بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے


Dr Tauseef Ahmed Khan October 26, 2023
[email protected]

'' میاں نواز شریف ایک دفعہ پھر ملک کی قسمت بدلنے کے لیے لاہور پہنچ گئے۔'' انھوں نے مینارِ پاکستان میں ایک عظیم الشان جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعتوں، اداروں اور ریاستی ستونوں کو مل کرکام کرنا ہوگا۔ پڑوسیوں سے لڑائی نہیں ترقی کے لیے کشکول توڑنا ہوگا، مگر نواز شریف نے خطاب میں انتخابات کے انعقاد کے بارے میں خاموشی اختیارکیے رکھی۔ مسلم لیگی زعماء کا بیانیہ ہے کہ ملک کا معاشی بحران میاں صاحب کے اقتدار میں آتے ہی ختم ہوجائے گا۔

عرب ممالک سمیت کئی ممالک بڑے پیمانہ پر ملک میں سرمایہ کاری کریں گے۔ میاں نواز شریف کے متوقع وزیر اعظم بننے کے بعد یہ ایک دلکش بیانیہ تو ہے مگر اس وقت ملک کی معاشی صورتحال اتنی خراب ہے کہ جو بھی ملک کا وزیراعظم بنے گا، یہ صورتحال اس کے لیے بڑا چیلنج ہوگی۔

عالمی بینک اور آئی ایم ایف کا سالانہ اجلاس گزشتہ دنوں مراکش میں ہوا۔ ان دونوں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ماہرین نے پاکستان کی معاشی صورتحال کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں میں پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین نے غربت کی شرح میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے، اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ عوامی اشیاء کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ، توانائی کے شعبہ میں قیمتوں میں انتہائی اضافہ، بے روزگاری کی شرح میں اضافہ اور سیلاب سے ہونے والی تباہی اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ مالیاتی سال میں گروتھ ریٹ نہیں بڑھی جس کی بناء پر سماجی ابتری کی صورتحال پیدا ہوئی۔

اس معاشی صورتحال سے براہِ راست گھریلو زندگیاں متاثر ہوئیں۔ اس رپورٹ میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ افراطِ زر کی شرح کم سے کم 17 فیصد اور زیادہ سے زیادہ 26.5 فیصد تک ہے۔

اس رپورٹ کے مصنفین نے اپنے اداروں کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پٹرولیم کی مصنوعات پر عائد کردہ ٹیرف اور شعبہ توانائی کے ٹیرف کی بناء پر بجلی کی قیمتوں میں استحکام پیدا ہوا ہے مگر اس رپورٹ کے مصنفین نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ پٹرولیم کی مصنوعات اور توانائی کے ٹیرف میں اضافے سے بھی سماجی اور معاشی عدم استحکام بڑھ گیا ہے۔

اگرچہ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے 3 بلین ڈالر لے کر محدود مدت کی گرانٹ کا معاہدہ کیا ہے اور اس کی بناء پر زر مبادلہ کا ذخیرہ درمیانہ درجہ کا ہے مگر یہ زر مبادلہ صرف ایک ماہ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہے۔

اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ امید ہے کہ اگلے مالیاتی سال تک جی ڈی پی کی شرح 1.7 فیصد تک رہے گی اور یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگلے مالیاتی سال کے دوران غربت کی شرح 37.2 فیصد تک رہے گی مگر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے چاروں صوبوں میں جو تباہی مچائی اس سے بھی معاشی بحران بڑھ گیا ہے۔

سیلاب سے اسپتال اور اسکولوں کی عمارتیں تباہ ہوگئی ہیں اور لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں۔ انسانی ترقی Human Development کا انحصار خواندگی میں اضافہ اور شہریوں کی اچھی صحت میں مضمر ہے۔

اس رپورٹ میں خاص طور پر اس نکتہ پر زور دیا گیا ہے کہ سیاسی بحران نے بھی معاشی بحران کو مزید تقویت دی ہے۔ شعبہ صحت کے ماہر ڈاکٹر ظفر مرزا نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں کی شرح میں کمی نہیں ہوسکی۔

اس وقت پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے 60 زندہ نہیں رہ پاتے اور 40 فیصد بچوں کی عمریں 5 سال کے قریب ہیں۔

یہ شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور بالغوں میں خواندگی (15 سال کی عمر سے زیادہ) جنوبی ایشیائی ممالک کے علاوہ مغربی صحرائی ممالک سے بھی کم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی، غربت کی شرح میں اضافہ اور گروتھ ریٹ بڑھانے میں ایک اہم عنصر ہے۔

