شریف آدمیوں کا کھیل
ایک زمانہ تھا کہ جب ایک انگریزی محاورے کے مطابق سلطنت برطانیہ پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔
ایک زمانہ تھا کہ جب ایک انگریزی محاورے کے مطابق سلطنت برطانیہ پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ان دنوں اس کے مرکز یعنی انگلستان سے سیاست' سائنس' فنون لطیفہ' سماجیات'قانون' تعلیم اور انسانی حقوق کے حوالے سے جو بھی تصور یا نظام سامنے آتا دنیا کا بیشتر حصہ اس کی تقلید میں فخر محسوس کرتا تھا۔ گویا برطانیہ زندگی کے ہر شعبے میں ایک معیار Standard کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔
عین اس وقت جب اس کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا یہاں ایک ایسے کھیل نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی جو پہلے سے موجود بعض کھیلوں کی جھلک رکھنے کے باوجود ایک انفرادیت کا حامل تھا، نام اس کھیل کا کرکٹ رکھا گیا، ابتدا میں اس کے اندر آج کل کی تیز رفتاری' سنسنی خیزی' شہرت دولت اور ناظرین کی کثرت کی جگہ ایک ٹھہراؤ' سلیقے' تہذیب اور ایک خاص طرح کی Dignity کا غلبہ تھا جس کی وجہ سے اس کو gentelmens game بھی کہا جاتا تھا بہت دنوں تک (تقریباً بیسویں صدی کے وسط تک) اس کا یہ روپ اور بھرم قائم رہا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سلطنت برطانیہ کا سورج سکڑتے سکڑتے صرف برطانیہ کی جغرافیائی حدود تک محدود ہونا شروع ہو گیا تو دیگر بہت سی بات کی طرح اس کھیل اور اس کے تعلقات کی نوعیت بھی بدلنا شروع ہو گئی اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ نہ تو یہ روائتی شریف آدمیوں کا کھیل رہا ہے اور نہ ہی اب اسے محض ایک کھیل کہا جا سکتا ہے۔
ستر کی دہائی میں آسٹریلیا کے ایک میڈیا ٹائی کون کیری پیکر کا جب اپنے کرکٹ بورڈ سے نشریاتی حقوق کے ضمن میں اختلاف پیدا ہوا اس وقت یہ ہر اعتبار سے ایک ''سفید پوش'' کھیل تھا کہ اس سے متعلق لوگ بلکہ ہیروز بھی معاشی اعتبار سے بمشکل ایک درمیانے درجے کی زندگی گزار پاتے تھے اس کے شائقین کا دائرہ محدود اور میڈیا کی سرپرستی محدود تر تھی چنانچہ جو رنگ' گلیمر' دولت کی ریل پیل اور کھلاڑیوں کی میڈیا میں چمک دمک آج نظر آتی ہے اس کا اس زمانے میں گمان بھی مشکل تھا۔
کیری پیکر نے رنگ دار لباسوں' سرخ کی جگ سفید گیند' تیز رفتاری غیر معمولی معاوضوں اور عوامی دلچسپی کے جس انداز کو روشناس کرایا وہ اس کھیل کے پنڈتوں اور نام نہاد ''شریف آدمیوں'' کے لیے نیا بھی تھا اور پریشان کن بھی شاید اسی لیے شروع شروع میں کرکٹ کے اس متبادل اور نئے انداز کو ازراہ تحقیر ''پیکر سرکس'' کا نام دیا گیا، کیری پیکر نے کچھ عرصے کے بعد بوجوہ اپنی دوکان بڑھا دی مگر اب جن بوتل سے باہر نکل چکا تھا چنانچہ یہ کھیل اپنی پیش کش اور مقبولیت کے اعتبار سے اسی ڈگر پر چلتا رہا جس کا آغاز ایک سرمایہ دار نے شاید صرف اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لیے کیا تھا اس سفر کا اب تک کا سب سے جدید اور آخری پڑاؤ بھارت کے آئی پی ایل نما ٹورنامنٹس کی عالمی مقبولیت ہے جس میں کھلاڑی واقعی سرکس کے شیروں کی طرح کرتب دکھاتے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ پیسے کی ریل پیل کے ساتھ ہی وہ سب خرابیاں بھی اس کھیل سے وابستہ ہونا شروع ہو گئیں جو اس کا اٹوٹ انگ ہیں یعنی جھوٹ/ دھوکے بازی' سازش' منافع خوری اور بلیک منی کے سانپ کھیل کے میدانوں میں بھی سرسرانے لگے اور Match Fixing اور Spot Fixing جیسی بہت سی نئی اصطلاحات مختلف واقعات کے حوالے سے سامنے آنے لگیں اور اب یہ حال