ادب سرکاری سرپرستی سے محروم کیوں
علم وادب کا بنیادی تعلق قاری اورکتاب کے باہمی رشتے سے ہے۔ کتاب کا باہمی تعلق معاشرے اور معاشرتی زندگی سے ہے۔
علم وادب کا بنیادی تعلق قاری اورکتاب کے باہمی رشتے سے ہے۔ کتاب کا باہمی تعلق معاشرے اور معاشرتی زندگی سے ہے۔ جس میں زندگی کے ہر ایک پہلو اور ہر رخ کا تجزیہ انفرادی واجتماعی سطح پر کیا جاتا ہے۔ جب سے قاری اورکتاب کا باہمی تعلق ٹوٹا ہے معاشرہ بتدریج ادبی لحاظ سے زوال پذیر ہورہا ہے ماضی بعید ہو یا ماضی قریب، علم و ادب کا چراغ صرف ان ہی لوگوں کے لہو تلے درخشاں و تابندہ رہا ہے کہ جو اپنی گھریلو، خاندانی یا معاشرتی تربیت یا پھر اپنی روشن خیالی کی وجہ سے علم وادب سے غیر معمولی شغف رکھتے تھے، اگرچہ اب ماضی بعید کا وہ دور اس عروج وکمال اور امتیازی حیثیت کے ساتھ ناپید و معدوم ہوگیا اور صرف تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیا ہے، جس کے مطالعے سے حضرت انسان کے علم و ادب سے عشق کے اعلیٰ ترین معیار کی داستان کی جھلک بخوبی نظر آتی ہے۔
پہلے شائقین علوم اور تشنگان علوم کی آنکھ کو پڑھنے سے، ہاتھ کو لکھنے سے اور دماغ کو غوروفکر سے کبھی فرصت نہ ہوتی تھی اور انھوں نے اپنی تربیت وفطرت کی بدولت علم وادب میں بڑے کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو علم وادب کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ان لوگوں کی مثال تربیت سے زیادہ فطرت پر قائم ہے، کیوں کہ آج کا دور تربیت سے خالی ہے، گھر کی تربیت سے زیادہ باہرکا ماحول اثر انداز ہوتا ہے، آج عام طور پر آنکھ کو فلمیں دیکھنے، ہاتھ کو اسلحہ تھامنے اور دماغ کو زیادہ سے زیادہ مادی خواہشات کی تکمیل کرنے اور اپنا قیمتی وقت بے کار دوستوں، یاروں میں فضول گفتگو کرکے ضایع کرنے کا ہے، اب کتاب، قلم اور غوروفکر کی عادت تقریباً ناپید ہے، انفرادی طور پر جو لوگ موجود ہیں وہ حالات کے تغیر کا شکار نہیں ہوسکے اور ماحول کی گرد نے انھیں آلودہ نہیں کیا یا انھوں نے خود کو اس آلودگی سے محفوظ رکھا، آج کے دور میں لوگ غالب اور میر بننا نہیں چاہتے ان کا کہنا ہے کہ علم وادب نے آخرغالب اور میرکوکیا دیا؟
پھرتے ہیں میر خوارکوئی پوچھتا نہیں
جب کہ غالب بے چارے یہی کہتے رہے کہ ''رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن '' وہ جب تک زندہ رہے بھوکے رہے، پیاسے رہے، مقروض رہے، مفلس رہے، فقیری واحساس محرومی کی زندہ تصویر بنے رہے اور ان کے دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد کوئی ان کے قبرومزار پر دو پھول بھی نہیں چڑھاتا، حسرت و یاس کی ایک تصویر نظر آتا ہے مزار...! دیگر شاعروں اور ادیبوں کا حال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہ رہا، اکثر شاعر و ادیب خستہ حال اور معاشی مسائل میں ہی گرفتار نظر آتے ہیں۔
اس کے تدارک کے لیے کسی حکومت نے کبھی کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا۔موجودہ دور میں اور آیندہ بھی کوئی کسی قسم کی نوید مستقبل کی امید نہیں ہے لہٰذا اکثریت ایسے افراد کی ہمارے معاشرے میں نظر آتی ہے جو اس نظریے کے حامی ہیں کہ کام وہ کیا جائے جس کے باعث ہوائے نفس کی تسکین کے لیے زیادہ سے زیادہ مادی خواہشات و ضروریات کو حاصل کیا جائے اور زندگی کاروبار، تجارت، زراعت، صنعت وحرفت کے ماہر کی حیثیت سے گزاری جائے، ان کے نزدیک کتابوں میں، لوگوں کے ذہنوں میں اور تاریخ میں زندہ رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اگرچہ یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ ہر کوئی ادیب وشاعر نہیں بن سکتا، اگر ہر ایک ادیب و شاعر اور اہل قلم بن جائے تو پھر دوسرے کام کون کرے گا، اس طرح تو کاروبار زندگی مفلوج اور ناکارہ ہوکر رہ جائے گا۔ دنیا میں علم و ادب ادیبوں کے ہی دم سے ہے، اگر معاشرے کے افراد میں کوئی بھی علم و ادب کا رسیا اور شوقین نہ ہو تو علم و ادب دنیا سے اٹھنا شروع ہوجائے گا۔ اﷲ رب العزت کا نظام کامل ہے کہ اس نے اس دنیا میں مختلف مکاتب فکر اور نظریات کے حامل افراد پیدا کیے ہیں اور پھر انھیں اس دنیا میں اپنے اپنے کاموں اور پیشوں و شعبوں میں مشغول و مصروف کردیا، کسی بھی انسان کے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں مشغول و مگن ہونے کی وجوہات و اسباب میری نظر میں صرف دو ہی ہیں۔ ایک تعلیم و تربیت اور دوسرے انسانی جبلت کے تحت فطری و قدرتی طور پر طبیعت انسانی کا میلان و رجحان۔
آج کے دور میں جب لوگ تاریخ میں زندہ رہنا کم ہی چاہتے ہیں، صرف چند ہی ایسے علم و ادب کے دیوانے ہیں جو اس روشن سفر پر گامزن ہیں اور ان کا تعلق اس ناقص تعلیم و تربیت سے نہیں بلکہ انھیں ورثے میں ملی فطری و قدرتی جبلت و طبیعت کے میلان کی بدولت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم و تربیت کا نظام بھی اس قدر متحرک بنایا جائے جس طرح ماضی بعید میں مسلم نشاۃ ثانیہ کا دور تھا۔ آج مٹھی بھر اہل علم و قلم اور شائقین ادب ہی اس سلسلے میں مصروف عمل ہیں۔ اکثریت علم و ادب سے بے اعتنائی و غفلت کا شکار ہے اس سلسلے میں انفرادی و اجتماعی قومی و بین الاقوامی سطح پر سرپرستی اور معاونت کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ماضی بعید میں اہل علم و قلم کی سرکاری سرپرستی بھرپور منظم اور مربوط طریقے سے کی جاتی تھی اور انھیں بیحد عزت و عظمت، احترام اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جس کے باعث عوامی سطح پر بھی علم و ادب کی جانب لگاؤ، جھکاؤ، میلان، رجحان، شغف و رغبت کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے اور نامور و ہمہ جہت شخصیات نے اس عالم رنگ و گل میں جنم لیا، جنھیں علم و ادب پر مکمل طور پر عبور حاصل ہوا کرتا تھا لیکن آج کی حکومتیں خصوصاً جن میں پاکستان سر فہرست ہے، علم و ادب کی سرپرستی اور پذیرائی سے قطعی عاری ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ حوصلہ شکنی کا شکار ہے۔ یہاں کھیلوں پر مکمل توجہ دی جاتی ہے، کھیلوں کی سرکاری سرپرستی بھی کی جاتی ہے، کھلاڑیوں اور فنکاروں کو سونے میں تولنے کی باتیں بھی ہوتی ہیں، عملاً بھاری امداد و معاونت کی شکل میں اس کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے اسی طرح سے دوسرے وہ تمام معاملات بھی جس کا ملک کی ترقی و عروج، اصلاح، فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں، ان کی ملکی سطح پر تعریف و توصیف کے پل باندھنا اور بھاری مادی امداد و حوصلہ افزائی کرنا اب ایک عام سی روایت بن چکی ہے ۔
