’’کنگ‘‘ بابرکا تخت و تاج ہلنے لگا
افغان اسپنرز کا سامنا ہمارے بیٹرز ایسے کر رہے تھے جیسے شین وارن اور عبدالقادر سامنے آ گئے ہوں
آپ نے اکثر یہ سنا ہوگا کہ ٹیم کی ہار پر کئی لوگوں نے اپنے ٹی وی سیٹ توڑ دیے، میں آپ کے سامنے یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ چند لمحوں کیلیے ہی سہی افغانستان سے میچ میں ناکامی پر میں بھی اس کیفیت سے گزرا لیکن متوقع نقصان کا سوچ کر فورا ہی خود کو سنبھال لیا، ہم صحافی بھی پاکستانی ہیں۔
کسی عام انسان کی طرح ٹیم کے جیتنے ہارنے کی خوشی و غم کو محسوس کرتے ہیں،البتہ بطور پروفیشنل اس جذباتی انداز کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے لیکن کبھی ایسا نہیں بھی کر پاتے، ورلڈکپ میں ٹیم بھارت سے ہار گئی افسوس ہوا لیکن دل کو یہ سوچ کر بہلا لیا کہ ایک مضبوط ٹیم سے ہارے، البتہ افغانستان سے ناکامی برداشت نہیں ہوئی، ایک ایسا بچہ جسے ہم نے انگلی پکڑ کر کرکٹ کھیلنا سکھایا لیکن بڑا ہو کر وہ ماننے کو تیار نہیں، الٹا ہمیں ہی آنکھیں دکھاتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان ورلڈکپ سیمی فائنل میں کیسے پہنچ سکتا ہے؟ اگر مگر کا کھیل شروع
اس سے تو کسی صورت نہیں ہارنا چاہیے تھا، بھارت نے ہمارے لیے ورلڈکپ سے پہلے ہی ایک جال بچھایا،کئی میچز کے وینوز حریف ٹیموں کی قوت کو ذہن میں رکھ کر منتخب کیے، افغانستان سے میچ چنئی میں رکھا تو سب کا ماتھا ٹھنکا لیکن آپ کچھ نہیں کر سکتے تھے، یہ جواز کہ افغان ٹیم کے پاس اچھے اسپنرز ہیں لہذا ہم چنئی کی اسپن پچ پر نہیں کھیلیں گے کوئی نہیں مانتا، پی سی بی نے اعتراض بھی کیا جسے آئی سی سی نے ہوا میں اڑا دیا۔
بطور پروفیشنل آپ کو ہر قسم کی پچز پر کھیلنا پڑتا ہے، حالیہ ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کی ناقص کارکردگی سب کے سامنے ہے،بھارت اور آسٹریلیا سے ہار تو سمجھ میں آتی ہے لیکن افغانستان کیخلاف میچ تو بڑے مارجن سے جیتنا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا نہ ہوا، نجانے پاکستان ٹیم کو کیا ہوگیا ہے، پی سی بی نے میچ سے چند منٹ قبل ایک میڈیا نوٹ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ''ٹیم میں کوئی اختلاف نہیں،لڑائی کی میڈیا رپورٹ غلط ہے'' اس کی ٹائمنگ بہت غلط تھی، خبر پاکستان میں چند ہزار لوگوں نے ہی دیکھی یا پڑھی ہو گی لیکن بورڈ نے تردید کر کے خود اسے دنیا بھر میں پھیلا دیا اور لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے شکست پر وقار یونس کمنٹری باکس میں دلبرادشتہ، ویڈیو وائرل
سنا ہے اپنا سی وی کلیئر رکھنے کیلیے کسی نے زور دے کر تردید جاری کروائی، افغان اسپنرز کا سامنا ہمارے بیٹرز ایسے کر رہے تھے جیسے شین وارن اور عبدالقادر سامنے آ گئے ہوں،عبداللہ شفیق نے شروع میں جارحیت دکھائی پھر وہ بھی ڈھیلے پڑ گئے، بابر اعظم کی ففٹی میں بھی کافی بالز کا استعمال ہوا، وہ تو افتخار احمد لاٹھی چارج نہ کرتے تو شاید 250 رنز بھی بمشکل بنتے، ٹیم کا مسئلہ جارحانہ بیٹنگ کرنے والے کرکٹرز کی کمی ہے، کئی پلیئرز کی کوشش اپنا اسکور اور ایوریج بہتر بنانے کی ہوتی ہے۔
