کراچی میں 3 ہزار سے زائد افراد سکے بیچ کر روپے کماتے ہیں ایکسپریس وے

چنگ چی اور سی این جی رکشا چلنے سے ریز گاری کے کام میں بہتری آئی ہے،روزانہ 500سے 600روپے تک آمدنی ہو جاتی ہے،سرور خان

ٹاور میں ریزگاری فروش سکوں کوٹیبل پر ترتیب سے رکھ رہا ہے (فوٹو ایکسپریس)

KARACHI:
کراچی میں بس اسٹاپوں،رکشا اور ٹیکسی اسٹینڈ ، عوامی مقامات اور مختلف فٹ پاتھوں پر ٹرانسپورٹ کے مختلف کاموں سے وابستہ لوگ اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں ۔

تاہم ان افراد میں ریز گاری فروخت کرنے والے افراد کی منفرد پہچان ہے ،آج کے ترقی یافتہ اور جدید سہولتوں کے حامل معاشرے میں یہ افراد اب بھی پرانے طرز کے مطابق اپنی روز مرہ کی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں اور اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں، حالات جیسے بھی ہوں یہ افراد سال بھر اپنی سرگرمیوں سے وابستہ رہتے ہیں۔

صرف ہڑتال یا حالات خراب ہونے کے باعث اگر شہر بند ہو جائے تو ان افراد کی چھٹی ہوتی ہے،ایکسپریس نے کراچی میں ریز گاری فروخت کرنیوالے افراد سے متعلق ایک سروے کیا، سروے کے دوران ایمپریس مارکیٹ پر ریز گاری فروخت کرنے والے ایک شخص محمد سرور خان نے بتایا کہ وہ اس کام سے15سال سے وابستہ ہیں ،کراچی میں جب بڑی بسیں، کوچز اور منی بسیں بڑی تعداد میں چلا کرتی تھیں تو ہماراکام بھی اچھاچل رہا تھالیکن جیسے جیسے بڑی پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں کمی آتی جا رہی ہے اور ان گاڑیوں کی جگہ رکشا اور ٹیکسی والوں نے لے لی، ہمارے کام پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

تاہم چنگ چی اور 6سے9 سیٹر سی این جی رکشا چلنے کے باعث اب ہمارے کام میں کچھ بہتری آئی ہے، انھوں نے بتایا کہ عوامی مقامات پر جو افراد ریز گاری فروخت کرتے ہیں، ان کی آمدنی میں تو 30 فیصد کمی واقع ہوگئی ہے لیکن جو افراد بس اور منی بس اڈوں، رکشا اور ٹیکسی اسٹینڈ پر موجود ہیں۔

ان کا کام زیادہ بہتر انداز میں چلتا ہے کیونکہ ان بس اڈوں اور رکشا اسٹینڈوں پر گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ،اس لیے پبلک ٹرانسپورٹ سے منسلک کنڈیکٹروں اور رکشے والوں کو ریز گاری کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ،انھوں نے بتایا کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ جب 5 پیسے ، 10 پیسے کی ریز گاری بڑی تعداد میں فروخت ہوتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت بدلتا گیا ، اب ریز گاری کے بجائے بڑے نوٹوں کی ضرورت بڑھ گئی ہے اور اب ریز گاری ایک روپے ، 2 روپے اور 5 روپے کے سکوں تک محدود ہو گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مختلف روٹس پر 12 ، 15 اور 18 روپے کرایہ ہوتا ہے ، اس لیے بسوں ، منی بسوں چنگ چی اور سی این جی رکشوں میں مسافروں کو کھلا دینے کے لیے ریز گاری کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کھلا رکھنے کے لیے ریز گاری حاصل کرتے ہیں۔


