فلمی دنیا کے قریشی برادران دوسرا اور آخری حصہ
روزینہ اور اس کی ممی کے راستے اب جدا جدا ہو گئے تھے اس دوران روزینہ نے بحیثیت ہیروئن بھی بے شمار فلموں میں کام کیا جب رفعت قریشی نے روزینہ سے شادی کی وہ 1970 کا زمانہ تھا۔ ان کے گھر ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام صائمہ قریشی رکھا گیا۔
روزینہ پر فلموں میں کام کرنے پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی، روزینہ نے وحید مراد کی فلموں کے بعد مشہور فلم ساز شباب کیرانوی اور پھر لاہور کی بے شمار اردو اور پنجابی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے، وہ ایک نام ور ہیروئن بن کر اپنا الگ ایک مقام بنا چکی تھی، رفعت قریشی ایک اچھا شوہر ثابت ہو چکا تھا مگر زندگی کے سفر میں وہ زیادہ عرصہ تک روزینہ کا ساتھ نہ دے سکا تھا۔
اور جس طرح سنتوش کمار اور درپن اپنی انھی اداکارہ بیویوں کو بہت جلد داغ مفارقت دے کر چلے گئے اسی طرح رفعت قریشی کی بھی زندگی اس کے ساتھ زیادہ وفا نہ کرسکی تھی اور وہ بھی روزینہ کو تنہائی کا داغ دے کر اس دنیا سے جلد رخصت ہو گیا تھا۔
اب میں آتا ہوں رفعت قریشی کے بھائی عابد قریشی کی طرف عابد قریشی بھی ایک ہینڈسم اور خوبرو جوان تھا، جسے اداکاری کا شوق تھا وہ فلموں میں ہیرو بننے کا شوقین تھا، مگر کراچی کی فلموں میں اسے کوئی پذیرائی نہ مل سکی تھی پھر بھی وہ کوششوں میں لگا رہا وہ دور کراچی کی فلم انڈسٹری کا ابتدائی دور تھا فلمی سرگرمیاں بھی زیادہ نہیں تھیں۔
اسی دوران عابد قریشی کی ملاقات کراچی کی ایک اسٹیج اداکارہ افشاں سے ہوئی افشاں کھلی کھلی رنگت والی ایک نوخیز لڑکی تھی، وہ کراچی کے میمنی، گجراتی اور اردو ڈراموں میں بھی کام کرتی تھی اسی دوران افشاں کو فلم ساز قدیر خان نے اپنی گجراتی فلم ماں تے ماما میں ہیروئن لیا ۔
یہ پاکستان کی پہلی گجراتی فلم تھی اس فلم کے بعد افشاں کو سندھی فلم'' نوری جام تماچی'' میں مشتاق چنگیزی کے ساتھ کاسٹ کیا گیا پھر اس نے بدر منیر کے ساتھ اردو فلم جانور میں کام کیا اسی دوران ڈھاکا سے آئے ایک ہدایت کار جن کا نام نور محمد تھا انھوں نے کراچی میں اپنی فلم کا آغاز کیا فلم کا نام تھا ''کہیں دو دل جو مل جاتے ''اس فلم میں افشاں کے ساتھ عابد قریشی کا ہیروئن کاسٹ کیا گیا یہ فلم مکمل ہوکر ریلیز نہ ہو سکی تھی مگر اس فلم کہیں دو دل جو مل جاتے ہیں نے افشاں اور عابد قریشی کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے تڑپ پیدا کردی تھی۔
دونوں فلم کی شوٹنگ کے بعد بھی محبت کے سین کرنے لگے تھے اور پھر عابد قریشی نے بھی اپنے بھائی رفعت قریشی کی طرح ایک نوخیز اداکارہ افشاں سے محبت کے بعد شادی کرلی تھی، افشاں کی ایک بوڑھی اماں تھی۔
اس کا کوئی بھائی نہ تھا باپ بھی کہیں چلا گیا تھا بوڑھی ماں اپنی زندگی میں بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دینا چاہتی تھی ۔افشاں کی ماں نے روزینہ کی ماں کی طرح بیٹی کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی، کراچی میں اردو فلموں کی کمی تھی فلم انڈسٹری لاہور ہی میں تھی پھر افشاں اور عابد قریشی نے کراچی چھوڑ کر لاہور کو اپنا مسکن بنا لیا تھا ۔
رائٹر اطہر شاہ خاں جیدی کے بڑے بھائی ہارون پاشا لاہور میں تھیٹر کے رائٹر بھی تھے اور آرٹسٹ بھی انھوں نے لاہور اسٹیج کے ڈراموں میں افشاں کو بھی آگے بڑھایا تھا۔ افشاں لاہور تھیٹر میں کافی عرصے تک کام کرتی رہیں۔
اسی دوران شباب کیرانوی صاحب نے اپنی فلم'' میرا نام ہے محبت'' بنانے کا اعلان کیا انھوں نے اپنی اس فلم میں افشاں کو ہیروئن کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور افشاں سے بات بھی کرلی تھی پھر جب فلم کو سیٹ پر لے جانے کا وقت آیا تو افشاں بوجوہ کراچی چلی گئی تھی اور وہ وقت پر لاہور نہ آسکی تھی شباب صاحب کو افشاں کا کراچی جانا اور پھر وقت پر لاہور نہ آنا برا لگا تھا اور انھوں نے افشاں کے بجائے کراچی کی ایک ماڈل گرل بابرہ شریف کو اپنی فلم میں ہیروئن کاسٹ کر لیا تھا اور کراچی ٹی وی کے آرٹسٹ غلام محی الدین کو ہیرو کاسٹ کر لیا تھا اور افشاں کے مقدر میں شباب کیرانوی کی فلم نہیں لکھی تھی۔
لاہور میں افشاں قریشی اور عابد قریشی کی زندگی کی گاڑی بڑی خوش اسلوبی سے چل رہی تھی دونوں اسٹیج اور ٹیلی وژن کے ڈراموں میں جی جان سے کام کرتے تھے اور ان کے گھر آنگن میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ان دنوں کی خوشیوں کو جگمگانے کے لیے ان کا ایک بیٹا بھی دنیا میں آگیا جس کا نام فیصل قریشی رکھا گیا اور دونوں ماں باپ اپنے بچے کی پرورش اور تربیت اور پھر اس کی تعلیم کی طرف شب و روز مصروف رہنے لگے تھے۔
فیصل قریشی جب نو عمر ہوا تو اسے بھی اداکاری کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ عابد قریشی نے اپنی زندگی میں ایک ہی قابل ذکر فلم میں کام کیا تھا اور اس فلم کا نام تھا پیار کی جیت۔ جب کہ اس فلم کی ہیروئن بھی روزینہ تھی، یہ فلم بھی عابد قریشی کے فلمی سفر کو آگے نہ بڑھا سکی تھی، پھر افشاں قریشی کے شوہر عابد قریشی کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا فیصل قریشی بحیثیت ٹی وی آرٹسٹ منظر عام پر آیا یکے بعد دیگرے کئی ڈراموں میں بے مثال اداکاری کرکے فیصل قریشی نے اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں اور آج فیصل قریشی فلم کے ہیرو سے کہیں زیادہ مشہور ہے اور آج فیصل قریشی کا ٹی وی ڈراموں میں نام بکتا ہے۔
روزینہ پر فلموں میں کام کرنے پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی، روزینہ نے وحید مراد کی فلموں کے بعد مشہور فلم ساز شباب کیرانوی اور پھر لاہور کی بے شمار اردو اور پنجابی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے، وہ ایک نام ور ہیروئن بن کر اپنا الگ ایک مقام بنا چکی تھی، رفعت قریشی ایک اچھا شوہر ثابت ہو چکا تھا مگر زندگی کے سفر میں وہ زیادہ عرصہ تک روزینہ کا ساتھ نہ دے سکا تھا۔
اور جس طرح سنتوش کمار اور درپن اپنی انھی اداکارہ بیویوں کو بہت جلد داغ مفارقت دے کر چلے گئے اسی طرح رفعت قریشی کی بھی زندگی اس کے ساتھ زیادہ وفا نہ کرسکی تھی اور وہ بھی روزینہ کو تنہائی کا داغ دے کر اس دنیا سے جلد رخصت ہو گیا تھا۔
اب میں آتا ہوں رفعت قریشی کے بھائی عابد قریشی کی طرف عابد قریشی بھی ایک ہینڈسم اور خوبرو جوان تھا، جسے اداکاری کا شوق تھا وہ فلموں میں ہیرو بننے کا شوقین تھا، مگر کراچی کی فلموں میں اسے کوئی پذیرائی نہ مل سکی تھی پھر بھی وہ کوششوں میں لگا رہا وہ دور کراچی کی فلم انڈسٹری کا ابتدائی دور تھا فلمی سرگرمیاں بھی زیادہ نہیں تھیں۔
اسی دوران عابد قریشی کی ملاقات کراچی کی ایک اسٹیج اداکارہ افشاں سے ہوئی افشاں کھلی کھلی رنگت والی ایک نوخیز لڑکی تھی، وہ کراچی کے میمنی، گجراتی اور اردو ڈراموں میں بھی کام کرتی تھی اسی دوران افشاں کو فلم ساز قدیر خان نے اپنی گجراتی فلم ماں تے ماما میں ہیروئن لیا ۔
یہ پاکستان کی پہلی گجراتی فلم تھی اس فلم کے بعد افشاں کو سندھی فلم'' نوری جام تماچی'' میں مشتاق چنگیزی کے ساتھ کاسٹ کیا گیا پھر اس نے بدر منیر کے ساتھ اردو فلم جانور میں کام کیا اسی دوران ڈھاکا سے آئے ایک ہدایت کار جن کا نام نور محمد تھا انھوں نے کراچی میں اپنی فلم کا آغاز کیا فلم کا نام تھا ''کہیں دو دل جو مل جاتے ''اس فلم میں افشاں کے ساتھ عابد قریشی کا ہیروئن کاسٹ کیا گیا یہ فلم مکمل ہوکر ریلیز نہ ہو سکی تھی مگر اس فلم کہیں دو دل جو مل جاتے ہیں نے افشاں اور عابد قریشی کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے تڑپ پیدا کردی تھی۔
دونوں فلم کی شوٹنگ کے بعد بھی محبت کے سین کرنے لگے تھے اور پھر عابد قریشی نے بھی اپنے بھائی رفعت قریشی کی طرح ایک نوخیز اداکارہ افشاں سے محبت کے بعد شادی کرلی تھی، افشاں کی ایک بوڑھی اماں تھی۔
اس کا کوئی بھائی نہ تھا باپ بھی کہیں چلا گیا تھا بوڑھی ماں اپنی زندگی میں بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دینا چاہتی تھی ۔افشاں کی ماں نے روزینہ کی ماں کی طرح بیٹی کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی، کراچی میں اردو فلموں کی کمی تھی فلم انڈسٹری لاہور ہی میں تھی پھر افشاں اور عابد قریشی نے کراچی چھوڑ کر لاہور کو اپنا مسکن بنا لیا تھا ۔
رائٹر اطہر شاہ خاں جیدی کے بڑے بھائی ہارون پاشا لاہور میں تھیٹر کے رائٹر بھی تھے اور آرٹسٹ بھی انھوں نے لاہور اسٹیج کے ڈراموں میں افشاں کو بھی آگے بڑھایا تھا۔ افشاں لاہور تھیٹر میں کافی عرصے تک کام کرتی رہیں۔
اسی دوران شباب کیرانوی صاحب نے اپنی فلم'' میرا نام ہے محبت'' بنانے کا اعلان کیا انھوں نے اپنی اس فلم میں افشاں کو ہیروئن کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور افشاں سے بات بھی کرلی تھی پھر جب فلم کو سیٹ پر لے جانے کا وقت آیا تو افشاں بوجوہ کراچی چلی گئی تھی اور وہ وقت پر لاہور نہ آسکی تھی شباب صاحب کو افشاں کا کراچی جانا اور پھر وقت پر لاہور نہ آنا برا لگا تھا اور انھوں نے افشاں کے بجائے کراچی کی ایک ماڈل گرل بابرہ شریف کو اپنی فلم میں ہیروئن کاسٹ کر لیا تھا اور کراچی ٹی وی کے آرٹسٹ غلام محی الدین کو ہیرو کاسٹ کر لیا تھا اور افشاں کے مقدر میں شباب کیرانوی کی فلم نہیں لکھی تھی۔
لاہور میں افشاں قریشی اور عابد قریشی کی زندگی کی گاڑی بڑی خوش اسلوبی سے چل رہی تھی دونوں اسٹیج اور ٹیلی وژن کے ڈراموں میں جی جان سے کام کرتے تھے اور ان کے گھر آنگن میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ان دنوں کی خوشیوں کو جگمگانے کے لیے ان کا ایک بیٹا بھی دنیا میں آگیا جس کا نام فیصل قریشی رکھا گیا اور دونوں ماں باپ اپنے بچے کی پرورش اور تربیت اور پھر اس کی تعلیم کی طرف شب و روز مصروف رہنے لگے تھے۔
فیصل قریشی جب نو عمر ہوا تو اسے بھی اداکاری کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ عابد قریشی نے اپنی زندگی میں ایک ہی قابل ذکر فلم میں کام کیا تھا اور اس فلم کا نام تھا پیار کی جیت۔ جب کہ اس فلم کی ہیروئن بھی روزینہ تھی، یہ فلم بھی عابد قریشی کے فلمی سفر کو آگے نہ بڑھا سکی تھی، پھر افشاں قریشی کے شوہر عابد قریشی کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا فیصل قریشی بحیثیت ٹی وی آرٹسٹ منظر عام پر آیا یکے بعد دیگرے کئی ڈراموں میں بے مثال اداکاری کرکے فیصل قریشی نے اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں اور آج فیصل قریشی فلم کے ہیرو سے کہیں زیادہ مشہور ہے اور آج فیصل قریشی کا ٹی وی ڈراموں میں نام بکتا ہے۔