روس میں گالیاں دینے پر جرمانہ ہوگا
فحش گوئی اور نازیبا زبان استعمال کرنے پر جرمانے کے قانون کی منظوری گذشتہ پیر کو روسی صدر نے دی
دوران گفتگو شائستہ زبان کا استعمال اچھی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گالم گلوچ اور انسانی رویوں کے مابین ایک فطری تعلق پایا جاتا ہے۔ اشتعال کے عالم میں بڑے بڑے دانش ور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی بازاری زبان استعمال کرتے ہیں، تاہم روسی شہریوں کو اب غصے کی حالت میں بھی اپنے جذ بات پر قابو رکھنا ہوگا، بہ صورت دیگر ان کی جیب پر بوجھ پڑے گا۔
دراصل روس میں حال ہی میں ایک قانون منظور کیا گیا ہے جس کے تحت فحش گوئی اور نازیبا زبان استعمال کرنے پر جرمانہ عائد ہوگا۔ اس قانون کی منظوری گذشتہ پیر کو روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے دی جس کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا۔ قانون کے مطابق فحش گوئی کا الزام ثابت ہونے پر ایک فرد پر ڈھائی ہزار روبل تک جرمانہ عائد ہوگا، جب کہ اداروں کے لیے جرمانے کی حد 50000 روبل تک ہے۔
یکم جولائی سے تمام ثقافتی، تفریحی اور فن سے متعلق تقاریب میں نازیبا زبان استعمال کرنا ممنوع ہوگا۔ اگر کسی فلم میں فحش مکالمات شامل ہوئے تو اسے نمائش کا اجازت نامہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح جن کتابوں، سی ڈیز میں بیہودہ الفاظ استعمال کیے گئے ہوں، ان کی پیکنگ پر '' نازیبا الفاظ شامل ہیں'' درج ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جہاں کہیں نازیبا الفاظ پر تنازع جنم لے گا وہاں ماہرین کا ایک پینل الفاظ کے بیہودہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا۔
مخالفین کی جانب سے اس قانون پر تنقید کی جارہی ہے جو اسے آزادیٔ اظہار پر قدغن لگانے سے تعبیر کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح قدامت پسند اور قوم پرست نقطۂ نظر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس قانون کا اطلاق سوشل میڈیا، جیسے فیس بُک اور ٹویٹر کے استعمال کنندگان پر ہوگا یا نہیں۔
دراصل روس میں حال ہی میں ایک قانون منظور کیا گیا ہے جس کے تحت فحش گوئی اور نازیبا زبان استعمال کرنے پر جرمانہ عائد ہوگا۔ اس قانون کی منظوری گذشتہ پیر کو روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے دی جس کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا۔ قانون کے مطابق فحش گوئی کا الزام ثابت ہونے پر ایک فرد پر ڈھائی ہزار روبل تک جرمانہ عائد ہوگا، جب کہ اداروں کے لیے جرمانے کی حد 50000 روبل تک ہے۔
یکم جولائی سے تمام ثقافتی، تفریحی اور فن سے متعلق تقاریب میں نازیبا زبان استعمال کرنا ممنوع ہوگا۔ اگر کسی فلم میں فحش مکالمات شامل ہوئے تو اسے نمائش کا اجازت نامہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح جن کتابوں، سی ڈیز میں بیہودہ الفاظ استعمال کیے گئے ہوں، ان کی پیکنگ پر '' نازیبا الفاظ شامل ہیں'' درج ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جہاں کہیں نازیبا الفاظ پر تنازع جنم لے گا وہاں ماہرین کا ایک پینل الفاظ کے بیہودہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا۔
مخالفین کی جانب سے اس قانون پر تنقید کی جارہی ہے جو اسے آزادیٔ اظہار پر قدغن لگانے سے تعبیر کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح قدامت پسند اور قوم پرست نقطۂ نظر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس قانون کا اطلاق سوشل میڈیا، جیسے فیس بُک اور ٹویٹر کے استعمال کنندگان پر ہوگا یا نہیں۔