اسوۂ حسنہ خاتم الانبیاء ﷺ
ہادی کامل ؐ کی سیرت و صورت پر ہزاروں کتب اور لاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں
تاریخ شاہد ہے کہ صفحۂ گیتی پر تخلیقِ نوع انسانی کے بعد سے آج تک بے شمار علمی، سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات رونق افروز ہوئیں، جن میں سرفہرست انبیائے کرام ؑ تشریف لائے۔
ہمارے آقا و مولا ﷺ کی آمد سے قبل دنیا میں ہر سو جہالت رقص کناں اور دنیا انسان کی بداعمالیوں سے ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی۔ ہر سُو کفر کی سیاہ تاریکیوں کے پہرے تھے۔ نیکی، نفسِ امارہ کی بے رحم زنجیر میں جکڑی ہوئی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ معمولی باتوں پر تلواروں کو خون کا نذرانہ پیش کیا جاتا تھا۔ نیکی، کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سسکیاں لے رہی تھی۔
انسانیت کے ظلم کے شکنجے میں جکڑی شدتِ کرب سے کراہ رہی تھی۔ پھر مظلوموں کی آہیں آسمان کو چیرتی ہوئی بارگاہ رب العالمین تک جا پہنچیں۔ رحمت حق جوش میں آئی اور فاران کی چوٹیوں سے آفتاب ہدایت نمودار ہُوا اور پھر اس آفتاب رشد و ہدایت کی کرنیں خاک پر پڑیں تو وہ کندن بن گئی۔ پتھر پر پڑیں تو وہ لعل بدخشاں بن گئے۔
ہر ذرّہ عکسِ جمال محبوبؐ سے ماہ تاب بن گیا۔ حکماء و فلاسفہ پیدا ہوئے، فصاحت و بلاغت کے امام آئے، قانون و طب کے ماہرین قدم رنجہ ہوئے، مگر ان تمام شخصیات میں جو قدر و منزلت سردار الانبیاء نبی کریم ﷺ کے حصے میں آئی اور جو فدائیت و جاں نثاری آپؐ کے اصحاب و نام لیواؤں نے دکھائی، کسی اور کو یہ اعزاز حاصل نہ ہُوا اور نہ ہوگا۔
گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادی کامل ﷺ کی سیرت و صورت پر ہزاروں کتب اور لاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں۔ اور کئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کے لیے معرض وجود میں آئے۔ یہ سلسلہ خیر ہنوز روز اول کی طرح جاری و ساری ہے۔
سیرت النبی ﷺ کی ابتدائی کتب عربی زبان میں لکھی گئیں پھر فارسی اور دیگر زبانوں میں یہ بابِ سعادت کھلا۔ مگر اس ضمن میں جو ذخیرۂ سیرت اردو زبان میں پیش کیا گیا۔ جس کی مثال اور نظیر عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی۔ اردو زبان کی بعض امہات الکتب ایسی ہیں کہ جن کی نظیر خود عربی زبان کے ذخیرے میں مفقود ہے۔
مذہب اور عقیدہ فقط ایک تحریری دستاویز نہیں ہے، بل کہ یہ اپنے معاشرہ میں ایسے کردار متعارف کرواتا ہے کہ جو اس مذہب و عقیدے کے اصولوں کی جیتی جاگتی مثال کے طور پر معاشرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یہ ہستی ﷺ اپنے قول و فعل میں اس قدر حق پر ہے کہ دنیا انہیں امین اور صادق کہہ کر پکارنے لگتی ہے۔
اسلام اپنے انتہائی عروج کے زمانے میں بھی تعصب اور ہٹ دھرمی سے پاک تھا، اسلام نے اس وقت بھی دنیا سے خراج تحسین وصول کیا جب مغرب پر تاریکی اور جہالت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ اسلام کی روشنی سے ظلمت کدے منور ہوگئے۔
اسلام نے مشعلِ ہدایت اور اخوت کا درس دیا۔ اﷲ تعالی نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کے ظاہر و باطن کو وہ عظمتیں اور وسعتیں عطا فرمائی ہیں۔ جن تک کسی جن و بشر کے لیے ان کی حقیقت تک رسائی ممکن نہیں۔ آپؐ کا پیکرِ ذات بھی ایک معجزہ ہے۔ حسن و کمال کی تمام ادائیں آپ ﷺ کی ذات میں جمع ہیں۔ جو ذات پاک مصطفی ﷺ کا فیضان ہے۔ یہ بات مسلمہ حقیقیت ہے کہ آپ ﷺ اﷲ تعالی کے حبیب ہیں ۔
اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر اپنے حبیب ﷺ کی قدر و منزلت انتہائی خوب صورت انداز میں واضح فرمائی ہے۔ جس سے ہمارے آقا نبی کریم ﷺ کی عظمت و رفعت اور بارگاہِ الہیہ میں کمال شانِ محبوبیت آشکار ہوتی ہے۔
سیرت نبویﷺ اپنی جامعیت و آفاقیت اور شان و شوکت کے لحاظ سے ہمیشہ موضوع اوّل رہی ہے۔ سیرت کا اعجاز و کمال یہ ہے کہ زمانۂ قدیم سے لے کر اب تک مختلف انداز میں مختلف پہلوؤں پر لکھا جاتا رہا ہے اور جب تک اس خطۂ ارض پر انسانیت کی بقاء ہے تب تک لکھا جاتا رہے گا۔
سیرت پر غیر مسلم دانش وروں نے اتنا لکھا ہے کہ اس کا احاطہ ممکن نہیں اور کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں سیرت نگار موجود نہ ہوں اور اس علاقے میں سیرت کی مہک نہ پہنچی ہو۔ نپولین بونا پارٹ کی زندگی رسول اﷲ ﷺ کی سیرت مبارکہ اور قرآن کے مطالعے نے بدل دی تھی۔
اس نے اﷲ کے آخری رسول کریم ﷺ سے اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار میں آپ ﷺ کو امن اور سلامتی کے ایک عظیم راہ نما قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپؐ نے اپنی عظیم شخصیت سے اپنے فدائیوں کو اپنے گرد جمع کیا۔ صرف چند سالوں میں مسلمانوں نے آدھی دنیا فتح کر لی۔ جھوٹے خداؤں کے پجاریوں کو مسلمانوں نے اسلام کا حلقہ بہ گوش بنا لیا۔ کفار اور مشرکین کے بت کدوں کو پندرہ سال کے عرصے میں ختم کر کے رکھ دیا۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حضرت محمد ﷺ بہت بڑے اور عظیم انسان تھے۔ اس قدر عظیم انقلاب کے بعد اگر کوئی دوسرا ہوتا تو خدائی کا دعویٰ کر دیتا۔ (بوٹا پارٹ اور اسلام ) نپولین بونا پارٹ پیغمبر کائنات حضرت مصطفیٰ کریم ﷺ سے بے پناہ عقیدت رکھتا اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ سے بے حد متاثر تھا۔ نپولین دل سے حضرت محمد ﷺ کا احترام کرتا تھا۔ فقہ کونسل نارتھ امریکا کے مطابق بھی بونا پارٹ کے قرآن اور سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کے بعد نظریات تبدیل ہوگئے تھے۔
معروف محقق اینڈریونائٹن نے مضمون میں نپولین بونا پارٹ کی رسول اﷲ ﷺ سے محبت کو بڑے شان دار الفاظ میں لکھا ہے کہ نپولین نے زندگی کے آخری برسوں میں سیرت نبوی ﷺ پر عمل کر کے اسلامی قوانین کو زندگی میں عملی طور پر اپنا لیا تھا۔
نپولین کی اسلام اور نبی مکرم ﷺ سے محبت کی بنا پر کئی مصری دانش وروں نے نپولین کو ''سلطان الکبیر'' کا خطاب بھی دیا۔ چوں کہ نپولین کے والدین کیتھولک عیسائی تھے اس لیے اس نے کلیسا سے اختلاف کے پیش نظر اپنے ظاہری طور طریقے نہیں بدلے تھے۔ وہ مصری علماء سے اکثر ملتے رہتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں مکمل اسلامی تعلیمات کی آگاہی حاصل ہوئی۔ اس نے اسلامی فقہ کے مطابق سزا و جزا کے قوانین نافذ کیے۔
انہوں نے اگست 1798ء کو مصر کے شیخ الاسلام کو ایک خط میں لکھا: ''میں تمام دانش وروں کو ملا کر دنیا میں قرآن کے اصولوں پر مبنی ایک منظم حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں۔ صرف قرآن پاک پر عمل کرکے ہی انسان سچی خوشیاں حاصل کر سکتا ہے۔'' نپولین نے بعد ازاں ''نپولین کوڈ'' کو فرانس، اٹلی، جرمنی، بیلجیئم اور پولینڈ میں رائج کیا تھا۔ اس کوڈ کے کئی دفعات اسلامی تعلیمات سے ماخوذ تھے۔
اﷲ رب العزت نے انحضرت محمد مصطفی ﷺ کی مقدس ہستی کو تمام نبی نوع انسان کے لیے رحمۃ اللعالمین ﷺ بنا کر بھیجا۔ آپؐ کی مقدس شخصیت ناصرف اﷲ کے بندوں کو اﷲ سے ملانے اور بزم جہاں میں شمع ہدایت بن کر آئی، بل کہ آپ ﷺ تمام بشری کمالات و محاسن کا کامل مجموعہ اور کامل سراپا حسن و جمال بن کر تشریف لائے۔