ملک میں سیاسی بحران کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقائق ظاہر ہوتے ہیں۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ خیبر پختون خوا سے منسلک سابقہ قبائلی علاقوں میں طالبان کا راج ہے۔ یہ مذہبی انتہا پسند طالبان اب خیبر پختون خوا کے شہروں کے علاوہ بلوچستان میں بھی دہشت گردی کرتے ہیں۔

بلوچستان میں بدامنی کی صورتحال ہے، ہر ہفتہ کسی شہر میں دھماکا ہوتا ہے۔ نامعلوم افراد بے گناہوں کو قتل کرتے ہیں۔ مکران اور دیگر علاقوں کے لوگ اپنے حقوق کے لیے دھرنے دیتے ہیں۔ بلوچستان میں صورتحال اتنی خراب ہے کہ خواتین خودکش حملوں میں ملوث ہیں۔ میاں نواز شریف نے نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ مقررکیا تھا۔

انھوں نے مسلح لشکروں کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے اور یورپ میں مقیم جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کرکے انھیں وطن واپس آنے پر آمادہ کیا۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت نے مادری زبان میں تعلیم کے حق کو عملی طور پر تسلیم کیا تھا۔

تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی گئی مگر ان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا اور صورتحال مزید خراب ہوئی۔ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار اور وڈھ کے علاقہ میں گزشتہ 3 ماہ سے منحرف گروپ جدید ہتھیاروں سے لیس جھڑپوں میں مصروف ہیں۔ اس علاقے کے تعلیمی ادارے بند ہیں اور کاروبارِ زندگی معطل تھا مگر حکمران کچھ نہ کرسکے۔

آئی ایم ایف کی سربراہ کا بیانیہ ہے کہ حکومت اپنی بنیادی معاشی پالیسوں میں تبدیلی لائے، امیروں پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے اور غریبوں پر یہ شرح کم کی جائے مگر گزشتہ 76 برسوں میں اقتدار میں آنے والی حکومتیں اس نظریہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں رہیں۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے اور غریبوں پر ٹیکس کم کرنے کے لیے ریاست کے بنیادی انفرا اسٹرکچر میں تبدیلی ضروری ہے۔

ماہرین کا تخمینہ ہے کہ ریاستی انفرا اسٹرکچر میں 50 فیصد کمی ہوجائے، دفاعی اخراجات سمیت غیر پیداواری اخراجات کم تر سطح پر لائے جائیں۔ میاں نواز شریف نے گزشتہ دو حکومتوں میں بھارت سمیت پڑوسی ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں واجپائی اور مودی پاکستان آئے۔ میاں صاحب کی یہ پالیسی ان کی بصیرت کا شاہکار تھی مگر کچھ قوتوں کو یہ پالیسی پسند نہ آئی۔

لاہور اور دیگر شہروں میں دیواروں پر میاں صاحب کے کے خلاف نعرے لکھ دیے گئے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ بھارت سے تجارت بند ہونے کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ اگر میاں صاحب کو انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی اور اقتدار مل گیا تو وہ یقیناً اسٹیبلشمنٹ کی مرہونِ منت ہوگا۔ جس کی وجہ سے میاں نواز شریف کو ماضی کے مقابلے میں محدود اسپیس ملے گی۔ ان کے ساتھیوں کا بیانیہ ہے کہ اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کا تضاد پیدا نہیں ہوگا ۔

ایک صحافی جن کی گزشتہ مہینہ لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات ہوئی انھوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ میاں نواز شریف کا انقلابی جذبہ اب بھی ان کے دماغ میں موجود ہے ۔ میاں نواز شریف نے پڑوسیوں سے لڑائی نہ کرنے کی بات کر کے گزشتہ پانچ برسوں سے بھارت سے متعلق پالیسی سے انحراف کیا ہے مگر انھوں نے سویلین سپر میسی کے بجائے جماعتوں، اداروں اور ریاستی اداروں کو ساتھ چلنے کا درس دیا ہے۔

میاں صاحب کے اس بیانیہ میں یہ تضاد ان کے ترقی کے منصوبوں میں رکاوٹ بن سکتا ہے، مگر میاں نواز شریف نے مرزا غالب کے اس شعر کی مدد سے کوئی چھپی ہوئی بات کہہ ہی دی ہے۔

بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں