انٹربورڈکراچی بغیرمعاہدہ پلے گراؤنڈ دوسرے محکمے کے حوالے کردیا گیا

بورڈ انتظامیہ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ متعلقہ محکمہ کن شرائط پر اسپورٹس کمپلیکس تعمیرکررہا ہے

فوٹو: ایکسپریس

اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی نے بورڈ سے ملحق بختیاری یوتھ سینٹرکے نام سے موجود اپنا پلے گراؤنڈ مجاز اتھارٹی کی منظوری اورکسی معاہدے کے بغیرتعمیر کے لیے بظاہرایک سرکاری محکمے کے حوالے کردیا ہے، اس سلسلے میں کوئی رسمی یاقانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

اطلاعات کے مطابق اب اس پلے گرائونڈ پراسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر شروع کی جارہی ہے تاہم اس سلسلے میں دوسرکاری اداروں کے مابین جو رسمی و قانونی معاہدے کیے جاتے ہیں اوردستاویزات کا تبادلہ کیاجاتا ہے ایساکچھ بھی نہیں کیا گیا۔

بورڈانتظامیہ نے سیکڑوں ایکڑاراضی پر پھیلاہوا اپنا پلے گراؤنڈ توحوالے کردیا ہے لیکن انتظامیہ اس بات سے بھی واقف نہیں کہ یہاں اسپورٹس کمپلیکس کس طرح بنایا جارہا ہے، اس کا بلڈنگ میپ کیا ہے، یہ کتنی منزلہ عمارت ہوگی، اسپورٹس کمپلیکس میں کن کن کھیلوں کے لیے سہولیات دی جائیں گی، کمپلیکس کے لیے کتنی اراضی پر کام کیاجائے گا اورکتنے عرصے میں یہ اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کے بعد انٹربورڈ کراچی کے حوالے کیا جائے گا۔

سندھ حکومت کامتعلقہ محکمہ کن شرائط پر یہ کمپلیکس تعمیرکررہا ہے، تعمیر کے بعد کیا اسے بورڈکے تصرف میں دیا بھی جائے گا یا واپس نہیں کیاجائے گا، یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات بورڈکی انتظامیہ کے پاس بھی نہیں اورنہ ہی اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کے سلسلے میں انٹربورڈ کراچی نے متعلقہ محکمہ کے ساتھ کسی قسم کے ٹی اوآرز(ٹرم آف ریفرنس)طے کیے ہیں۔

واضح رہے کہ بختیاری یوتھ سینٹراعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کا اثاثہ ہے اوربورڈ کے قواعد کے مطابق کسی بھی بڑے فیصلے کی منظوری ''بورڈآف گورنرز''سے لی جاتی ہے، اوربورڈ آف گورنرزکا اجلاس سال میں کم از کم دوبار منعقد ہوتا ہے جس میں اس طرح کے ایشوزایجنڈے پرلائے جاتے ہیں اس پر بحث کرائی جاتی ہے اوراراکین کومتعلقہ ایجنڈے کے حوالے سے بریف کیا جاتا ہے۔ تاہم اس معاملے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اورانٹربورڈ کراچی کے پاس اس سلسلے میں کوئی منظوری موجود نہیں۔

''ایکسپریس''نے اس سلسلے میں اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈکراچی کے ڈائریکٹراسپورٹس طارق ابرارسے رابطہ کیا اوران سے پوچھا کہ بورڈکے پلے گرائونڈ پر کیا تعمیر ہورہا ہے اوریہ زمین کس ادارے کے حوالے کی گئی ہے جس پر ان کا کہنا تھاکہ ہم نے یہ زمین حوالے نہیں کی ہمارے پاس ہی ہے، یہ کراچی میگاپروجیکٹ کودی گئی ہے جویہاں اسپورٹس کمپلیکس بناکردیں گے۔

''ایکسپریس''کے اس سوال پر کہ کیااس کی منظوری ہوئی ہے یاکسی متعلقہ محکمے سے معاہدہ کیا گیا ہے اورکن شرائط پر یہ زمین حوالے کی گئی ہے اوراسپورٹس کمپلیکس بنایا جا رہا ہے جس پر ان کاکہنا تھاکہ منظوری تونہیں ہوئی اورنہ ہی فی الحال معاہدہ ہواہے ہاں ہم جلد متعلقہ محکمے سے معاہدہ کرلیں گے۔

''ایکسپریس''کے استفسارپرکہ معاہدے سے قبل زمین کیوں حوالے کی گئی اور کام کیسے شروع ہوگیا جس پر ڈائریکٹراسپورٹس کا کہنا تھاکہ وہ مزید تفصیلات چیئرمین بورڈ سے پوچھ کربتاسکتے ہیں البتہ اتناجانتے ہیں کہ سابق چیئرمین کے دورمیں ایک خط لکھا گیا تھا جس میں ہم نے خود ہی یہاں اسپورٹس کمپلیکس بنوانے کی خواہش ظاہرکی تھی۔


واضح رہے کہ انٹربورڈ کراچی کی عدم منصوبہ بندی ورغیرپیشہ ورانہ رویے کی انتہایہ ہے کہ اگریہ اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کے بعد بورڈکے حوالے کیا جاتا ہے تواسے کن بنیادوں پر اورکس طرح چلانا ہے، بورڈکے پاس اس کی بھی کوئی حکمت عملی موجودنہیں، اورنہ ہی اس سلسلے میں کوئی بجٹ مختص کیا گیا ہے جومستقبل کے کسی اسپورٹس کمپلیکس کوچلانے کے لیے صرف کیاجاسکے۔ انٹربرڈ کے حکام کویہ بھی معلوم نہیں ہے اس کی مینٹینس کون کرے گا اور کس طرح ہوگی۔

''ایکسپریس''کواس حوالے سے ملنے والے معلومات کے مطابق رواں سال کے تقریباًوسط میں لوکل گورنمنٹ پروجیکٹ حکومت سندھ کی جانب سے بختیاری یوتھ سینٹر میں اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کے سلسلے میں ٹینڈرکی طلبی کا اشتہارجاری کیا گیا تھا اور6جون تک ٹینڈرجمع کرایاجانا تھا۔

تاہم اس ٹینڈرکے اشتہارسے بھی بورڈلاتعلق تھا اورچند روز قبل یہاں تعمیراتی کام بھی شروع کردیا گیا اور اس سے کچھ روز قبل ہی 16 مئی کو انٹر بورڈ کراچی کی انتظامیہ نے سیکریٹری محکمہ اسپورٹس اینڈ یوتھ افیئرز کو خط لکھ کر بختیاری یوتھ سینٹر میں کرکٹ گراؤنڈ، ٹریک اور جمنازیم سمیت دیگر سہولیات تعمیر کرنے کی سفارش کی۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ادھر انٹر بورڈ انتظامیہ محکمہ کو خط لکھتی ہے اور دوسری جانب کچھ ہی روز میں اس سلسلے میں اخبار میں ٹینڈر طلبی کا اشتہار بھی جاری کردیا جاتا ہے، اس تمام صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک understanding کے تحت کیا جارہا تھا اور پر چیز طے شدہ تھی۔

ادھربورڈحکام کی اس سلسلے میں معلومات اوربیانات میں بھی تضاد ہے جس سے اس معاملے کی سنگینی اوربورڈکی اپنی ملکیت سے عدم وابستگی کاعلم ہوتا ہے۔

''ایکسپریس''نے تقریباً تین ماہ قبل چیئرمین اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کاعہدہ سنبھالنے والے پروفیسرنسیم میمن سے رابطہ کرکے اس سلسلے میں دریافت کیا توان کا کہنا تھا کہ یہ اسپورٹس کمپلیکس سندھ حکومت کامحکمہ کھیل وثقافت تعمیر کررہا ہے، یہ محکمہ حیدرآباد میں بھی اسکول میں اسی طرح کا کمپلیکس تعمیر کرچکا ہے، لہذاہمارااچھاتجربہ ہے جب میرے سامنے یہ معلومات رکھی گئی تومیں نے انکارنہیں کیا۔

تاہم بورڈآف گورنرزکی منظوری،ٹی اوآرز،پروجیکٹ کی تکمیل،اس کی لاگت،خدوخال اوردیگرتفصیلات کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات پر وہ بھی خاموش ہوگئے۔

ان کا کہنا تھاکہ یہ اعتراضات درست ہیں اورہم معاہدہ کرلیں گے۔ اس سوال پر کہ یہ بات کس قدر یقینی ہے کہ اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کے بعد بورڈ کے حوالے کردیاجائے گا کیونکہ کوئی معاہدہ ہی موجود نہیں ہے اورنہ ہی کوئی ورکنگ پیپر ہے جسے بورڈ آف گورنرمیں پیش کیاگیا ہے۔ اس کا چیئرمین بورڈ کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
دوسری جانب "ایکسپریس" نے جب ایچ ای سی کے ایک سینیئر افسر سے اس سلسلے میں رائے مانگی کہ جامعات میں اس طرح کی سہولیات ایچ ای سی کس طرح فراہم کرتی ہے جس پر متعلقہ افسر کا کہنا تھا کہ جامعات کو ہم اسپورٹس کہ مدوں میں فنڈز دیتے ہیں، تعمیر سے متعلق امور جامعات خود انجام دیتی ہیں۔

لیاری یونیورسٹی میں بنائے جانے والے باکسنگ کورٹ سمیت دیگر جامعات کا ذکر کرتے ہوئے افسر کا کہنا تھا کہ یہ پروپوزل جامعات کی جانب سے آتا ہے ، منظوری کے بعد ہم مرحلہ وار فنڈز جاری کرتے ہیں، تعمیرات متعلقہ ادارہ خود کرتا ہے۔
Load Next Story