منتشر یادیں
نتیجہ انتظامیہ کا انحطاط اور عوام میں حکومت پر عدم اعتماد کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔
منگلا ڈیم کے بجلی گھرکی دیوار پر میورل بنانے کے لیے عالمی بینک نے ایک بڑی رقم منظورکی اور فیصلہ ہوا کہ صادقین یہ میورل بنائیں گے۔یہ 1960 کی دہائی کے ابتدائی سال کی بات ہے۔ نورالحسن جعفری واپڈا کے ممبر فنانس تھے۔ ان کو جستجو ہوئی کہ عالمی بینک نے جو اس کام کے لیے ایک خطیر رقم دی ہے تو یقیناً صادقین کوئی بین الاقوامی شہرت کے مصور ہوں گے لہٰذا ان سے ملنا چاہیے۔ چنانچہ متعلقہ افسروں کو اطلاع دے کر یہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ منگلا پہنچ گئے مگر جب پاور ہاؤس پہنچے تو صادقین موجود نہیں تھے جس کمرے میں بیٹھ کر وہ میورل کے پینل پرکام کررہے تھے وہاں پینٹ، برش اور بیئر کی بوتلیں اور ڈبے بکھرے پڑے تھے، پندرہ بیس فٹ اونچے پینل کے لیے سیڑھیاں وغیرہ بھی پڑی تھیں۔ کمرے میں بے ترتیبی نمایاں تھی، گرد بھی پڑی ہوئی تھی۔ نورالحسن نے پوچھا کہ صفائی کیوں نہیں ہوئی تو جواب ملا کہ صادقین صاحب کا حکم ہے کسی چیز کو ان کی اجازت کے بغیر نہ چھیڑا جائے۔ نورالحسن کو یہ بھی معلوم ہوا کہ صادقین کسی افسر وغیرہ سے ملاقات نہیں کرتے۔ ان کے نہ کام کا وقت مقرر ہے ، نہ سونے کا نہ جاگنے کا اور نہ کھانے کا۔
اپنی کتاب ''منتشر یادیں'' میں نورالحسن جعفری لکھتے ہیں ''صادقین سے ملاقات تو نہ ہوسکی، ہاں ان کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوگئیں۔ وقت کے بادشاہ ہیں اور اپنی مرضی کے مالک''۔ پھر جب دو تین سال بعد ملاقات ہوئی تو پہلی ہی ملاقات میں بے تکلف ہوگئے۔ لیکن چونکہ یہ ملاقات جعفری صاحب کے چھوٹے بھائی کی وساطت سے ہوئی تھی اس لیے حفظ مراتب کا ایک خاص مقام صادقین نے ہمیشہ قائم رکھا۔
صادقین نے اپنی خطاطی کی نمائش کراچی میں آرٹس کونسل میں کی۔ نورالحسن کی بیگم اور مشہور شاعرہ ادا جعفری بھی موجود تھیں۔ صادقین نے پوچھا ''خطاطی کیسی ہے؟'' ادا نے جواب دیا، ''بہت اچھی ہے'' صادقین اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئے، پھر کسی شاہکار کے بارے میں پوچھا، ''یہ کیسا ہے؟'' ادا نے جواب دیا، ''بہت اچھا'' صادقین اب بھی مطمئن نہ ہوئے تو ادا جعفری نے کہا ''بس آنسوؤں سے ہی اس کو خراج عقیدت پیش کیا جاسکتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ بیٹھی رہوں اور اسے تکتی رہوں۔ کائنات اور خلاق عالم کے بارے میں خاموشی سے سوچتی رہوں اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتی رہوں'' اب صادقین مطمئن ہوگئے۔
نورالحسن جعفری لکھتے ہیں۔ ''صادقین کی واحد کمزوری یہ تھی کہ وہ اپنی تعریف سننے سے کبھی نہیں تھکتے تھے۔ ان کو اپنا مقام تو معلوم تھا۔ وہ اس کا اعادہ بھی کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ دوسرے بھی اس کی تائید کریں۔ یہ نہیں کہ ان کو یقین نہیں تھا لیکن آخر انسان میں کوئی کمزوری تو ہونی چاہیے۔''
وہ لکھتے ہیں ''ذاتی طور پر صادقین کو روپیہ پیسہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ان کی غذا تو ان کے مداح پہنچا دیا کرتے تھے، کچھ محبت میں اور کچھ تصویروں کے معاوضے میں۔ صادقین کو یہ معلوم تھا کہ وہ اشرفیاں لٹا رہے ہیں لیکن ان کا فلسفہ یہ تھا کہ خوش ہونے دیجیے، آخر کو مداح ہیں۔''
نورالحسن جعفری کا شمار ملک کے ممتاز بیوروکریٹس میں ہوتا تھا، وہ اپنی دیانت داری اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے باعث عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ جعفری صاحب نے اپنی کتاب ''منتشر یادیں'' میں ان چند لوگوں کے بارے میں اپنے ذاتی تاثرات کا اظہار کیا ہے جن کو انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ صادقین کے علاوہ ان میں مختار مسعود، شعیب صاحب اور ایک خاتون نثار عزیز بٹ شامل ہیں۔
شعیب 1958 میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد صدر ایوب کی حکومت میں وزیر خزانہ ہوکر عالمی بینک سے آئے تو نورالحسن جعفری ان کے پرائیویٹ سیکریٹری مقرر ہوئے۔ انھیں شعیب کا اتنا اعتماد حاصل تھا کہ انھوں نے ان کو اپنے گھرکا ایک فرد بنالیا۔
نومبر 1977 میں نورالحسن جعفری اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری مقرر ہوئے۔ اس وقت غلام اسحاق خاں بحیثیت وزیر Establishment ڈویژن کے سربراہ تھے اور ان ہی کے ایما پر جعفری کو یہ اہم عہدہ ملا تھا۔ چارج لینے کے کوئی ایک ماہ بعد صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ضیا الحق انھیں پہلے سے جانتے تھے۔ صدر سے تقریباً آدھے گھنٹے ملاقات رہی۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں ان دور رس تبدیلیوں کا ذکر کیا جو وہ کرنا چاہتے تھے اورکہا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں جو بدعنوانیاں ہوئی ہیں ان کا تدارک ہونا چاہیے۔ جعفری لکھتے ہیں۔ میں جنرل کو کام کرتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ یہ ان کا طریقہ نہیں تھا لیکن اب بحیثیت صدر ان کی ذمے داریاں بڑھ گئی تھیں اور وہ اعصابی دباؤ میں تھے۔ گریڈ 17 سے اوپر کے تمام سرکاری ملازمین کی بھرتی، پروموشن اور تادیبی کارروائی کے افسر مجاز صدر خود تھے۔ یہ تو وہ کام تھا جو روٹین تھا۔''
نورالحسن جعفری کو سیکریٹری کا عہدہ سنبھالے کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ جنرل چشتی وزیر اسٹیبلشمنٹ ہوکر آگئے اور غلام اسحاق کا تعلق ختم ہوگیا۔ جنرل چشتی سے جعفری کے بے تکلفی کے تعلقات قائم نہیں ہوئے۔ پھر جنرل چشتی کابینہ سے فارغ ہوگئے اور فوج سے بھی ریٹائر ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ صدر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو اپنے پاس رکھیں گے۔ نورالحسن جعفری جنرل ضیا الحق کے ماتحت کام کرنے کے اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ''صدر صاحب سے ملاقات کے لیے مجھے وقت تو مل جاتا لیکن حکومت کی ترجیحات میں یہ ڈویژن بہت نیچے تھا۔ میں ملاقات کے انتظار میں ہوتا کہ کوئی وزیر یا فارن سیکریٹری یا سیکریٹری داخلہ کوئی ضروری فائل لے کر آجاتے اور میں انتظار کرکے واپس آجاتا۔
ایک مرتبہ بہت عرصے بعد ملاقات ہوئی اور ایک فائل پیش ہوئی جس پر صدر نے Please Speak لکھا تھا اور یہ فائل کوئی ڈیڑھ ماہ پرانی تھی۔ صدر نے چشمہ ماتھے پر کر لیا، ان کی تیوری پر بل پڑگئے۔ فرمایا، چھ ہفتے بعد آپ مجھ سے بات کر رہے ہیں۔ اس طرح کام کیسے چلے گا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ اپنے ملٹری سیکریٹری سے پوچھ لیں، میں کتنی بار آکر یہاں سے جا چکا ہوں۔ فرمایا، فون کیوں نہیں کیا، میں نے عرض کیا کہ آپ دن میں بے حد مصروف رہتے ہیں۔ کوشش کی تھی مگر ADC نے ملاکر نہیں دیا۔ فرمایا، شام کو کیوں نہیں کیا۔ کیا میں کاٹ لیتا۔ میں نے عرض کیا کہ میرا واسطہ وزیروں سے تو پڑا ہے لیکن صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سے پہلی بار واسطہ پڑا ہے۔ اس پر وہ کچھ دھیمے پڑے۔''
اس واقعے کے بعد ملٹری سیکریٹری کو یہ ہدایت دے دی گئی کہ جعفری کو بجائے دفتر کے شام کو یا رات کو گھر پر ملاقات کا وقت دے دیا کرے۔ اس سے جعفری کو کام میں آسانی ہوگئی لیکن شام کا وقت بھی ان کا اپنا نہ رہا۔
نورالحسن کہتے ہیں کہ صدر ضیا الحق میں صبر بہت تھا۔ مروت ان کے مزاج کا حصہ تھی اور خوش اخلاقی میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔
نورالحسن جعفری نے اپنی کتاب میں محبت سے مختار مسعود کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔ ''ایک مرتبہ کچھ احباب میرے گھر کھانے پر مدعو تھے۔ میں نے مختار مسعود سے کہا کہ میں تمہارا خاکہ لکھوں گا۔ اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا، بھائی! ''آواز دوست'' کے بعد بہتوں نے ظلم ڈھائے تو تمہیں کس طرح روک سکتا ہوں۔ اگر تم مجھے بیساکھی بناکر ادیب بننا چاہتے ہو تو ایک ظلم اور سہی۔ خیر میں ادیب بنوں یا نہ بنوں، اس ایک جملے میں مختار مسعود کی پوری شخصیت کا عکس نظر آتاہے۔وہ خود اپنا جوہر شناس ہے اس کے علم کی گیرائی پر آپ کو حیرت ہوگی اور آپ دل ہی دل میں اس کی یادداشت کے قائل ہوجائیں گے۔ اس کا انداز گفتگو بہت دلچسپ ہے۔ تکان کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ الفاظ کا ایک خزانہ ہے جو ابلتا ہوا چلا آتا ہے۔ اس کی ذاتی اور سرکاری زندگی میں ایک ٹھہراؤ، سلیقہ اور ترتیب ہے۔ وہ اصول توڑنے کا قائل نہیں اسے اچھے کپڑوں، اچھے کھانے اور اچھی چیزوں کا شوق ہے لیکن ان کا حصول اس کی زندگی کا مقصد نہیں۔''
نورالحسن جعفری اپنی منتشر یادوں کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ''حکومت کے عہدے دار کی حیثیت سے میں نے کوئی کام ایسا نہیں کیا جس کا ضمیر پر بوجھ ہو۔تین افسران کی تربیت تھی جس کے سہارے میں نے یہ وقت گزارا، خان شجاعت علی صدیقی، محمد شعیب اور غلام اسحاق۔ ان لوگوں نے مجھ میں اعتماد پیدا کیا، اظہار رائے پر کچھ قدغن نہیں لگائی اور اختلاف رائے کو کبھی نافرمانی نہیں سمجھا۔ افسوس ہے اب افسران کا چلن اور ہوگیا ہے۔ مارشل لا اور عوامی حکومتوں نے سرکاری ملازمین کو ذاتی ملازمین کا درجہ دیا اور اختلاف رائے کو بغاوت گردانا۔ نتیجہ انتظامیہ کا انحطاط اور عوام میں حکومت پر عدم اعتماد کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ افسروں کا وقار جاتا رہا اور خود اعتمادی ختم ہوگئی۔''