صرف افتخار ہی اسٹرائیک ریٹ کا خیال رکھتے ہیں، اب ماضی جیسی کرکٹ نہیں رہی،300 تو نارمل اسکور ہے، اس کے بعد فتح کا خواب دیکھا جا سکتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان ٹیم متواتر ایسا نہیں کر پاتی، بولنگ لائن کو نجانے کس کی نظر لگ گئی،شاہین شاہ آفریدی کی رفتارکم ہونے کے ساتھ سوئنگ بھی کھو گئی۔
مزید پڑھیں: افغانستان کیخلاف شکست؛ بابراعظم کی کپتانی پر سابق کرکٹرز نے سر پکڑ لیا
حسن علی نسبتاً بہتر بولنگ کر رہے ہیں مگر بیٹرز کیلیے بڑا خطرہ ثابت نہیں ہو پاتے، حارث رؤف نے ثابت کر دیا کہ وہ ٹی ٹوئنٹی میں 4 اوورز ہی کرنے کے اہل ہیں،شاداب خان نے آخری 8 ون ڈے میں تقریبا 100 کی اوسط سے 4 وکٹیں لی ہیں، اس کے باوجود ان کا کھیلنا حیران کن ہے،اسامہ میر بھی ایکسپوز ہو گئے، سونے پر سہاگہ فیلڈنگ بھی اتنی ناقص کہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں، بابر اعظم کو مداح کنگ کہتے ہیں۔
کچھ دن قبل ان پر تنقید کرنا ممکن نہ تھا ٹویٹر پر ٹرینڈز چل جاتے لیکن اب''کنگ'' بابرکا تخت و تاج ہلنے لگا ہے،شاید یہ قیادت کرتے ہوئے ان کا آخری ایونٹ ثابت ہو، بابر کے لیے بھی دباؤ سے آزاد ہو کر بطور بیٹر کھیلنا زیادہ مناسب رہے گا، غیرملکی کوچز کی فوج بے کار ہے، نجم سیٹھی منت سماجت کر کے مکی آرتھر کو لے کر آئے۔
مزید پڑھیں: افغانستان کیخلاف شکست؛وسیم اکرم نے کھلاڑیوں کی فٹنس پر سوال اُٹھادیا
آن لائن کوچنگ کو متعارف کرایا مگر یہ کوئی پلے اسٹیشن کا کرکٹ ورلڈکپ نہیں ہے، اسے میدان میں کھیلنا پڑتا ہے، آرتھر کا بھارت آنا بھی کسی کام نہ آیا، ان کے دوست کوچز بھی بے اثر ثابت ہوئے، دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ٹیم جیتی تو سابقہ مینجمنٹ نے کوچز کی تقرری کا کریڈٹ لیا اب ہار رہی ہے تو سب غائب ہیں، ویسے ملکی کوچز بھی کون سے مخلص تھے۔
ثقلین مشتاق نے بھاری معاوضے پر کوچنگ کی اور کوئی ایک اسپنر تیار کر کے نہیں دیا، تلاش کریں تو کئی ایسے پاکستانی کوچز مل سکتے ہیں جو پیسے نہیں ٹیم کو بہتر بنانے کا سوچیں گے،انھیں موقع دیں، افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں نے ورلڈکپ کو ہلکا لیا، ٹیمیں تیاریاں کر رہی تھیں اور پاکستانی ''اسٹارز'' معاوضے بڑھوانے کیلیے بورڈ کو بلیک میل کر رہے تھے، چیف سلیکٹر انضمام الحق نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
