طالبان سے فیصلہ کن مکالمہ

وفاقی حکومت نے تحریک طالبان سے مذاکرات کے حتمی اور فیصلہ کن مرحلے کے لیے حکمت عملی تیار کر لی


Editorial May 19, 2014
حکومت سمجھتی ہے کہ طالبان بھی اسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی کمیٹی تشکیل دیں جو مذاکراتی عمل کے دوران بیانات سے گریز کریں ۔ فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے تحریک طالبان سے مذاکرات کے حتمی اور فیصلہ کن مرحلے کے لیے حکمت عملی تیار کر لی ہے اور موجودہ طالبان کمیٹی سے بات چیت کے بجائے طالبان کو نئی غیر سیاسی کمیٹی کی تشکیل کا پیغام بھیج دیا ہے ۔

بادی النظر میں طالبان قیادت کو نئی کمیٹی کی تشکیل ایک تزویراتی حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے جس کا بنیادی مقصد غالباً بات چیت کے پہلے روز سے افشا ہونے، میڈیا کی چکا چوند میں مستقل خیال آرائی اور جذباتی تبصروں سے بچنے کی تدبیر پیش نظرہو اور ایسا ہونا بھی چاہیے تاکہ مذاکرات پر کوئی انگلی نہ اٹھ سکے ، اسے داخلی و خارجی عناصر براہ راست یا بالواسطہ متاثر نہ کر سکیں اور دو طرفہ بات چیت کے حتمی نتائج ٹھوس، خوشگوار ماحول میں سنجیدہ ، معروضی اور آئین و قانون کے دائرہ میں انجام پزیر ہوں جو بلاشبہ ایک مشکل چیلنج ہے کیونکہ ابھی تک واضح طور پر نہ وفاقی حکومت، وزارت داخلہ ، حکومتی کمیٹی اور نہ طالبان کمیٹی کی طرف سے کسی قسم کے حقیقی ڈیڈ لاک کی بات کہی گئی ، سبھی چاہتے ہیں کہ بات چیت ہو اور جلد سے جلد اس کے نتائج سے قوم کو آگاہ کیا جائے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ مذاکرات کے اس کھل جا سم سم نے قوم سمیت تمام شراکت داروں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے ۔

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ دوطرفہ بیانات کی حد تک بھی سیز فائر ہو تاکہ دشمن قوتوں کو بات چیت کو سبوتاژ کرنے کا موقع نہ مل سکے اور محاذ آرائی سے ہٹ کر مفید اور بامقصد مذاکرات کی کامیابی یقینی بنائی جاسکے ۔ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ نے کہا ہے کہ طالبان کی طرح حکومت پاکستان اور فوج کو بھی اللہ کے نظام اور عملداری کو تسلیم کرنا پڑے گا ۔ انھوں نے یہ بات ایک مختصر ویڈیو میں کہی ہے ۔ واضح رہے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے مذاکراتی عمل کے رکنے کے بعد اپنے ایک بیان کہا تھا کہ پیداشدہ گمبھیرتا اور افراتفری کے ماحول میں بات چیت نہیں ہوسکتی جو کہ صائب فیصلہ تھا تاہم 17 مئی کے بیان میں ان کی طرف سے یقین دلایا گیا کہ طالبان سے نتیجہ خیز مذاکرات جلد شروع ہوں گے اور حکومتی ترجیح ہے کہ آیندہ بات چیت میں یہ طے ہو کہ ان کے مطالبات کیا ہیں ۔

بلاشبہ اسی مقناطیسی نکتے پر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں جب یہ معلوم تو ہو کہ طالبان نظریاتی ، سیاسی، مذہبی ، تزویراتی ، معاشی اور معاشرتی حوالے سے کن شرائط یا مطالبات پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں ۔ ابتدائی معاملہ قیدیوں کی رہائی کے مسئلہ پر گورکھ دھندے کی نذر ہوگیا تھا اب جہاں تک طالبان کو نئی غیر سیاسی کمیٹی تشکیل دینے کی پیشکش کا تعلق ہے تو اس ضمن میں اسے بھی سننا ہوگا جو وہ کہیں گے جواب میں ! بہر حال حکومتی ٹیم اور طالبان قیادت کو ان واقعات و حادثات اور سیاق و سباق سے ہٹ کر ماضی کے دو طرفہ تند وتیز بیانات کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے جس میں طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے بعض ارکان نے گزشتہ چند ماہ کے دوران حکومت اور بالخصوص وزیراعظم نواز شریف پر سخت تنقید کی تھی جس پر حکومتی رہنماؤں نے بھی سخت ناراضی کا اظہار کیا جس سے مذاکرات کا سلسلہ رک گیا تھا ۔

اب جب کہ حکومت نے مذاکرات کے لیے سنجیدہ پیغام دے دیا ہے تو توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان ملکی صورتحال، قومی سلامتی، عالمی حالات اور وطن عزیز میں امن و استحکام کے تقاضوں کو پیش نظر رکھیں گے اور غلط فہمیوں ، بد گمانیوں، تحفظات اور شکایات کے ازالہ کے لیے دو قدم آگے بڑھ جائیں گے۔ اب انتظار کرو اور دیکھو' کا وقت نکل چکا ۔ چنانچہ حکومت نے اہم مذہبی شخصیت کے ذریعے طالبان کو اپنی کمیٹی کے ارکان پر نظرثانی کرنے کا جو پیغام بھیجا ہے وہ خوش آیند ہے، طالبان ایسی کمیٹی تشکیل دیں جو مذاکراتی عمل کے دوران خاموشی اختیار کرے ۔ حکومت کی جانب سے پیغام میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کی اعلان کردہ پہلی کمیٹی کو بھی اسی لیے ختم کیا گیا تھا کہ اس کے ارکان مذاکرات کے دوران ہونے والی پیش رفت اور معلومات میڈیا کے سامنے بیان کر دیتے تھے۔

لہٰذا حکومت سمجھتی ہے کہ طالبان بھی اسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی کمیٹی تشکیل دیں جو مذاکراتی عمل کے دوران بیانات سے گریز کریں ۔ ادھر طالبان رابطہ کمیٹی کے رکن اور امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ ملک و قوم کی سلامتی کے لیے مذاکرات ضروری ہیں، وزیر اعظم نے وزیر داخلہ کو طالبان سے مذاکرات جاری رکھنے کا حکم تو دیا ہے لیکن تاحال اس میں پیش رفت نہیں ہوئی، قوم کو امن کی ضرورت ہے جنگ کی نہیں ، انھوں نے کہا کہ امن کی چابی فوج کے پاس ہے اور فوج جب بھی چاہے امن قائم ہوسکتا ہے ۔ عوام شدید مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں ، حکمران خود آئین پر عملدرآمد نہیں کررہے جس دن آئین پر عمل درامد شروع ہوا اسی دن قوم خوشحال اور ملک امن کا گہوارا بن جائیگا ۔ تاہم ان امید افزا کلمات کو عملی طور پر سچ ثابت کرنے کے لیے بات چیت کا متفقہ فورم ایسا ہونا چاہیے جو شفافیت ،اعتماد سازی، خیرسگالی، مفاہمت و مصالحت کے تمام بنیادی تقاضوں کو پورا کرے ۔

مشہور دانشور مارسلو ابراہام نے کہا تھا کہ ''اگر آپ کے ہاتھ میں صرف ایک ہتھوڑا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ باقی ہر شے کیل ہے ۔'' المختصر ، حکومتی ارباب اختیار اور طالبان قیادت اس مقولے کے تحت زمینی حقائق کے گہرے ادراک کا قوم کو یقین دلائیں، اور ممکنہ طور پر منعقد ہونے والے اس نئے مکالماتی ہتھوڑے سے جمود ، بد اعتمادی ،غلط فہمی اور شکوک و شبہات کو اندوہ ناک صورتحال کے تابوت میں آخری کیل کی طرح ٹھونک دیں۔ اصل مطالبات پر بات چیت جاری رکھی جائے۔ اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ ،متفقہ نکات اور طے پانے والی کمٹمنٹ پر عملدرآمد میں کوئی دشواری پیش نہ آئے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں