ہے یادِ نبیؐ دل میں مرے انجمن آرا۔۔۔
زندگی نقشِ کف پائے حبیب کریم ﷺ پر چل کر گزاریں، ہر سنّت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں
نسبت سے مراد تعلق کا قائم ہو جانا ہے۔ ہماری سوچ اور طرز فکر اس کی طرز فکر کے مطابق ہو جائے جس سے ہم محبت کرتے ہیں، یہ دل کی نسبت ہے۔
اﷲ والوں کا ہر عمل اور ہر کام اﷲ کے لیے ہوتا ہے۔ وہ اﷲ کے لیے سوتے ہیں، اسی کے لیے جاگتے ہیں، اسی کے لیے جیتے ہیں اور اسی کے لیے مرتے ہیں۔
قرآن مجید اﷲ کا کلام ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے بغیر وضو چُھونے تک کی اجازت نہیں جب کہ وہ اسی کاغذ پر طبع شدہ ہوتا ہے جس پر دوسری عام کتب چھاپی جاتی ہیں۔
معلوم ہُوا کہ کلام پاک کا تقدس کاغذ کے معیار اور طباعت کی وجہ سے نہیں بلکہ خالق کائنات سے اس کی نسبت کی وجہ سے ہے، جو ہم اسے اٹھاتے، تلاوت کرتے اور بند کرکے رکھتے وقت چومتے ہیں، آنکھوں سے لگاتے ہیں، احترام کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ معاملہ نسبت کا ہے۔ جب ادب کیا جاتا ہے تو اس پر عمل کرنے کی توفیق بھی اﷲ عطا فرما دیتے ہیں۔
نسبتِ رسول کریم ﷺ:
جو اﷲ سے نسبت چاہتا ہو، خصوصی تعلق چاہتا ہو، تو نسبتِ رسول ﷺ حاصل کرنا لازم ہے، جو اطباع رسولؐ اور ادبِ رسول ﷺ سے حاصل ہوتی ہے، اﷲ خود فرماتے ہیں، مفہوم:
''اے نبی ﷺ! ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اﷲ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو، اﷲ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو ڈھانپ لے گا۔'' (آلِ عمران)
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضور اکرم ﷺ سے نسبت رکھنے والے شہر مکہ کی قسم ارشاد فرمائی، مفہوم: ''مجھے اس شہر کی قسمت کہ اے محبوب (ﷺ)! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔'' نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرہؓ کو نسبتِ رسولؐ کی وجہ سے بلند ترین مقام حاصل ہُوا اور وہ مومنوں کی مائیں کہلائیں۔
مفہوم: ''ایمان والوں کے لیے یہ نبی (ﷺ) ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں، اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔'' (سورہ الاحزاب)
نبی محترم حضرت محمد ﷺ کی ذات انتہائی احترام کی متقاضی ہے۔ آپ ﷺ اﷲ کے بندے اور رسول ہیں، تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جس طرح مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ بھی وہی انداز اختیار کریں۔
اس سلسلے میں کچھ اصول و آداب متعین کیے گئے ہیں۔ بلاشبہ اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے بچوں کو نبی محترمؐ کے مقام سے واقف کرائیں اور اوائل عمری سے ان کی ایسی تربیت کی جائے جس سے ان کے دل و دماغ میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت محبت کے انداز میں رچ بس جائے۔
اﷲ تعالی کس خوب صورتی سے خود نبی ﷺ کا ادب ہمیں سکھا رہے ہیں، مفہوم:
''اور اگر تم ان سے پوچھو تو یہ یقیناً یوں کہیں گے کہ: ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہو کہ: کیا تم اﷲ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول (ﷺ) کے ساتھ دل لگی کر رہے تھے۔؟'' (سورہ التوبہ)
ہم لوگ اکثر ہنسی مذاق میں کچھ ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو قرآن اور سنت کے یکسر منافی ہوتی ہیں پھر احکامات ربانی کا مذاق اڑانا گستاخی کے مترادف ہے۔
ان حرکات کو ہم معمولی سمجھتے ہیں، یہی وہ غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم اپنے نبی ﷺ سے اپنا تعلق، اپنی نسبت قائم نہیں کر پاتے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ دین کی باتوں، شرعی احکامات، سنت نبوی ﷺ کو ہرگز مذاق کا نشانہ نہ بنائیں، اکثر لطیفوں میں نماز، روزہ کو استہزا کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اکثر محاورات میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں جو اﷲ کی ناراضی کا سبب بنتی ہیں۔
