آگ اور پیشہ

کبھی ہم خوبصورت تھے،اب ہرکوئی بدصورتی کاالزام لگاتاہے۔قصور نہ ذرایع ابلاغ کاہے نہ صحافیوں کا،سب کیا دھرا اس نظام کاہے


Syed Talat Hussain May 19, 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

کبھی ہم مسئلے کا حل تھے مگر اب مسئلہ ہیں۔ کبھی ہمارے حق میں احتجاج ہو تا تھا اب پتھر بردار گروہ گھیراؤاور جلاؤکی نیت کے ساتھ احتجاج کررہے ہیں۔ کبھی ہم خوبصورت تھے، اب ہر کوئی بدصورتی کا الزام لگاتا ہے۔ قصور نہ ذرایع ابلاغ کا ہے نہ صحافیوں کا،یہ سب کیا دھرا اس نظام کا ہے جسے چلانے والے مالکان اور پھیلانے والے وہ منشی ہیں جو صحافی کے لبادے میں سامنے آکر بیٹھ گئے اور ہر وہ کام کرنے لگے جس کا تعلق اس شعبے کے کسی ضابطے کے ساتھ نہیں تھا۔

پاکستان میں پچھلے دس سال میں صحافیوں نے قربانیوں کے ذریعے نام بھی پیدا کیا اور عظیم تبدیلیوں کا باعث بھی بنے۔معاشرے کو سوال کرنے کی عادت ڈالی اور چھپے ہو ئے چہر ے بے نقاب کیے۔ بدعنوانی، ظلم، استحصال اور لوٹ مار کے گرم بازار کو عوام کے سامنے ایسا رکھا کہ اب ان سے دھوکا کرنے والے دو مرتبہ سوچتے ضرور ہیں۔ فیس بک، بلاگ اور سو شل میڈیا نے جمہوریت کو ایسے متعارف کرایا کہ اس میں موجود دیوقامت دانش ور وضاحتیں کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اسلامی دنیا کی تاریخ میں خون خرابے کے بغیر آئینی، جمہوری تبدیلیوں کا عمل پاکستان میں ذرایع ابلاغ نے مکمل کیا۔ انتخابات اور عدالتوں پر حملوں کے بعد کے حالات ذرایع ابلا غ کی بہتر ین کار کر دگی کے بغیر کبھی بھی نہ بن پاتے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ اگر کسی شعبے نے اگر حقیقت میں اپنی طاقت کا احسا س دلا یا تو وہ پا کستان کا میڈیا ہے۔

بدقسمتی سے یہ طا قت بعض حلقوں میں گھمنڈ کی شکل اختیار کر گئی۔غرور اور اجاہ داری مل کر مالکا نہ جبر میں تبدیل ہوگئی۔صحافیوں کو کونوں میں دکھیل دیا گیا، شعبدوں بازوں اور نوسر بازوں کی منڈی لگا دی گئی۔اس تمام عمل کے دوران ریاست کے ادارے اور سیاسی جماعتیں ہنسی خوشی اس پانی سے ہاتھ دھوتی رہیں۔ عمران خان سمیت تمام سیاست دانوں نے میڈیا کو سیاسی زینے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے وہ زینت حاصل کی جس کی وجہ سے وہ آج طاقت کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہمیں وہ دن یاد ہے جب ایک انٹرویو کرانے کے لیے یہ زعماء ہفتوں منتیں کیا کر تے تھے۔خبر چلانے کے لیے دفتروں کے چکر لگانا عام سی بات تھی۔

اچھے اور برے کی تمیز (جس کے بارے میں ہر اچھا صحا فی مسلسل آواز اٹھا رہا تھا)کا معاملہ ان کے لیے تر جیح نہیں تھا۔ دہشت گردوں سے نپٹنا ہو، عسکری معرکوں کی کامیابیوں کے جھنڈوں کو دکھلانا ہو، ریاست کے دشمنوں کے خلاف بیان جاری کرنا ہو یا اپنے مخالفین کو نیچا دکھانا ہو، سیاست، ریاست اور صحافت میں موجود اجاہ داروں کا اکٹھ ان تینوں کے لیے فائدہ مند تصورکیا جاتا تھا چونکہ اس وقت میڈیا کی تشہیر فائدہ مند تھی لہٰذا کچلے گئے اصولوں پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں تھا۔ یقیناً ذرایع ابلاغ کے چلانے والوں کو احساس کرنا چاہیے تھا کہ بے اصولی کے جو جن وہ بوتلوں سے نکال رہے ہیں وہ کسی دن ان سب کو ہڑپ کر جائیں گے۔ جو گھوڑا ایک مرتبہ تانگے میں جوت دیا جاتا ہے وہ آزاد دوڑ میں شریک ہونے کے قابل نہیں رہتا۔ ذرایع ابلاغ کے چلانے والوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے تھا کہ کوئی ادارہ معاشرے کی ثقافتی اساس اور قومی ترجیحات کے خلاف ایجنڈا چلا کر زیادہ دیر اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا۔