تین بار مستعفی ہونے کی دھمکیاں دے کر وہ بھی اپنے کام نکلوا چکے ہیں، وہ بھارت کیوں گئے تھے یہ بھی ایک راز ہے لیکن ان کے جانے کا ٹیم پر منفی اثر ضرور ہوا، اگر خدانخواستہ پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں نہیں پہنچی تو کپتان کی تبدیلی ضروری ہوگی، چیف سلیکٹر کو بھی گھر بھیج کر ایسے سابق کرکٹر کی تقرری کریں جو بھانجے بھتیجوں یا بیٹوں کے بجائے ملکی کرکٹ کا سوچے، جسے چیک پر لکھے زیروز سے زیادہ ملک کیلیے ٹیلنٹ تلاش کرنے میں دلچسپی ہو،غیرملکی کوچز کو بھی فارغ کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: افغانستان کیخلاف شکست؛ گمبھیر نے پاکستان کی خامیوں کی نشاندہی کردی
البتہ بدقسمتی سے سب نے اپنے مستقبل کا ''انتظام'' کیا ہوا ہے، کھلاڑیوں نے 3 سال کا کنٹریکٹ پکڑ لیا،چیف سلیکٹر کو نکالا تو زرتلافی دینا پڑے گا،کوچز بھی قبل از وقت گھر گئے تو کروڑوں روپے لے کر جائیں گے، بورڈ نے بھی بلیک میل ہو کر سب کے مطالبات مان لیے تھے، خیر یہ سب بعد کی باتیں ہیں، ابھی دعائیں کرنی چاہیئں کہ کوئی معجزہ ہو اور ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ جائے، بھارت میں افغانستان سے ہار اورپھر ان کے جشن نے پاکستانیوں کو افسردہ کر دیا لیکن بابر حشمت کو گلے لگا رہے تھے اور گرباز کو بیٹ گفٹ کر رہے تھے۔
زدران نے انٹرویو میں فتح پاکستان سے نکالے جانے والے غیرقانونی مقیم افغانیوں کے نام کر دی اور رمیز راجہ چپ چاپ کھڑے سنتے رہے، ٹوکنے کی ہمت نہ ہوئی، کاش ہمارے سابق اورموجودہ کرکٹرز بھی اپنا امیج بنانے اور نوکری بچانے کا سوچنے کے بجائے ملکی وقار کا تو کچھ خیال کریں، اب جمعے کو جنوبی افریقہ سے میچ ہونا ہے جس نے آخری 8 میں سے7 میچز میں 300 سے زائد رنز بنائے،پاکستانی بولنگ فارم میں نہیں لیکن اب بھی کچھ نہ کیا توپھر گھر واپسی کیلیے بیگز باندھنا ہی مناسب ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
کسی عام انسان کی طرح ٹیم کے جیتنے ہارنے کی خوشی و غم کو محسوس کرتے ہیں،البتہ بطور پروفیشنل اس جذباتی انداز کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے لیکن کبھی ایسا نہیں بھی کر پاتے، ورلڈکپ میں ٹیم بھارت سے ہار گئی افسوس ہوا لیکن دل کو یہ سوچ کر بہلا لیا کہ ایک مضبوط ٹیم سے ہارے، البتہ افغانستان سے ناکامی برداشت نہیں ہوئی، ایک ایسا بچہ جسے ہم نے انگلی پکڑ کر کرکٹ کھیلنا سکھایا لیکن بڑا ہو کر وہ ماننے کو تیار نہیں، الٹا ہمیں ہی آنکھیں دکھاتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان ورلڈکپ سیمی فائنل میں کیسے پہنچ سکتا ہے؟ اگر مگر کا کھیل شروع
اس سے تو کسی صورت نہیں ہارنا چاہیے تھا، بھارت نے ہمارے لیے ورلڈکپ سے پہلے ہی ایک جال بچھایا،کئی میچز کے وینوز حریف ٹیموں کی قوت کو ذہن میں رکھ کر منتخب کیے، افغانستان سے میچ چنئی میں رکھا تو سب کا ماتھا ٹھنکا لیکن آپ کچھ نہیں کر سکتے تھے، یہ جواز کہ افغان ٹیم کے پاس اچھے اسپنرز ہیں لہذا ہم چنئی کی اسپن پچ پر نہیں کھیلیں گے کوئی نہیں مانتا، پی سی بی نے اعتراض بھی کیا جسے آئی سی سی نے ہوا میں اڑا دیا۔
بطور پروفیشنل آپ کو ہر قسم کی پچز پر کھیلنا پڑتا ہے، حالیہ ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کی ناقص کارکردگی سب کے سامنے ہے،بھارت اور آسٹریلیا سے ہار تو سمجھ میں آتی ہے لیکن افغانستان کیخلاف میچ تو بڑے مارجن سے جیتنا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا نہ ہوا، نجانے پاکستان ٹیم کو کیا ہوگیا ہے، پی سی بی نے میچ سے چند منٹ قبل ایک میڈیا نوٹ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ''ٹیم میں کوئی اختلاف نہیں،لڑائی کی میڈیا رپورٹ غلط ہے'' اس کی ٹائمنگ بہت غلط تھی، خبر پاکستان میں چند ہزار لوگوں نے ہی دیکھی یا پڑھی ہو گی لیکن بورڈ نے تردید کر کے خود اسے دنیا بھر میں پھیلا دیا اور لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے شکست پر وقار یونس کمنٹری باکس میں دلبرادشتہ، ویڈیو وائرل
سنا ہے اپنا سی وی کلیئر رکھنے کیلیے کسی نے زور دے کر تردید جاری کروائی، افغان اسپنرز کا سامنا ہمارے بیٹرز ایسے کر رہے تھے جیسے شین وارن اور عبدالقادر سامنے آ گئے ہوں،عبداللہ شفیق نے شروع میں جارحیت دکھائی پھر وہ بھی ڈھیلے پڑ گئے، بابر اعظم کی ففٹی میں بھی کافی بالز کا استعمال ہوا، وہ تو افتخار احمد لاٹھی چارج نہ کرتے تو شاید 250 رنز بھی بمشکل بنتے، ٹیم کا مسئلہ جارحانہ بیٹنگ کرنے والے کرکٹرز کی کمی ہے، کئی پلیئرز کی کوشش اپنا اسکور اور ایوریج بہتر بنانے کی ہوتی ہے۔
صرف افتخار ہی اسٹرائیک ریٹ کا خیال رکھتے ہیں، اب ماضی جیسی کرکٹ نہیں رہی،300 تو نارمل اسکور ہے، اس کے بعد فتح کا خواب دیکھا جا سکتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان ٹیم متواتر ایسا نہیں کر پاتی، بولنگ لائن کو نجانے کس کی نظر لگ گئی،شاہین شاہ آفریدی کی رفتارکم ہونے کے ساتھ سوئنگ بھی کھو گئی۔
مزید پڑھیں: افغانستان کیخلاف شکست؛ بابراعظم کی کپتانی پر سابق کرکٹرز نے سر پکڑ لیا
حسن علی نسبتاً بہتر بولنگ کر رہے ہیں مگر بیٹرز کیلیے بڑا خطرہ ثابت نہیں ہو پاتے، حارث رؤف نے ثابت کر دیا کہ وہ ٹی ٹوئنٹی میں 4 اوورز ہی کرنے کے اہل ہیں،شاداب خان نے آخری 8 ون ڈے میں تقریبا 100 کی اوسط سے 4 وکٹیں لی ہیں، اس کے باوجود ان کا کھیلنا حیران کن ہے،اسامہ میر بھی ایکسپوز ہو گئے، سونے پر سہاگہ فیلڈنگ بھی اتنی ناقص کہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں، بابر اعظم کو مداح کنگ کہتے ہیں۔
کچھ دن قبل ان پر تنقید کرنا ممکن نہ تھا ٹویٹر پر ٹرینڈز چل جاتے لیکن اب''کنگ'' بابرکا تخت و تاج ہلنے لگا ہے،شاید یہ قیادت کرتے ہوئے ان کا آخری ایونٹ ثابت ہو، بابر کے لیے بھی دباؤ سے آزاد ہو کر بطور بیٹر کھیلنا زیادہ مناسب رہے گا، غیرملکی کوچز کی فوج بے کار ہے، نجم سیٹھی منت سماجت کر کے مکی آرتھر کو لے کر آئے۔
مزید پڑھیں: افغانستان کیخلاف شکست؛وسیم اکرم نے کھلاڑیوں کی فٹنس پر سوال اُٹھادیا
