معلومات تک رسائی کے قانون سے شہری ناواقف محکمے بھی انفارمیشن دینے سے گریزاں

یہ قانون شفافیت کا دوسرانام ہے، سرکاری اداروں کے انتظامی اورمالی امورمیں شفافیت اوربہتری آرہی ہے، چیف انفارمیشن کمشنر


آصف محمود October 26, 2023
فوٹو: فائل

پنجاب میں معلومات تک رسائی کا نیا قانون منظور ہوئے 10 برس ہوگئے لیکن آج بھی عام شہری اس قانون سے واقف ہیں اور نہ ہی انہیں سرکاری اورنیم سرکاری محکموں سے معلومات کے حصول کے طریقہ کار کے بارے میں معلوم ہے۔

دوسری طرف کئی سرکاری محکمے ،پنجاب ٹرانسپرنسی اینڈ رائٹ ٹوانفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات فراہم کرنے سے گریزاں اور تاخیری حربے استعمال کرتے نظرآتے ہیں۔

پنجاب کی تحصیل شکرگڑھ سے تعلق رکھنے والی نوجوان فری لانسر صحافی صبا چوہدری اب تک مختلف سرکاری محکموں کو پنجاب ٹرانسپرنسی اینڈرائٹ ٹوانفارمیشن ایکٹ کے تک 15 درخواستیں بھیج چکی ہیں جن میں میٹروپولٹین کارپوریشن، ریونیو،محکمہ صحت اورلوکل گورنمنٹ کے محکمے شامل ہیں۔

صبا چوہدری نے ''ایکسپریس نیوز '' کوبتایا کہ انہیں اب تک صرف ڈپٹی کمشنرنارووال کے علاوہ کسی محکمے کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا جبکہ ڈی سی نارووال نےبھی چیف انفارمیشن کمشنرکو درخواست دینے کے بعد معلومات فراہم کی تھیں۔

تاہم بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم '' سرچ فارجسٹس '' کی نمائندہ راشدہ قریشی نے بتایا کہ انہیں زیادہ ترپولیس اورلیبرڈیپارٹمنٹ سے بچوں پرتشدد اور جبری مشقت کے حوالے سےمعلومات درکار ہوتی ہیں اور ان محکموں سے جب بھی آرٹی آئی اے کے ذریعے ڈیٹا مانگا گیا،وہ مل جاتا ہے۔

پاکستان میں معلومات تک رسائی کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی سرکاری محکمے سے تحریری طور پر معلومات مانگ سکتا ہے اور اس کے لیے شہری سرکاری محکمے کو ان معلومات کے حصول کے اغراض و مقاصد بتانے کا پابند نہیں ہیں۔

معلومات کے لیے تحریری درخواست دینے کے بعد 14 دن تک جواب موصول نہ ہونے کی صورت میں شہری کو متعلقہ انفارمیشن کمیشن سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔

صحافیوں، وکلا اوراین جی اوز کے علاوہ عام شہری اس قانون اوراس کے تحت معلومات کے حصول کے طریقہ کارسے ناواقف ہیں ،ایک سرکاری یونیورسٹی کی طالبہ سلمی رحمن نے بتایا کہ انہوں نے آرٹی آئی اے کا نام توسن رکھا ہے لیکن معلومات کس طرح لینی ہیں، اس بارے انہیں معلوم نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ ہمارے سرکاری اداروں کا جو رویہ ہے وہ کسی عام شہری کو معلومات دیتے ہوں گے۔ اسی طرح لاہور کے رہائشی نوجوان محمدعظم ساجد بھی سمجھتے ہیں کہ عام آدمی کو تو سرکاری دفاترمیں داخل نہیں ہونے دیا جاتا ،معلومات کون دیتا ہوگا۔

دی پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے سیکشن 15 میں لکھا ہے کہ کمیشن پبلک انفارمیشن آفیسر کو اپنے دفاع کے مواقع فراہم کرنے کے بعد معلومات فراہم نہ کرنے پر 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کرسکتا ہے۔

ایکسپریس ٹربیون کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق پنجاب انفارمیشن کمیشن مذکورہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اگست 2018 سے جولائی 2023 تک 22 سرکاری افسران کو جرمانے کرچکا ہے جن میں اریگیشن ڈیپارٹمنٹ،بورڈآف ریونیو، پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن،ہائی وے ڈیپارٹمنٹ اورپولیس سمیت دیگرمحکمے شامل ہیں۔

تاہم اہم بات یہ ہے کہ جن سرکاری افسران کو جرمانے کیے گئے ان میں کسی نے بھی جرمانہ ادانہیں کیا، چیئرمین پی ایچ ای سی کو 17 فروری 2022 میں 50 ہزار روپے جرمانہ کیا تھا تاہم وہ اس کے خلاف لاہورہائیکورٹ میں چلے گئے ۔

