اسرائیلی جبر و ستم دنیا کا دہرا معیار

اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم پر دنیا کا دہرا معیار سامنے آ چکا ہے

فوٹو:فائل

غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں میں 182بچوں سمیت مزید 704 فلسطینی شہید ہوگئے، جس کے بعد سات اکتوبر سے شہید فلسطینیوں کی تعداد 5800 تک پہنچ گئی، جب کہ کل زخمیوں کی تعداد پندرہ ہزار سے زائد ہوچکی ہے، جنھیں اسپتالوں میں دواؤں اور ایندھن کی قلت کے باعث مزید مشکلات کا سامنا ہے۔

دوسری جانب آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان میں فلسطین کے سفیر سے ملاقات کے دوران کہا کہ اس نازک موڑ پر یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری اسرائیلی فورسزکی طرف سے طاقت کے غیر متناسب اور غیر قانونی استعمال کی وجہ سے رونما ہونیوالے انسانی المیے کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے متحرک ہو۔

عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی بے حسی کے باعث اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں پر قابض ہے۔

فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا مرتکب ہے، وہاں یہودیوں کی غیر قانونی آبادکاری کر رہا ہے اور اس قبضے اور بے دخلی کی مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کا اندھا دھند قتل عام کررہا ہے لیکن اسے کوئی روکنے والا نہیں، اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو ایک بڑا المیہ رونما ہوسکتا ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے واضح اور دو ٹوک بیان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ پاکستان 1967سے قبل کی سرحدوں پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست چاہتا ہے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

سیو دی چلڈرن نامی تنظیم کے مطابق غزہ پٹی میں اسرائیل فلسطین تنازعہ کے بڑھنے کے بعد سے اب تک کم از کم 2000 بچے مارے جاچکے ہیں۔ غزہ میں پانی، خوراک، بجلی، علاج کچھ بھی نہیں ہے، جس سے انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔

اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم پر دنیا کا دہرا معیار سامنے آ چکا ہے، وہی مغرب جو یو کرین روس کی جنگ میں تو روس کی مذمت کرتے نہیں تھکتا اور پوری دنیا پر زور ڈال رہا ہے کہ یوکرین روس جنگ میں یوکرین کی مالی و عسکری نہیں تو کم از کم اخلاقی مدد تو ضرورکی جائے لیکن جب فلسطین کی باری آتی ہے تو یہی مغرب جو مظلوم کا ساتھی ہونے کا دعویدار ہے اس کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین پر اسرائیل دن رات بمباری کر رہا ہے، معصوم بچوں کو شہید کر رہا ہے۔

غزہ اس وقت مکمل طور پر اسرائیلی بمباری سے زمین بوس ہو چکا ہے، اسپتال مردہ خانوں میں بدل گئے ہیں، خواتین اور بچوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے، ایسے حالات کے باوجود امریکا اور یورپ کی نظر میں حماس ظالم اور اسرائیلی مظلوم ہیں۔

مغرب جو خود کو آزادی رائے کا چیمپئین قرار دیتا ہے اس کے اکثر ممالک میں فلسطین کی حمایت میں احتجاج کرنے اور اسرائیل کو ظالم کہنے پر پابندی لگا دی گئی ہے ،یہ مغربی دنیا کی شہ ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کے حکمران مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

حماس کے حملے سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے، حماس نے جس طرح اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو شکست دی اور جس طرح اس کی ناک کے نیچے سے اسرائیل پر حملہ آور ہوا ہے، اس نے اسرائیل کو بوکھلایا تو ہے ہی اس کے ساتھ ان کے دفاع کی کمزوریاں بھی سامنے آ گئی ہیں۔

اس تنازع میں سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک جانب جہاں مغربی میڈیا حماس کے حملے کی کوریج زیادہ کر رہا ہے وہیں دوسری جانب غزہ میں بمباری سے ہونے والی تباہی اور ہزاروں مظلوم فلسطینیوں کی اموات جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے،کو انتہائی کم کوریج دی جا رہی ہے۔

اب کہا جا رہا تھا کہ پانچ چھ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے قریب ہیں کہ حماس نے جنگ چھیڑ دی ہے جب کہ حقیقت میں اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت مانتا ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔


فلسطینی دو علاقوں میں آباد ہیں، جو آپس میں کٹے ہوئے ہیں۔ ایک غربِ اردن اور دوسرا غزہ کی پٹی۔ مرحوم یاسر عرفات کی پارٹی پی ایل او کی حکومت غرب اردن پہ قائم ہے، جب کہ غزہ کی پٹی پر حماس حکمران ہے۔

متنازع علاقوں میں اسرائیلی بستیاں بڑے فساد کا باعث ہیں۔ یوں تو مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہنے والے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تناؤ ہمیشہ ہی رہتا ہے، مگر تشدد کی حالیہ لہر کا سبب مشرقی بیت المقدس سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور اسرائیل کا جبر و ستم ہے۔

فلسطینی یہودیوں کی آبادکاری کو غیر قانونی اور امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں جب کہ اسرائیل اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ ایک قدیم ترین اور پیچیدہ ترین مسئلہ ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ پھر عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔

اردن نے غربِ اردن اور مصر نے غزہ کی پٹی سنبھال لی۔ بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فورسز نے سنبھال لیا جب کہ اردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا۔ 1956 میں پھر عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں عربوں کو شکست ہوئی۔

1967 کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے علاوہ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا۔ اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے تاہم اس نے غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لی ہیں جہاں اب حماس کی محدود حکومت قائم ہے۔ اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے، وہ اب جلاوطن پناہ گزینوں کو واپسی کی اجازت نہیں دے رہا بلکہ مزید فلسطینیوں کو ان کی زمین ہتھیانے اور یہودیوں کی آبادکاری کے لیے جبری طور پر بے دخل کر رہا ہے۔

اس وقت موجودہ اسرائیل کا رقبہ تقریبا 21 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اسرائیل کی آبادی ترانوے لاکھ ہے، غربِ اْردن کا رقبہ چھ ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی 20 لاکھ ہے۔ غزہ کی پٹی اسرائیل کی مغربی سرحد، بحیرہ روم اور مصر میں گھری ہوئی ہے جس کا رقبہ تین سو ساٹھ مربع کلومیٹر اور آبادی 11 لاکھ ہے۔

فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تین معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ غرب اْردن اور غزہ کی پٹی کا کتنا حصہ فلسطین کو دیا جائے؟ بیت القدس یعنی یروشلم کیسے تقسیم کیا جائے؟ بے دخل فلسطینیوں کی آبادکاری کہاں اور کیسے کی جائے؟ بہترین، منصفانہ اور حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ غرب اردن اور غزہ کی پٹی مکمل فلسطین کے حوالے کیے جائیں۔

بہتر تو یہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت دی جائے تاہم ان کے سابقہ گھر اسرائیل میں آگئے ہیں اور اسرائیل یہ ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے ماضی میں عالمی طاقتیں فلسطینیوں پر اسرائیلی قبضے اور ظلم و ستم کو دوام اور حمایت مہیا کرتی رہی ہیں۔ سابق ٹرمپ انتظامیہ نے تو حد کردی۔

اس نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا، فلسطینی رقبے پر یہودیوں کی مزید بستیاں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکا سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا استعمال کر کے اسرائیل کو کئی بار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی، فلسطینیوں کے خلاف تشدد، ان کی زمینیں ہتھیانے، ان کے مکانات منہدم کرنے، انھیں بے دخل کرنے اور یہودیوں کی غیرقانونی آبادکاری پر مذمتی قراردادوں، پابندیوں اور سزا سے بھی بچاتا آیا ہے۔

زیادہ تر ممالک 1967 میں اسرائیل کے زیر قبضہ زمین پر تعمیر کی گئی یہودی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں، فلسطینی چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم، جس میں مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات شامل ہیں، کو ان کی ریاست کا دارالحکومت بنایا جائے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یروشلم کو اس کا ناقابل تقسیم اور ابدی دارالحکومت رہنا چاہیے۔

یروشلم کے مشرقی حصے پر اسرائیل کے دعوے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا البتہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کر لیا تھا اور 2018 میں امریکی سفارت خانے کو وہاں منتقل کر دیا گیا تھا۔ تقریباً 56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین اردن، لبنان، شام، اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں رہتے ہیں، فلسطینی وزارت خارجہ کے مطابق رجسٹرڈ پناہ گزینوں میں سے نصف بے وطن ہیں، بہت سے لوگ پر ہجوم کیمپوں میں رہتے ہیں۔

فلسطینیوں کا طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ پناہ گزینوں کو ان کی لاکھوں اولادوں کے ساتھ واپس جانے کی اجازت دی جائے، اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی کوئی بھی آباد کاری اس کی سرحدوں سے باہر ہونی چاہیے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ عالمی برادری اسرائیل سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم اور ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ ختم کروائے، تمام مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کروائے اور ریاست فلسطین کو تسلیم کروائے۔ دو ریاستی حل، انصاف اور پر امن بقائے باہمی ہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔
Load Next Story