ہے کہ کیا عام اور نووارد کھلاڑی کیا چیمپیئن اور سپر اسٹارز' کیا انتظامی عہدیدار اور ارب پتی بزنس مین اور کیا طرح طرح کے جواری سب ہی اس رنگ میں رنگے جا رہے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ اس ''بے ایمانی'' کے کاروبار کا سارا ملبہ حسب سابق شروع میں اس کلب کے رنگ دار ممبرز بالخصوص بھارت اور پاکستان پر ڈال دیا گیا پھر اس دائرے کو ویسٹ انڈیز' سری لنکا' زمبابوے اور بنگلہ دیش تک پھیلایا گیا لیکن بہت جلد چاروں سفید فام '''فرشتے'' یعنی آسٹریلیا' انگلینڈ' ساؤتھ افریقہ اور نیوزی لینڈ بھی محفوظ نہ رہ سکے اور ساؤتھ افریقہ کے ایک سابق کپتان ہینسی کرونیے کے بعد اب نیوزی لینڈ کے ایک کھلاڑی لو ونسٹنٹ کا نام بھی ان ''مثالی'' کرداروں میں شامل ہو گیا ہے جن میں اس سے پہلے صرف بھارت کے اظہر الدین اور جدیجا اور پاکستان کے سلیم ملک' عطاء الرحمن' محمد عامر' محمد آصف' سلمان بٹ اور دانش کنیریا کے نام جلی حروف میں لکھے جاتے تھے۔
یہ سب کیوں اور کیسے ہوا اس کے ذکر سے پہلے ایک دلچسپ واقعے کا بیان ضروری ہے کہ اس کا تعلق ان دنوں سے ہے جب اس کھیل پر صرف گوروں کی اجارہ داری تھی (کہ 1920 تک کسی غیر سفید فام قوم کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا حق حاصل نہیں تھا) کہتے ہیں کہ ڈبلیو جی گریس (جس کو اس کی غیر معمولی طویل داڑھی' عمر اور عمدہ استعداد کے باعث پاپائے کرکٹ بھی کہا جاتا ہے) جس دن کھیلنے آتا اس دن اس میچ کے شائقین کی تعداد میں واضح اضافہ ہوجاتا تھا اور میچ کی ٹکٹ بھی چھ پنس سے بڑھا کر بارہ پنس کر دی جاتی تھی ایک دن یوں ہوا کہ ایک نوجوان باؤلر نے کھیل کے پہلے ہی اوور میں بابا جی گریس کی وکٹ اڑا دی۔
امپائر نے وکٹ اڑنے کے بعد زور سے ''نوبال'' کی آواز لگائی اور گریس کو کھیل جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ باؤلر نے غصے سے کہا کہ تم نے آؤٹ ہونے کے بعد نو بال دیا ہے جو غلط بھی ہے اور کھلی بے ایمانی بھی۔ اس پر امپائر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے پیار سے اسے سجھاتے ہوئے کہا کہ برخوردار یہ لوگ بارہ پنس کی ٹکٹ خرچ کر تمہاری بالنگ نہیں بابا جی کی بیٹنگ دیکھنے آئے ہیں۔ یہی کام اگر کوئی دیسی امپائر کرتا یا متعلقہ کھلاڑی کوئی NATIVE ہوتا تو برطانوی پریس دونوں کا جلوس نکال دیتا لیکن اب کتابوں میں یہ واقعہ ''شرفاء کے اس کھیل'' کے ایک جائز اور دلچسپ واقعے کے بطور درج کیا جاتا ہے ؎
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
عرض کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس طرح ایسا انصاف جو بلا تفریق اور شفاف نہ ہو انصاف کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا،اسی طرح آج کے ملزم اور مجرم کھلاڑیوں میں بھی اس اصول کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک فارسی کا شعر کچھ اس طرح سے ہے کہ
درمیان قصر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن' ہشیار باش
یعنی تم نے مجھے عین دریا کے وسط میں ہاتھ پاؤں باندھ کر پھینک دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہو کہ دیکھو ہشیار رہنا کہیں تمہارا لباس گیلا نہ ہو جائے۔ اس وقت اس کھیل کے بیشتر حصے کا کنٹرول پیشہ ور جو اربوں کے ہاتھ میں ہے جن کا مقابلہ صرف اس صورت میں (کسی حد تک ممکن ہے) کہ نہ صرف کھلاڑیوں کو ذہنی' نفسیاتی اور اخلاقی حوالوں سے مضبوط کیا جائے بلکہ اس کے لیے ان کی باقاعدہ تربیت کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی حوالے سے بھی اس میں سے ''لاٹری'' اور داؤ'' کے عناصر کو نکال کر ایک باقاعدہ عزت دار پیشے اور انداز حیات Life Style & mindset کا درجہ دیا جائے تاکہ گلیمر اور غیر یقینی کیفیت کے دباؤ سے نکال کر نوجوان کھلاڑیوں کو سچ مچ کے ایسے ''شریف آدمی'' بننے کی تربیت دی جائے جو رنگ اور نسل کی قید سے آزاد اور بالاتر ہو کر زندگی کو دیکھ' سمجھ اور گزار سکیں۔
عین اس وقت جب اس کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا یہاں ایک ایسے کھیل نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی جو پہلے سے موجود بعض کھیلوں کی جھلک رکھنے کے باوجود ایک انفرادیت کا حامل تھا، نام اس کھیل کا کرکٹ رکھا گیا، ابتدا میں اس کے اندر آج کل کی تیز رفتاری' سنسنی خیزی' شہرت دولت اور ناظرین کی کثرت کی جگہ ایک ٹھہراؤ' سلیقے' تہذیب اور ایک خاص طرح کی Dignity کا غلبہ تھا جس کی وجہ سے اس کو gentelmens game بھی کہا جاتا تھا بہت دنوں تک (تقریباً بیسویں صدی کے وسط تک) اس کا یہ روپ اور بھرم قائم رہا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سلطنت برطانیہ کا سورج سکڑتے سکڑتے صرف برطانیہ کی جغرافیائی حدود تک محدود ہونا شروع ہو گیا تو دیگر بہت سی بات کی طرح اس کھیل اور اس کے تعلقات کی نوعیت بھی بدلنا شروع ہو گئی اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ نہ تو یہ روائتی شریف آدمیوں کا کھیل رہا ہے اور نہ ہی اب اسے محض ایک کھیل کہا جا سکتا ہے۔
ستر کی دہائی میں آسٹریلیا کے ایک میڈیا ٹائی کون کیری پیکر کا جب اپنے کرکٹ بورڈ سے نشریاتی حقوق کے ضمن میں اختلاف پیدا ہوا اس وقت یہ ہر اعتبار سے ایک ''سفید پوش'' کھیل تھا کہ اس سے متعلق لوگ بلکہ ہیروز بھی معاشی اعتبار سے بمشکل ایک درمیانے درجے کی زندگی گزار پاتے تھے اس کے شائقین کا دائرہ محدود اور میڈیا کی سرپرستی محدود تر تھی چنانچہ جو رنگ' گلیمر' دولت کی ریل پیل اور کھلاڑیوں کی میڈیا میں چمک دمک آج نظر آتی ہے اس کا اس زمانے میں گمان بھی مشکل تھا۔
کیری پیکر نے رنگ دار لباسوں' سرخ کی جگ سفید گیند' تیز رفتاری غیر معمولی معاوضوں اور عوامی دلچسپی کے جس انداز کو روشناس کرایا وہ اس کھیل کے پنڈتوں اور نام نہاد ''شریف آدمیوں'' کے لیے نیا بھی تھا اور پریشان کن بھی شاید اسی لیے شروع شروع میں کرکٹ کے اس متبادل اور نئے انداز کو ازراہ تحقیر ''پیکر سرکس'' کا نام دیا گیا، کیری پیکر نے کچھ عرصے کے بعد بوجوہ اپنی دوکان بڑھا دی مگر اب جن بوتل سے باہر نکل چکا تھا چنانچہ یہ کھیل اپنی پیش کش اور مقبولیت کے اعتبار سے اسی ڈگر پر چلتا رہا جس کا آغاز ایک سرمایہ دار نے شاید صرف اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لیے کیا تھا اس سفر کا اب تک کا سب سے جدید اور آخری پڑاؤ بھارت کے آئی پی ایل نما ٹورنامنٹس کی عالمی مقبولیت ہے جس میں کھلاڑی واقعی سرکس کے شیروں کی طرح کرتب دکھاتے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ پیسے کی ریل پیل کے ساتھ ہی وہ سب خرابیاں بھی اس کھیل سے وابستہ ہونا شروع ہو گئیں جو اس کا اٹوٹ انگ ہیں یعنی جھوٹ/ دھوکے بازی' سازش' منافع خوری اور بلیک منی کے سانپ کھیل کے میدانوں میں بھی سرسرانے لگے اور Match Fixing اور Spot Fixing جیسی بہت سی نئی اصطلاحات مختلف واقعات کے حوالے سے سامنے آنے لگیں اور اب یہ حال ہے کہ کیا عام اور نووارد کھلاڑی کیا چیمپیئن اور سپر اسٹارز' کیا انتظامی عہدیدار اور ارب پتی بزنس مین اور کیا طرح طرح کے جواری سب ہی اس رنگ میں رنگے جا رہے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ اس ''بے ایمانی'' کے کاروبار کا سارا ملبہ حسب سابق شروع میں اس کلب کے