صبح کے شو زمیں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور آج کل جو حالات،حالات حاضرہ کے بنا دیے گئے ہیں ان میں سے نہ خیر کی خبر نکلی اور نہ نکلے گی۔ پروپیگنڈا اور ذاتی جنگ و جدل اداروں کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ اگر جھوٹے اور مکار معاشرے کے سر پر سنجیدہ کرداروں کی طور پر تھو پے جائیں گئے تو بدی کا راج از خود قائم ہوجائے گا۔ اصولوں اور ظابطوں سے انخراف کی بیماری پولیو وائرس سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور میڈیا کے چلانے والوں نے اس وائرس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، پیار سے پالا اور توانا کیا۔ لہٰذا آج جو آپ دیکھ ر ہے ہیں وہ پچھلے دس سالوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ صحافت کے خلاف ہونے والی سازشوں کا سب سے بڑا توڑ صحافتی ضابطے ہیں۔سیاسی طور پر بازو مروڑنے والے ہوں یا ریاستی جبر کو لاگو کر نے والے۔ اچھی صحافت کے اصول یعنی توازن، تصدیق، تجزیے اور طاقت کے داؤ پیچ سے اجتناب ہمیشہ کارگر ہتھیار ثابت ہوتے ہیں۔

لوگوں کی نظر میں آج کل جو کچھ ہورہا ہے وہ تطہیر اور درستگی کا عمل ہے۔ یہ جراحی ہے جس سے پیپ نکالی جارہی ہے۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ایک خرابی کو ختم کرنے کے لیے بیسووں خرابیوں کا سہارہ لیا گیا ہے۔ جن معاملات کو قانون، آئین اور پروفیشنل اصولوں کے تحت طے کیا جاتا تھا، وہ فتویٰ دینے والوں کے ہاتھوں میں دے دیے گئے ہیں۔ جہاں پر ذہانت اور تدبیر استعمال کرنی تھی وہاں پر ہجوم کو چھوڑ دیا گیا ہے۔آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں پر میر ے دوست صحافیوں کو صرف اس وجہ سے اپنی شناخت چھپانی پڑتی ہے کہ وہ کسی ایک خاص گروپ سے منسلک ہیں۔اس گروپ نے کیا کیا؟کس کے کہنے پر کیا؟ اس کی تمام ذمے داری کا بوجھ اب صحافیوں کے کندھے پر ڈال دیا گیا ہے۔

اس طرح اداروں کی لڑائی میںصحافت کے نام پر بدترین جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ بہروپیے، اٹھائی گیرے جو اپنی قیمت لگوانا جانتے ہیں ہر طرف سے خود کو خدمت کے لیے پیش کر رہے ہیں۔صحافتی ادارے اندر اور باہر سے شدید انتشار کا شکار ہیں۔اگر اخبارات اور چینل صحافی خود چلا رہے ہوتے تو مسئلہ نہ ہوتا مگر کیا کریں، مالکان کے پلیٹ فارم کے بغیر صحافت نہیں کی جاسکتی۔اگر ہم پروفیشنل صحافیوں نے ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہ لیا تو ہمارے کام کرنے کی گنجائش ختم ہو جائے گی۔ ہمیں یا مالکان، سیاسی اور ریاستی اداروں کے پتلی تماشوں کا حصہ بننا ہو گا اور یا پھر کھیتی باڑی کرنی ہوگی۔اس وجہ سے ذرایع ابلاغ کی تنظیمیں، پریس کلبز اور نمایندہ ادارے صحافت کے اصولوں کی پامالی پر خاموش نہیں رہ سکتے، اُن کو بو لنا ہوگا۔افراد کی غلطیاں پیشے کو نہیں بھگتنی چاہیے۔پاکستان کا صحافی محنت اور دیانت دارہے۔ یہ کیا دھرا اُس کا نہیں ہے۔ اگرچہ جو آگ ہر طرف لگ چکی ہے، وہ اُس کے تلووں کو بھی جلا رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں