیئرمین معافی تلافی چاہتے ہیں تو انھیں پہلے اپنی غلطی تسلیم کرنا ہوگی اور اس کے بعد معافی کی درخواست کرنا ہوگی۔