رنگ دار ممبرز بالخصوص بھارت اور پاکستان پر ڈال دیا گیا پھر اس دائرے کو ویسٹ انڈیز' سری لنکا' زمبابوے اور بنگلہ دیش تک پھیلایا گیا لیکن بہت جلد چاروں سفید فام '''فرشتے'' یعنی آسٹریلیا' انگلینڈ' ساؤتھ افریقہ اور نیوزی لینڈ بھی محفوظ نہ رہ سکے اور ساؤتھ افریقہ کے ایک سابق کپتان ہینسی کرونیے کے بعد اب نیوزی لینڈ کے ایک کھلاڑی لو ونسٹنٹ کا نام بھی ان ''مثالی'' کرداروں میں شامل ہو گیا ہے جن میں اس سے پہلے صرف بھارت کے اظہر الدین اور جدیجا اور پاکستان کے سلیم ملک' عطاء الرحمن' محمد عامر' محمد آصف' سلمان بٹ اور دانش کنیریا کے نام جلی حروف میں لکھے جاتے تھے۔
یہ سب کیوں اور کیسے ہوا اس کے ذکر سے پہلے ایک دلچسپ واقعے کا بیان ضروری ہے کہ اس کا تعلق ان دنوں سے ہے جب اس کھیل پر صرف گوروں کی اجارہ داری تھی (کہ 1920 تک کسی غیر سفید فام قوم کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا حق حاصل نہیں تھا) کہتے ہیں کہ ڈبلیو جی گریس (جس کو اس کی غیر معمولی طویل داڑھی' عمر اور عمدہ استعداد کے باعث پاپائے کرکٹ بھی کہا جاتا ہے) جس دن کھیلنے آتا اس دن اس میچ کے شائقین کی تعداد میں واضح اضافہ ہوجاتا تھا اور میچ کی ٹکٹ بھی چھ پنس سے بڑھا کر بارہ پنس کر دی جاتی تھی ایک دن یوں ہوا کہ ایک نوجوان باؤلر نے کھیل کے پہلے ہی اوور میں بابا جی گریس کی وکٹ اڑا دی۔
امپائر نے وکٹ اڑنے کے بعد زور سے ''نوبال'' کی آواز لگائی اور گریس کو کھیل جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ باؤلر نے غصے سے کہا کہ تم نے آؤٹ ہونے کے بعد نو بال دیا ہے جو غلط بھی ہے اور کھلی بے ایمانی بھی۔ اس پر امپائر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے پیار سے اسے سجھاتے ہوئے کہا کہ برخوردار یہ لوگ بارہ پنس کی ٹکٹ خرچ کر تمہاری بالنگ نہیں بابا جی کی بیٹنگ دیکھنے آئے ہیں۔ یہی کام اگر کوئی دیسی امپائر کرتا یا متعلقہ کھلاڑی کوئی NATIVE ہوتا تو برطانوی پریس دونوں کا جلوس نکال دیتا لیکن اب کتابوں میں یہ واقعہ ''شرفاء کے اس کھیل'' کے ایک جائز اور دلچسپ واقعے کے بطور درج کیا جاتا ہے ؎
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
عرض کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس طرح ایسا انصاف جو بلا تفریق اور شفاف نہ ہو انصاف کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا،اسی طرح آج کے ملزم اور مجرم کھلاڑیوں میں بھی اس اصول کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک فارسی کا شعر کچھ اس طرح سے ہے کہ
درمیان قصر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن' ہشیار باش
یعنی تم نے مجھے عین دریا کے وسط میں ہاتھ پاؤں باندھ کر پھینک دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہو کہ دیکھو ہشیار رہنا کہیں تمہارا لباس گیلا نہ ہو جائے۔ اس وقت اس کھیل کے بیشتر حصے کا کنٹرول پیشہ ور جو اربوں کے ہاتھ میں ہے جن کا مقابلہ صرف اس صورت میں (کسی حد تک ممکن ہے) کہ نہ صرف کھلاڑیوں کو ذہنی' نفسیاتی اور اخلاقی حوالوں سے مضبوط کیا جائے بلکہ اس کے لیے ان کی باقاعدہ تربیت کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی حوالے سے بھی اس میں سے ''لاٹری'' اور داؤ'' کے عناصر کو نکال کر ایک باقاعدہ عزت دار پیشے اور انداز حیات Life Style & mindset کا درجہ دیا جائے تاکہ گلیمر اور غیر یقینی کیفیت کے دباؤ سے نکال کر نوجوان کھلاڑیوں کو سچ مچ کے ایسے ''شریف آدمی'' بننے کی تربیت دی جائے جو رنگ اور نسل کی قید سے آزاد اور بالاتر ہو کر زندگی کو دیکھ' سمجھ اور گزار سکیں۔