جس کے باعث نوجوانوں کی اکثریت اب عالم و فاضل اور ادیب و شاعر نیز اہل علم و قلم بننے کو فضول کام سمجھتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کی سوچ تک اس خیال و فکر سے قطعی عاری ہوچکی ہے، اکثریت کا رجحان غیر معمولی طور پر کھیلوں اور سیاست کی جانب ہوچکا ہے جب تک ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کے ہاتھوں میں کتاب اور قلم نہ نظر آئے اور گلی گلی ایسے بصیرت افروز مناظر عام نہ ہوجائیں جس طرح مسلم نشاۃ ثانیہ کے وقت تھے، بات نہیں بنے گی لیکن یہ ہمارے معاشرے میں بغیر کسی کشش یا دلچسپی کے ناممکن ہوگا لہٰذا اس موجودہ صورتحال کو ختم کرنے کے لیے فطرت و طبیعت کے ساتھ ساتھ مکمل تعلیم و تربیت اور بھرپور سرکاری سرپرستی بھی از حد ضروری ہے۔ بصورت دیگر آیندہ کا دور علم و ادب کے ماہرین اور شائقین دونوں پہلوؤں سے آہستہ آہستہ بالکل یتیم ہوجائے گا۔
پہلے شائقین علوم اور تشنگان علوم کی آنکھ کو پڑھنے سے، ہاتھ کو لکھنے سے اور دماغ کو غوروفکر سے کبھی فرصت نہ ہوتی تھی اور انھوں نے اپنی تربیت وفطرت کی بدولت علم وادب میں بڑے کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو علم وادب کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ان لوگوں کی مثال تربیت سے زیادہ فطرت پر قائم ہے، کیوں کہ آج کا دور تربیت سے خالی ہے، گھر کی تربیت سے زیادہ باہرکا ماحول اثر انداز ہوتا ہے، آج عام طور پر آنکھ کو فلمیں دیکھنے، ہاتھ کو اسلحہ تھامنے اور دماغ کو زیادہ سے زیادہ مادی خواہشات کی تکمیل کرنے اور اپنا قیمتی وقت بے کار دوستوں، یاروں میں فضول گفتگو کرکے ضایع کرنے کا ہے، اب کتاب، قلم اور غوروفکر کی عادت تقریباً ناپید ہے، انفرادی طور پر جو لوگ موجود ہیں وہ حالات کے تغیر کا شکار نہیں ہوسکے اور ماحول کی گرد نے انھیں آلودہ نہیں کیا یا انھوں نے خود کو اس آلودگی سے محفوظ رکھا، آج کے دور میں لوگ غالب اور میر بننا نہیں چاہتے ان کا کہنا ہے کہ علم وادب نے آخرغالب اور میرکوکیا دیا؟
پھرتے ہیں میر خوارکوئی پوچھتا نہیں
جب کہ غالب بے چارے یہی کہتے رہے کہ ''رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن '' وہ جب تک زندہ رہے بھوکے رہے، پیاسے رہے، مقروض رہے، مفلس رہے، فقیری واحساس محرومی کی زندہ تصویر بنے رہے اور ان کے دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد کوئی ان کے قبرومزار پر دو پھول بھی نہیں چڑھاتا، حسرت و یاس کی ایک تصویر نظر آتا ہے مزار...! دیگر شاعروں اور ادیبوں کا حال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہ رہا، اکثر شاعر و ادیب خستہ حال اور معاشی مسائل میں ہی گرفتار نظر آتے ہیں۔
اس کے تدارک کے لیے کسی حکومت نے کبھی کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا۔موجودہ دور میں اور آیندہ بھی کوئی کسی قسم کی نوید مستقبل کی امید نہیں ہے لہٰذا اکثریت ایسے افراد کی ہمارے معاشرے میں نظر آتی ہے جو اس نظریے کے حامی ہیں کہ کام وہ کیا جائے جس کے باعث ہوائے نفس کی تسکین کے لیے زیادہ سے زیادہ مادی خواہشات و ضروریات کو حاصل کیا جائے اور زندگی کاروبار، تجارت، زراعت، صنعت وحرفت کے ماہر کی حیثیت سے گزاری جائے، ان کے نزدیک کتابوں میں، لوگوں کے ذہنوں میں اور تاریخ میں زندہ رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اگرچہ یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ ہر کوئی ادیب وشاعر نہیں بن سکتا، اگر ہر ایک ادیب و شاعر اور اہل قلم بن جائے تو پھر دوسرے کام کون کرے گا، اس طرح تو کاروبار زندگی مفلوج اور ناکارہ ہوکر رہ جائے گا۔ دنیا میں علم و ادب ادیبوں کے ہی دم سے ہے، اگر معاشرے کے افراد میں کوئی بھی علم و ادب کا رسیا اور شوقین نہ ہو تو علم و ادب دنیا سے اٹھنا شروع ہوجائے گا۔ اﷲ رب العزت کا نظام کامل ہے کہ اس نے اس دنیا میں مختلف مکاتب فکر اور نظریات کے حامل افراد پیدا کیے ہیں اور پھر انھیں اس دنیا میں اپنے اپنے کاموں اور پیشوں و شعبوں میں مشغول و مصروف کردیا، کسی بھی انسان کے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں مشغول و مگن ہونے کی وجوہات و اسباب میری نظر میں صرف دو ہی ہیں۔ ایک تعلیم و تربیت اور دوسرے انسانی جبلت کے تحت فطری و قدرتی طور پر طبیعت انسانی کا میلان و رجحان۔
آج کے دور میں جب لوگ تاریخ میں زندہ رہنا کم ہی چاہتے ہیں، صرف چند ہی ایسے علم و ادب کے دیوانے ہیں جو اس روشن سفر پر گامزن ہیں اور ان کا تعلق اس ناقص تعلیم و تربیت سے نہیں بلکہ انھیں ورثے میں ملی فطری و قدرتی جبلت و طبیعت کے میلان کی بدولت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم و تربیت کا نظام بھی اس قدر متحرک بنایا جائے جس طرح ماضی بعید میں مسلم نشاۃ ثانیہ کا دور تھا۔ آج مٹھی بھر اہل علم و قلم اور شائقین ادب ہی اس سلسلے میں مصروف عمل ہیں۔ اکثریت علم و ادب سے بے اعتنائی و غفلت کا شکار ہے اس سلسلے میں انفرادی و اجتماعی قومی و بین الاقوامی سطح پر سرپرستی اور معاونت کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ماضی بعید میں اہل علم و قلم کی سرکاری سرپرستی بھرپور منظم اور مربوط طریقے سے کی جاتی تھی اور انھیں بیحد عزت و عظمت، احترام اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جس کے باعث عوامی سطح پر بھی علم و ادب کی جانب لگاؤ، جھکاؤ، میلان، رجحان، شغف و رغبت کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے اور نامور و ہمہ جہت شخصیات نے اس عالم رنگ و گل میں جنم لیا، جنھیں علم و ادب پر مکمل طور پر عبور حاصل ہوا کرتا تھا لیکن آج کی حکومتیں خصوصاً جن میں پاکستان سر فہرست ہے، علم و ادب کی سرپرستی اور پذیرائی سے قطعی عاری ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ حوصلہ شکنی کا شکار ہے۔ یہاں کھیلوں پر مکمل توجہ دی جاتی ہے، کھیلوں کی سرکاری سرپرستی بھی کی جاتی ہے، کھلاڑیوں اور فنکاروں کو سونے میں تولنے کی باتیں بھی ہوتی ہیں، عملاً بھاری امداد و معاونت کی شکل میں اس کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے اسی طرح سے دوسرے وہ تمام معاملات بھی جس کا ملک کی ترقی و عروج، اصلاح، فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں، ان کی ملکی سطح پر تعریف و توصیف کے پل باندھنا اور بھاری مادی امداد و حوصلہ افزائی کرنا اب ایک عام سی روایت بن چکی ہے ۔
جس کے باعث نوجوانوں کی اکثریت اب عالم و فاضل اور ادیب و شاعر نیز اہل علم و قلم بننے کو فضول کام سمجھتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کی سوچ تک اس خیال و فکر سے قطعی عاری ہوچکی ہے، اکثریت کا رجحان غیر معمولی طور پر کھیلوں اور سیاست کی جانب ہوچکا ہے جب تک ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کے ہاتھوں میں کتاب اور قلم نہ نظر آئے اور گلی گلی ایسے بصیرت افروز مناظر عام نہ ہوجائیں جس طرح مسلم نشاۃ ثانیہ کے وقت تھے، بات نہیں بنے گی لیکن یہ ہمارے معاشرے میں بغیر کسی کشش یا دلچسپی کے ناممکن ہوگا لہٰذا اس موجودہ صورتحال کو ختم کرنے کے لیے فطرت و طبیعت کے ساتھ ساتھ مکمل تعلیم و تربیت اور بھرپور سرکاری سرپرستی بھی از حد ضروری ہے۔ بصورت دیگر آیندہ کا دور علم و ادب کے ماہرین اور شائقین دونوں پہلوؤں سے آہستہ آہستہ بالکل یتیم ہوجائے گا۔