سی طرح داتاگنج بخش ٹاؤن کے سب رجسٹرارحافظ محمدعمران کو 2021 میں 50 ہزار روپے جرمانہ کیا انہوں نے عدالت سے حکم امتناعی لے لیا جبکہ چیف آفیسر میٹروپولٹین کارپوریشن شرقپور عمران دانش کو 25 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا مگرانہوں نے بھی عدالت سے حکم امتناعی لے لیا۔

تینوں محکموں نے معلومات فراہم نہیں کیں تاہم دیگر 18 افسران نے جرمانہ کیے جانے پر معلومات فراہم کردی تھیں۔

غیر سرکاری تنظیم سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ ( ایس ایس ڈی او) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس کہتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کے محکموں میں شفافیت اور شہریوں کو بااختیار بنانے کے لیے سرکاری محکموں کے افسران کو معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت موصول ہونے والی درخواستوں کا بروقت جواب دینے کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔

ایس ایس ڈی او نے پنجاب میں معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد کی صورتحال کو جاننے کے لیے صوبے کے 36 اضلاع میں 4 محکموں (پولیس، صحت، تعلیم اور ضلعی انتظامیہ) کے سربراہان کو معلومات کی فراہمی کے لیے 194 درخواستیں بھیجی۔

مذکورہ درخواستوں کے جوابات کی بنیاد پر تیار کردہ رپورٹ کے مطابق صرف 20 درخواستوں کا جواب 14 یوم کے اندر موصول ہوا جبکہ 16درخواستوں پر معلومات کمیشن سے رجوع کرنے کے بعد موصول ہوئیں۔ مجموعی طور پر 194 درخواستوں میں سے صرف 36 درخواستوں کے جواب موصول ہوئے۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد کا تناسب صرف 18 فیصد رہا ہے۔

پنجاب انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر شاہ نے '' ایکسپریس نیوز '' سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وفاق اوردیگرصوبوں کی نسبت پنجاب کی کارکردگی زیادہ بہترہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ قانون شفافیت کا دوسرانام ہے، سرکاری اداروں کے انتظامی اورمالی امورمیں شفافیت اوربہتری آرہی ہے۔ شہریوں کے ٹیکس سے چلنے والے اداروں کو شہریوں کے سامنے جوابدہ بنایا گیا ہے۔ اس قانون کو آئین کے بنیادی حقوق کے چیپٹرمیں شامل کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 19 پر صحافت کا ستون قائم ہے جبکہ 19 اے کے تحت شہریوں کو معلومات کے حصول کاحق دیا گیا ہے۔

محبوب قادرشاہ کہتے ہیں کہ کمیشن اپنے قیام سے اب تک 25 ہزار سے زائد اپیلوں پرفیصلے کرچکا ہے جبکہ ایک ہزار کے لگ بھگ افسران کو جرمانے سنائے جاچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سال 2019 سے لیکر سال 2022 تک مختلف محکموں کے پبلک انفارمیشن آفیسر کی طرف معلومات فراہم نہ کیے جانے کے خلاف 7349 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 7018 درخواستیں نمٹائی جاچکی ہیں۔

سال 2019 میں 1455 درخواستیں، سال 2020 میں 1321، سال 2021 میں 2124 درخواستیں موصول ہوئیں اوران سب کونمٹا دیا گیا۔ سال 2022 میں 2449 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں 2118 کو نمٹا دیا گیا جبکہ 31 درخواستیں التوا میں ہیں۔

محبوب قادرشاہ کے مطابق لاہورجم خانہ کلب نے ایک شہری کی درخواست پرکلب سے متعلق معلومات دینے سے انکارکیا توشہری نے کمیشن سے رجوع کرلیا جس پرجم خانہ کلب سے معلومات لی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ جم خانہ کلب 117 ایکڑکمرشل رقبے پرقائم ہے جو حکومت کو سالانہ صرف پانچ ہزار روپے کرایہ دیتا ہے۔ اسی طرح پنجاب پولیس کو پابند کیا گیا کہ وہ تھانوں میں لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج شہریوں کو ان کی درخواست پرفراہم کرے گا جبکہ پنجاب کے تمام ایجوکیشن بورڈز کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا کہ وہ امیدواروں کے حل شدہ پرچہ جات نتائج کا اعلان ہونے کے بعد امیدوارکے لیے اوپن کرسکتا ہے۔

سید کوثرعباس کہتے ہیں کہ ایسے تمام معاملات جن میں عوام کا پیسہ استعمال ہوتا ہو، ان میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے معلومات تک رسائی کے قوانین موثر ذریعہ ہیں، تاہم ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے قائم کردہ کمیشنز کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سماجی تنظیموں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کو چاہیے کو وہ ان قوانین اور ان کی افادیت سے متعلق عوام میں شعور اجاگر کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں