پارٹی ڈسپلن یا سیاسی آمریت

m_saeedarain@hotmail.com

مسلم لیگ (ن) کے بڑوں کے اجلاس میں پارٹی ڈسپلن کو مزید سخت کرنے اور پارٹی پالیسی پر تنقید کو ناقابل قبول قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور صرف پارٹی اجلاسوں میں ہی اختلاف رائے کی آزادی ہوگی مگر اختلافی نکات پارٹی سے باہر بیان کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

پارٹی ذرایع کے مطابق پارٹی پر کھلے عام تنقید کرنے والوں کو انتخابات کے لیے ٹکٹ جاری کرنے سے بھی انکارکیا جاسکے گا اور پارٹی میں ڈسپلن ہر حال میں برقرار رکھا جائے گا اور پارٹی رہنماؤں کو ڈسپلن پر مکمل عمل ممکن بنانا ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیرکا کہنا ہے کہ مفتاح اسماعیل نے پارٹی کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی سینئر رہنما ہیں اور پارٹی کا ایک اہم ستون ہیں، انھوں نے پارٹی ڈسپلن توڑا نہ کوئی ایسی بات کی۔

واضح رہے کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل (ن) لیگ چھوڑ چکے ہیں اور شاہد خاقان عباسی کہہ چکے ہیں کہ ان کے قائد میاں نواز شریف ہیں اور وہ پارٹی صدر شہباز شریف اور مرکزی نائب صدر مریم نواز کو اپنا قائد تسلیم نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ ایسا بیان مریم نوازکے لیے چوہدری نثار علی خان نے بھی دیا تھا۔

ان کی میاں شہباز شریف سے بھی دوستی ہے اور نواز شریف کی پالیسی کے باعث وہ ان پر تنقید کرتے تھے مگر انھوں نے (ن) لیگ چھوڑنے کا باقاعدہ اعلان بھی نہیں کیا مگر 2018 میں انھوں نے آزادانہ طور پر الیکشن لڑا تھا۔

ان کے مقابلے پر (ن) لیگ کا امیدوار بھی تھا اور چوہدری نثار قومی نشستوں پر ہار گئے تھے اور صرف صوبائی نشست جیت سکے تھے مگر چار سال پنجاب اسمبلی نہیں گئے تھے اور مجبوری میں انھوں نے صرف ایک بار اسمبلی آ کر حلف اٹھایا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر پارٹی پالیسی پر کھلے عام تنقید کرتے تھے اس لیے پارٹی نے ان کو پارٹی عہدے سے ہٹا دیا تھا اور سینیٹر کے عہدے سے ان سے استعفیٰ لے لیا تھا اور وہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے ساتھ نئی پارٹی بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ واضح رہے کہ اپنی اپنی پارٹیوں میں رہتے ہوئے ہی انھیں عہدے اور وزارت ملی تھی۔

مفتاح اسماعیل اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کا اپنا کوئی ووٹ بینک نہیں نہ ان کی پارٹی میں آنے سے قبل سیاسی اہمیت تھی اور مفتاح اسماعیل تو کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے تھے اور انھیں (ن) لیگ والوں ہی کے ووٹ ملے تھے کیونکہ وہ سیاسی شخصیت ہیں ہی نہیں۔

انھیں دو بار اسحاق ڈار کی جگہ وزیر خزانہ بنایا گیا تھا مگر اسحاق ڈار لندن میں بیٹھ کر مفتاح اسماعیل پر کڑی تنقید کرتے تھے مگر (ن) لیگ نے انھیں روکا تک نہیں تھا اور نہ ان کے خلاف (ن) لیگی وزیر خزانہ کی مخالفت کرنے پر کارروائی کی گئی تھی کیونکہ اب تک (ن) لیگ میں شاید کوئی ڈسپلن ہے ہی نہیں اور اسی لیے (ن) لیگ کی حکومت کے وزرا میں باہمی اختلافات تھے مگر (ن) لیگی قیادت بھی یہ اختلاف برقرار رکھنا چاہتی تھی۔


سابق پی ٹی آئی حکومت میں بھی باہمی اختلافات شدید تھے۔ فواد چوہدری وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف بیان دیتے تھے، جنھیں چیئرمین نے مخالفت کے باوجود وزیر اعلیٰ برقرار رکھا تھا مگر انھوں نے بھی فواد چوہدری کو عثمان بزدار کی مخالفت سے نہیں روکا تھا۔

پی ٹی آئی حکومت کے وزیر بھی ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے تھے مگر پی ٹی آئی میں کوئی ڈسپلن نہیں تھا اور فیصل واؤڈا کے خلاف کبھی ان کے قابل اعتراض رویے پر کارروائی نہیں ہوئی مگر جب انھوں نے چیئرمین پر تنقید کی تو ڈسپلن حرکت میں آیا اور انھیں پی ٹی آئی سے نکال دیا گیا تھا۔

یہ بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ ملک میں جماعت اسلامی ہی واحد پارٹی ہے جس میں کسی حد تک جمہوریت بھی ہے اور ڈسپلن بھی اور جماعت اسلامی میں ہر ایک کو شامل بھی نہیں کر لیا جاتا جہاں افراد کی نہیں نظریے کی اہمیت ہے۔ جماعت اسلامی کے سوا مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، جے یو آئی جیسی بڑی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ اے این پی، مسلم لیگ (ق) و دیگر چھوٹی اور قوم پرست پارٹیاں بھی ان کے سربراہوں کی ذاتی ملکیت ہیں۔

آئی آئی پی کے بڑے بھی امیر لوگ ہیں جو قیام کے بعد سے کوئی جلسہ تک نہیں کرسکی۔ ایم کیو ایم اپنے بانی کے چنگل سے نکلنے کے بعد بھی پارٹی نہیں بن سکی جہاں کوئی صدر یا چیئرمین نہیں بلکہ کنوینر چل رہے ہیں۔

تمام بڑی پارٹیوں میں ان کے سربراہوں ہی کی چلتی ہے اور پارٹی پر کنٹرول کے ساتھ سربراہوں کی مکمل آمریت قائم ہے اور پارٹیوں کے مرکزی اجلاسوں میں بہت کم ہی رہنما ہوتے ہیں جو پارٹی سربراہ کی بات سے انکار یا مخالفت کرسکیں۔ ہر جگہ جی جی کرنے والے ہی ملیں گے۔

ان پارٹیوں میں جمہوریت ہے نہ ان میں کسی کو مخالفت کی اجازت ہوتی ہے اور دکھاؤے کے پارٹی الیکشن میں پارٹی سربراہ ہر بار بلامقابلہ منتخب ہو جاتا ہے اس کے مقابل کوئی امیدوار بن ہی نہیں سکتا اور باقی عہدوں پر سربراہ ہی نامزدگی کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے قیام کے وقت سے ہی اس کے چیئرمین نے من مانی اور آمرانہ فیصلے مسلط کرنا شروع کردیے تھے جس پر اہم سیاستدان انھیں چھوڑ گئے تھے۔

انھوں نے اقتدار میں بھی آمرانہ فیصلے کیے۔ کابینہ اجلاسوں میں من مانے فیصلے کرائے جن کی اب نشان دہی ہو رہی ہے اور جتنے لوگ اس پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں اس کی ماضی میں کسی پارٹی میں مثال نہیں ملتی۔ پارٹی ڈسپلن میں سربراہ کی خوشنودی ترجیح ہوتی ہے کوئی کھل کر اظہار خیال کرکے سربراہ کی گڈ بک میں ہی رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔
Load Next Story