ذرا سوچیں! ہمارے کسی قول یا فعل کا کوئی مذاق بنائے تو ہم کو کتنا ناگوار گزرے گا، ہم اس سے تعلق رکھنا ہرگز پسند نہیں کریں گے، یہاں معاملہ نبی ﷺ کی شریعت کا ہے۔
یاد رکھیے! ''ادب پہلا قرینہ ہے' محبت کے قرینوں میں''
روضہ رسول ﷺ کی حاضری بہت بڑی سعادت ہے لیکن اکثر لوگ اس موقع پر تصاویر اور ویڈیو بنانا شروع کردیتے ہیں۔ ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ کس مقدس دربار میں حاضر ہیں۔ اس معاملے میں بہت احتیاط اور ادب کی ضرورت ہے۔
علمائے کرام اور بزرگان دین تو حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات اور احادیث بیان کرنے سے پہلے غسل کرتے، خوش بُو کا اہتمام کرتے اور روضہ رسول ﷺ کے پاس سے گزرتے وقت ادب و احترام کی ایسی کیفیت کو برقرار رکھتے جو سورہ الحجرات کی ابتدائی آیات میں متعین کردی گئی ہیں۔
مفہوم: ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی (ﷺ) کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی (ﷺ) کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔'' (سورہ الحجرات)
اﷲ نے خود رسول کریم ﷺ کی حیثیت مقدم کرانے کے بعد حضور اکرم ﷺ کی مسجد میں بیٹھنے اور گفت گُو کرنے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ یہاں بھی احترام کا انتہائی انداز اپنانے کا حکم ہے۔
بات چیت کرتے ہوئے یا کچھ پوچھتے ہوئے آواز دبی رہے یہ ادب اگرچہ نبی ﷺ کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضور ﷺ کے زمانے میں موجود تھے مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقعوں پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپ ﷺ کا ذکر ہو رہا ہو، یا آپ ﷺ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپ ﷺ کی احادیث بیان کی جائیں۔
ہماری زندگی کا سب سے قیمتی تعلق نبی کریم ﷺ سے ہونا چاہیے، اس لیے ضروری ہے کہ مقام مصطفیٰ ﷺ کو سمجھیں۔ زندگی نقشِ کف پائے حبیب ﷺ پر چل کر گزاریں، ہر ایک سنت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔
مفہوم: ''حقیقت یہ ہے کہ اﷲ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان میں سے ایک رسول (ﷺ) بھیجا جو ان کے سامنے اﷲ تعالیٰ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انھیں پاک و صاف بنائے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جب کہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی ہوئی گم راہی میں مبتلا تھے۔'' (ال عمران)
نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس ہم سب پر اﷲ کا بہت بڑا احسان ہے، اس احسان کا شکر اس طرح ادا کیا جائے کہ سنت کے طریقے پر زندگی بسر کی جائے، نبی کریمؐ کے ادب کے ساتھ آپؐ کی تعلیمات کا ادب بجا لایا جائے، جب ادب ہوگا تو محبت بڑھے گی، پھر نسبت جڑے گی۔
جس کو کسی سے نسبت ہو جاتی ہے وہ اس نسبت کی لاج رکھتا ہے۔ روز قیامت جب سب کو اپنی فکر لاحق ہوگی۔ ہمارے آقا خاتم النبین ﷺ کو شفاعت کا اختیار ہوگا۔ چوں کہ آپ ﷺ اﷲ تعالیٰ کے محبوب ترین ہیں، لہٰذا آپ ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ہی ختم کردیا گیا۔
نسبت کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ نسبت ہمارا اعزاز ہے، لیکن یہ نسبت دو دھاری تلوار ہے جو دونوں طرف چلتی ہے۔ اس کے فائدے اور برکات بہت زیادہ ہیں لیکن اگر اس کے تقاضے پورے نہ ہو سکیں تو دوسری طرف بات چلی جاتی ہے، اﷲ کی ناراضی کا سبب بن جاتی ہے۔ جگر مراد آبادی فرماتے ہیں:
''کافی ہے مجھے نسبتِ سلطان مدینہؐ''