انھوں نے کہا کہ جب تک سکے چلتے جائیں گے ، ہمارا کام چلتا جائے گا ، جس دن حکومت نے سکے بند کردیے، اس دن اس کام سے منسلک افراد کا روزگار بھی بند ہو جائے گا ،انھوں نے بتایا کہ اس کام میں 40 فیصد پختون ، 30 فیصد سرائیکی ، 20 فیصد پنجابی اور ہزارہ وال اور10فیصد دیگر کمیونٹی کے لوگ وابستہ ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس کام کا آغاز صبح 5 بجے شروع ہو جاتا ہے اور شام 7 بجے تک ریز گاری فروخت کی جاتی ہے ،انھوں نے بتایا کہ شہر میں تقریباً 3 ہزار سے زائد افراد ریز گاری کی فروخت کا کام کرتے ہیں تاہم اب ہماری نئی نسل اس کام سے وابستہ ہونے کے بجائے ٹرانسپورٹ کے شعبے سے منسلک ہو رہی ہے اور زیادہ تر نوجوان موٹر مکینک اور ڈرائیور بن رہے ہیں،انھوں نے بتایا کہ سارا دن محنت کے بعد 500 سے 600 روپے تک کی آمدنی ہو جاتی ہے۔

ریز گاری فروخت کرنے والے افراد بس اڈوں ، رکشہ ، ٹیکسی اسٹینڈ ، بس اسٹاپوں اور عوامی مقامات پر فٹ پاتھوںپر چھوٹی میز رکھ کر ریز گاری فروخت کرتے ہیں، مقامی ریز گاری فروش کے مطابق ریز گاری حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ پان کے کیبن ، چائے اور کھانے کے ہوٹل اور جنرل اسٹور ہوتے ہیں ، ریز گاری فروش رات کے اوقات میں ان دکانوں سے 5، 2اور ایک روپے کی ریز گاری حاصل کرتے ہیں، ریز گاری حاصل کرنے والوں کا ہر علاقے میں مخصوص دکانداروں سے رسمی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ مختلف دکانوں سے100سے لیکر500روپے تک کی ریز گاری حاصل کرتے ہیں جبکہ دکاندار ہر سکے کی ریز گاری کی 100 روپے کے حساب سے تھیلی بنا کر رکھ دیتے ہیں جو وہ ریز گاری فروش کو دے دیتے ہیں،دکاندار ریز گاری فروش سے کوئی کمیشن نہیں لیتے۔

کراچی میں ریز گاری کی فروخت میں گدا گر بھی اہم کر دار ادا کرتے ہیں،کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں گدا گر مختلف علاقوں، بازاروں، مارکیٹوں، شاپنگ سینٹروں، اسپتالوں، تعلیمی اداروں، دفاتر، بس اسٹاپوں اور فٹ پاتھوں پر بھیک مانگتے ہیں، زیادہ تر خواتین اور بچے شہریوں سے بھیک طلب کرتے ہیں،ان افراد کا تعلق خانہ بدوش قبیلوں سے ہوتا ہے اور گدا گروں کا تعلق اندرون سندھ اور پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہوتا ہے جو سیزن کمانے کراچی آتے ہیں، ان گدا گروں کو شہری ایک،2 اور 5روپے کے سکے دے دیتے ہیں۔

یہ گدا گر سارا دن بھیک مانگنے کے بعد ان سکوں کو جمع کرکے ہوٹل، پان والوں اور دکانداروں کو دیتے ہیں،100 روپے کی ریز گاری پر5سے10روپے ان دکانداروں سے کمیشن کے طور پر لیتے ہیں لیکن گدا گروں کو کہنا ہے کہ دکاندار ہمیں کمیشن نہیں بلکہ خیرات کے طور پر دیتے ہیں، اس طرح یہ ریز گاری گدا گروں سے دکانداروں اور پھر ریز گاری فروخت کرنے والوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر یہ ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کو ملتی ہے جو وہ ریزگاری کے طور پر مسافروں کو کرایے کی وصولی کے بعد بچ جانے والی رقم کے طور پر ادا کرتے ہیں۔

ریز گاری فروش سکوں کی فروخت کے عوض 100 روپے کی ریز گاری پر20روپے کمیشن لیتے ہیں،کراچی میں 450 سے زائد بس اڈوں اور300رکشا اور ٹیکسی اسٹینڈوں کے علاوہ مختلف عوامی مقامات پر ریز گاری فروخت کی جاتی ہے، ریز گاری فروش رات کے اوقات میں ریز گاری حاصل کرنے کے بعد سکوں کو ان کی مالیت کے حساب سے الگ الگ کر لیتے ہیں، پھر 100 اور 200 روپے کی الگ الگ مالیت کے سکوں کی ریز گاری کی چھوٹی تھیلیاں بنالی جاتی ہیں۔
Load Next Story