تعلیماتِ خاتم النبیینؐ پیغامِ امن عالم

’’تم بدی کواس نیکی سے دفع کرو جوبہترین ہو، تم دیکھو گے تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘

فوٹو : فائل

اسلام نام ہے زندگی گزارنے کے اس طریقے کا جو آخری رسول کریم حضرت محمد ﷺ سے پہلے بھی انبیائے کرام علیہم السلام کا تھا اور بعد میں آنے والی تمام انسانیت کا رہے گا، اسی کی تبلیغ و اشاعت کے لیے دنیا میں انبیاء کرامؑ کا طویل سلسلہ قائم کیا گیا۔

ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''اﷲ تعالی نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا حکم نوح کو دیا گیا، اور جس کی وحی آپؐ کو کی گئی، اور جس کا حکم موسٰی اور عیسٰی کو دیا کہ دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف برپا مت کرو۔'' (شوری)

ایسا دین جو ہمیشہ سے سارے انبیائے کرامؑ کا ہے اور جو اﷲ کے نزدیک پسندیدہ ہے، اسی کا نام اسلام ہے، مفہوم: ''اﷲ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔''

دین اسلام میں زور زبردستی کی گنجائش نہیں، ہر پسند اور کام یاب طریقے کے انتخاب میں لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے تاکہ اندازہ ہو کہ کون صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط۔ مفہوم: ''اے نبی (ﷺ)! آپ کہہ دیجیے یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، اب جس کا جی چا ہے مان لے جس کا جی چاہے انکار کر دے، ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے۔''

مذہبی تعصب اور اسلام:

اسلام اپنے افکار و نظریات کو بہ زور طاقت مسلط کرنے اور اپنے مذہب و تہذیب میں دوسروں کو ضم کرنے کی کوشش کرنے سے منع کرتا ہے، ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے: ''دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے، سرکشی کے معاملہ میں ہدایت واضح ہو چکی ہے، جو معبودانِ باطل کا منکر اور اﷲ پر ایمان رکھتا ہو، اس نے مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔''

دیگر مذہبی شعائر کو بُرا کہنے کی ممانعت:

مفہوم: ''اﷲ کے علاوہ جن معبودوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں، انھیں بُرا بھلا مت کہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جہالت کی بنیاد پر وہ معبود حقیقی کو بُرا بھلا کہنے لگیں۔''

ہر انسان کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اپنی عبادت گاہوں سے والہانہ عقیدت ہوتی ہے، ان کے مسمار کر دینے سے ان فسادیوں کے تئیں اس کے دل میں نفرت و عداوت کا شعلہ بھڑکتا رہتا ہے، جب بھی اسے موقع ملتا ہے اس کے جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور وہ تشدد و فساد پر اتر آتا ہے، جس سے پورا شہر اور ملک دہشت و فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔

خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کفار کے مذہبی معاملات کے تعلق سے جو معاہدہ لکھا، اس کے الفاظ اس طرح ہیں: مفہوم: ''ان کے چرچ اور کنیسے منہدم نہیں کیے جائیں گے، اور نہ کوئی ایسی عمارت گرائی جائے گی جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے حملے میں قلعہ بند ہو تے ہیں، ناقوس اور گھنٹیاں بجانے کی ممانعت نہیں ہوگی، اور نہ تہواروں کے موقعوں پر صلیب نکالنے سے روکے جائیں گے۔'' (کتاب الخراج لابی یوسف)

حضرت عمرؓ نے غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو معاہدہ تحریر فرمایا، اس کے بعض اجزا اس طرح ہیں، مفہوم: ''یہ امان ہے جو اﷲ کے غلام امیر المومنین عمر نے اہلِ ایلیا کو دی، یہ امان جان و مال، گرجا، صلیب، تن درست و بیمار اور ان کے تمام اہلِ مذہب کے لیے ہے، نہ ان کے گرجا گھروں میں سکونت اختیار کی جائے گی، نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کے صلیبوں اور ان کے مال میں کمی کی جائے گی، مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا، نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔'' (الفاروق)

حضرت عثمانؓ نے ان تمام معاہدوں کو اسی طرح باقی رکھا جس طرح عہدِ رسالتؐ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے عہد میں تھے۔ ایک مرتبہ غیر مسلموں کی شکایت پر آپ نے اپنے گورنر کوایک تادیبی خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا، مفہوم: ''عراق میں مقیم نجران کے باشندوں کے سردار نے آکر میرے پاس شکایت کی ہے اور مجھے وہ شرط دکھائی ہے جو عمرؓ نے ان کے ساتھ طے کی تھی، میں نے ان کے جزیہ میں سے تیس جوڑوں کی تخفیف کر دی ہے، انھیں میں نے اﷲ تعالی کی راہ میں بخش دیا ہے، اور وہ ساری زمین دے دی جو عمرؓ نے انھیں یمنی زمین کے عوض صدقہ کی تھی، اب تم ان کے ساتھ بھلائی کرو۔ کیوں کہ یہ ایسے لوگ ہیں جنھیں ذمہ حاصل ہے، عمرؓ نے ان کے لیے جو صحیفہ تیار کیا تھا، اسے غور سے دیکھ لو، اور اس میں جو کچھ درج ہے وہ پورا کرو۔'' (کتاب الخراج)

کچھ غیر مسلموں نے حضرت علیؓ سے ان کے گورنر کی سخت مزاجی کی شکایت کی تو حضرت علیؓ نے گورنر کو لکھا، مفہوم: ''مجھے معلوم ہُوا ہے کہ تمہارے علاقہ کے غیر مسلموں کو تمہاری سخت مزاجی کی شکایت ہے، اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے، نرمی اور سختی دونوں سے کام لو، لیکن سختی ظلم کی حد تک نہ پہنچ جائے۔ ان کے خون سے اپنا دامن محفوظ رکھو۔''


اسلام تمام انسانوں کے مذہبی معاملات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ان کی صحیح راہ نمائی اور خدائی نظام کی دعوت دینے کا حکم بھی دیتا ہے، تاکہ انسان کو دنیا میں امن و سکون حاصل ہونے کے ساتھ آخرت میں بھی پُرسکون زندگی نصیب ہو۔

دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزر کا حکم:

دنیا کے ذخیرۂ اخلاق میں مذہبی رواداری کے تعلق سے یہ بات نادرالوجود ہے کہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب نے دشمنوں، بہ طور خاص مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر جانیں دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزر کے برتاؤ کو لازم قرار دیا ہو، اسلامی تعلیمات میں اس طرح کے ہزاروں عملی ثبوت تاریخ کے صفحات پر جلی قلم سے ثبت ہیں۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے، مفہوم: ''تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے۔'' (حم السجدہ)

آخری رسول کریم ﷺ کی لائی ہوئی ان تعلیمات کا مطالعہ کیجیے جو صحیح ترین اسناد کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں، اندازہ ہوگا کہ دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزر ، ہم دردی و غم خواری، اور حسن سلوک کی جو مثالیں پیش کی ہیں، معلوم دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتیں۔ نمونہ کے لیے چند واقعات اختصار کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں:

اﷲ کے رسولؐ نے اپنے سخت ترین دشمنوں کے ساتھ بھی کبھی انتقام کا معاملہ نہیں کیا۔

اہلِ مکہ نے اﷲ کے آخری رسول ﷺ کے ساتھ جو ظلم اور زیادتیاں کی ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ متعدد مرتبہ آپ ﷺ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، ایک مرتبہ تمام قبائل کے افراد آپؐ کو قتل کرنے کے لیے گھر میں گھس آئے، بالآخر آپؐ کو اپنے محبوب شہر اور خانہ کعبہ کو الوداع کہنا پڑا لیکن جب اسی شہر مکہ پر آپ ﷺ کا قبضہ ہوگیا، اور سامنے وہی ظالم و جابر اب بھی موجود تھے جنہوں نے اسی شہر میں آپؐ کو پورے خاندان سمیت شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں محصور کر کے مکمل بائیکاٹ کیا، آپ ﷺ کی مخالفت میں پوری توانائی صرف کر دی تھی، جب آپؐ اسی شہر مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے، لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد ﷺ پرانے مظالم کا بدلہ لیں گے لیکن ہادئیِ برحقؐ نے ان کے توقع کے خلاف یہ اعلان کردیا: مفہوم: ''آج تم پر کوئی الزام نہیں، اﷲ تمہاری غلطی کو معاف کرے، جاؤ تم سب آزاد ہو۔'' (ابن ہشام)

اسلام اور انسانی برادری:

اسلام نے بلاتفریق مذہب و ملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے، جس پر سچائی سے عمل کرلیا جائے تو یہ شر و فساد، ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری ہوئی دنیا جنّت نظیر بن جائے، محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے دنیا کی کسی تعلیم، کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہ ہو سکی۔ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے، مفہوم: ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، اور ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو۔'' (بخاری کتاب الادب)

''تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔'' (حاکم مستدرک)

اسلام کی دی ہوئی رافت و رحمت کی تعلیم میں انسان کے ساتھ جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، اﷲ کے رسول کریم ﷺ کا ارشاد کا مفہوم ہے:

''جو انسان کوئی درخت لگائے گا اس میں سے جو انسان یا پرندہ بھی کھائے گا، اس کا ثواب اس لگانے والے کو ملے گا۔'' (بخاری)

ایک غیر مسلم بوڑھے شخص کو حضرت عمرؓ نے بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپؓ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر پوچھا: تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟ اس نے جواب دیا: ٹیکس ادا کرنے کے لیے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ حضرت عمرؓ اس کو اپنے گھر لے گئے، کچھ دیا اور خزانے کے انچارج کے پاس یہ لکھ کر بھیجا کہ اس کی اور اس جیسے لوگوں کی دیکھ بھال کیا کرو، خدا کی قسم یہ انصاف نہیں ہے کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم لوگ کھائیں اور بوڑھے ہونے پر اس کی مدد چھوڑ دیں، قران میں فقراء و مساکین کے لیے صدقہ کی اجازت ہے، فقراء تو وہی ہیں جو مسلمان ہیں، اور یہ لوگ غیر مسلم مساکین ہیں، ان سے جزیہ نہ لیا جائے، اور مسلمانوں کے بیت المال سے ایسے لوگوں کے لیے وظیفہ جاری کر دیا جائے۔'' (کتاب الخراج)
Load Next Story