آن لائن کوچنگ کو متعارف کرایا مگر یہ کوئی پلے اسٹیشن کا کرکٹ ورلڈکپ نہیں ہے، اسے میدان میں کھیلنا پڑتا ہے، آرتھر کا بھارت آنا بھی کسی کام نہ آیا، ان کے دوست کوچز بھی بے اثر ثابت ہوئے، دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ٹیم جیتی تو سابقہ مینجمنٹ نے کوچز کی تقرری کا کریڈٹ لیا اب ہار رہی ہے تو سب غائب ہیں، ویسے ملکی کوچز بھی کون سے مخلص تھے۔
ثقلین مشتاق نے بھاری معاوضے پر کوچنگ کی اور کوئی ایک اسپنر تیار کر کے نہیں دیا، تلاش کریں تو کئی ایسے پاکستانی کوچز مل سکتے ہیں جو پیسے نہیں ٹیم کو بہتر بنانے کا سوچیں گے،انھیں موقع دیں، افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں نے ورلڈکپ کو ہلکا لیا، ٹیمیں تیاریاں کر رہی تھیں اور پاکستانی ''اسٹارز'' معاوضے بڑھوانے کیلیے بورڈ کو بلیک میل کر رہے تھے، چیف سلیکٹر انضمام الحق نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
تین بار مستعفی ہونے کی دھمکیاں دے کر وہ بھی اپنے کام نکلوا چکے ہیں، وہ بھارت کیوں گئے تھے یہ بھی ایک راز ہے لیکن ان کے جانے کا ٹیم پر منفی اثر ضرور ہوا، اگر خدانخواستہ پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں نہیں پہنچی تو کپتان کی تبدیلی ضروری ہوگی، چیف سلیکٹر کو بھی گھر بھیج کر ایسے سابق کرکٹر کی تقرری کریں جو بھانجے بھتیجوں یا بیٹوں کے بجائے ملکی کرکٹ کا سوچے، جسے چیک پر لکھے زیروز سے زیادہ ملک کیلیے ٹیلنٹ تلاش کرنے میں دلچسپی ہو،غیرملکی کوچز کو بھی فارغ کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: افغانستان کیخلاف شکست؛ گمبھیر نے پاکستان کی خامیوں کی نشاندہی کردی
البتہ بدقسمتی سے سب نے اپنے مستقبل کا ''انتظام'' کیا ہوا ہے، کھلاڑیوں نے 3 سال کا کنٹریکٹ پکڑ لیا،چیف سلیکٹر کو نکالا تو زرتلافی دینا پڑے گا،کوچز بھی قبل از وقت گھر گئے تو کروڑوں روپے لے کر جائیں گے، بورڈ نے بھی بلیک میل ہو کر سب کے مطالبات مان لیے تھے، خیر یہ سب بعد کی باتیں ہیں، ابھی دعائیں کرنی چاہیئں کہ کوئی معجزہ ہو اور ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ جائے، بھارت میں افغانستان سے ہار اورپھر ان کے جشن نے پاکستانیوں کو افسردہ کر دیا لیکن بابر حشمت کو گلے لگا رہے تھے اور گرباز کو بیٹ گفٹ کر رہے تھے۔
زدران نے انٹرویو میں فتح پاکستان سے نکالے جانے والے غیرقانونی مقیم افغانیوں کے نام کر دی اور رمیز راجہ چپ چاپ کھڑے سنتے رہے، ٹوکنے کی ہمت نہ ہوئی، کاش ہمارے سابق اورموجودہ کرکٹرز بھی اپنا امیج بنانے اور نوکری بچانے کا سوچنے کے بجائے ملکی وقار کا تو کچھ خیال کریں، اب جمعے کو جنوبی افریقہ سے میچ ہونا ہے جس نے آخری 8 میں سے7 میچز میں 300 سے زائد رنز بنائے،پاکستانی بولنگ فارم میں نہیں لیکن اب بھی کچھ نہ کیا توپھر گھر واپسی کیلیے بیگز باندھنا ہی مناسب ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)